تحریر: صلاح الدین اولکھ
2005 ء کے وسط میں امریکہ اور یورپ کی افغانستان اور عراق میں جاری عسکری جارحیت نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی۔ اپنی عسکری اتحادی قوت کے گھمنڈ میں ناٹو افواج دونوں ملکوں میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہی تھیں۔ امریکہ میں کساد بازاری کا آغاز ہو چکا تھا۔ یورپ کے مالیاتی بحران کا آغاز تھا، یورپی و امریکی عوام اپنے ٹیکس کے پیسوں سے لڑی جانے والی جنگوں کے مطلوبہ اہداف کی تکمیل کی نوید سننے کو بیتاب تھیں لیکن افغانستان اور عراق میں مجاہدین کی مزاحمت اس قدر مضبوط ہو چکی تھی کہ کفار کے سب منصوبے ناکامی سے دوچار ہونے لگے۔
فلوجہ میں اتحادیوں کو تاریخی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ افغانستان میں مجاہدین کابل کے گردونواح تک اتحادی افواج پر حملوں کی صلاحیت حاصل کر چکے تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں کیخلاف عالمی جارحیت کا آغاز کرنے والے صہیونی منصوبہ سازوں نے اپنی شکست سے زچ ہو کر ایک ایسا گھنائونا کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا جس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے اور اس سازش کا مقصد تہذیبی تصادم کو ہوا دے کر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان نفرت کو عروج پر پہنچانا تھا۔ 30 ستمبر 2005ء کو ڈنمارک کے کثیر الاشاعت اخبار جیلنڈس پوسٹن (Jyllands-Posten) نے حضور نبی کریم حضرت محمدۖ کے 12 گستاخانہ خاکے اپنے کلچرل صفحہ پر شائع کئے۔
اس گستاخی نے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ دیا اور پوری دنیا میں اس کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے، احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور مظاہروں کا انعقاد ہونے لگا۔ اس سازش کے پس پردہ محرکات جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ہم چند حقائق قارئین کی نذر کریں۔
اپریل 2003ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں ڈینیل پائپس نامی صہیونی کو اہم عہدہ دیا۔ اس تھنک ٹینک کا بظاہر مقصد عالمی تنازعات کا پرامن حل ڈھونڈنا ہے، لیکن حقیقت میں یہ عالمی تنازعات کو جنم دینے کی منصوبہ بندی کرتا ہے جبکہ ڈینیل پائپس علانیہ طور پر مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے پورے خطے میں اسرائیلی حکومت اور عسکری فتح کو ضروری قرار دیتا ہے۔ یہی ڈینیل پائپس عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے اور عالمی تنازعات کھڑے کرنے کیلئے اسرائیل کا سب سے بڑا لابسٹ ہے۔ اکتوبر 2004ء میں جیلنڈس پوسٹن کا کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز ڈینیل پائپس سے ملاقات کرتا ہے اور پھر یہ دونوں یہودی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کر کے عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ کو مزید تیز کرنے کے منصوبہ کے بارے میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔ 16 ستمبر 2005ء ڈنمارک کی صہیونی نیوز ایجنسی رٹزائو نے ایک مضمون شائع کیا
جس میں مضمون نگار کیربلوٹیگن (Kare Bluitgen) نے اپنے ایک مضمون میں اس بات کا اظہار کیا کہ اسے اپنے مضمون ”قرآن اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی” جو بچوں کی کتاب کیلئے ہے اس میں خاکے بنانے کیلئے کوئی فنکار دستیاب نہیں۔ 19 ستمبر کو جیلنڈس پوسٹن اخبار کی صہیونی ٹیم فیصلہ کرتی ہے کہ وہ اخبار کارٹونسٹوں کی یونین سے درخواست کرے کہ وہ نعوذباللہ پیغمبر رحمتۖ کے کارٹون بنائے۔ صہیونیوں کے نمائندے فلیمنگ روز نے 42 کارٹونسٹوں کو خط لکھا کہ وہ گستاخانہ خاکے بنائیں۔ 15 کارٹونسٹوں نے حامی بھری جبکہ 3 نے بعد میں ایسا کرنے سے معذرت کر لی۔ پھر 30 ستمبر 2005ء کو آزادی اظہار رائے کے نام پر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی محبتوں کے مرکز پیغمبر رحمت حضرت محمد کریمۖ کے گستاخانہ خاکے شائع کئے گئے۔ سب سے پہلے ڈنمارک میں احتجاج شروع ہوا۔
اس معاملے کو مزید ہوا دینے کیلئے صہیونی ڈینیل پائپس پھر میدان میں آیا اور یہودیوں کے زیر اثر یورپ کے 7 بڑے اخبارات میں یکم فروری 2006ء کو فرانس میں چارلی ایبڈو، جرمنی، اٹلی۔ ہالینڈ، سپین اور سوئٹزرلینڈ میں جیلنڈس پوسٹن والے 12 خاکے شائع کئے گئے۔ یہودیوں کی ملکیت امریکہ کے سب سے بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز میں انٹرویو دیتے ہوئے گستاخ فلیمنگ روز نے واضح طور پر کہا کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کو فلسطینی بچوں کو مارنے کے منظر کا کارٹون کبھی نہیں دکھائے گا کیونکہ یہ دنیا میں نسل پرستی کو ہوا دینا ہو گا جس سے مغرب کے دوہرے معیار کا پتہ چلتا ہے۔
مغرب اور صہیونی اسرائیل کی تائید و حمایت کے بعد ڈنمارک اپنی اس گستاخانہ حرکت پر اس قدر مغرور تھا جیسے اس نے صلیبی جنگ میں فتح حاصل کر لی ہو۔ ایک جانب اس کے فوجی عراق اور افغانستان پر اتحادی افواج کے ہمرکاب تھے تو دوسری جانب وہ مغرب میں آزادی اظہار رائے کا علمبردار بننے جا رہا تھا۔ ڈنمارک کے مسلم علماء اور گیارہ مسلمان ملکوں پاکستان، سعودی عرب، ترکی، ایران، پاکستان، مصر، انڈونیشیا، الجیریا، بوسنیا ہرزیگووینا، لیبیا، مراکش کے سفیروں اور فلسطینی وفد نے ڈنمارک کے وزیرعظم سے اس معاملہ پر بات کرنے کی باضابطہ درخواست دی لیکن صہیونیوں کے پروردہ ڈنمارک کے صلیبی وزیراعظم آندرے فوگ راسموسن نے یہ کہہ کر ملاقات سے انکار کر دیا کہ اس کے ملک میں اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں، اگر کسی کو کوئی تکلیف ہے
تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ بعد میں عدالت نے بھی جیلنڈس پوسٹن کو اس معاملے سے بری کر دیا۔ ڈنمارک کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس معاملے پر معذرت کرے لیکن اس نے انکار کر دیا جس پر مسلمان ممالک میں ڈنمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک اٹھی جس نے ڈنمارک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک میں ڈنمارک کی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ہونے والے معاشی نقصان کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ڈنمارک کی صرف ایک ڈیری کمپنی آرلا فوڈز (Arla Foods) کو 40 دنوں میں 480 ملین ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ ایسی ہزاروں کمپنیوں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ڈنمارک کو روزانہ 1.6 ملین یورو کا نقصان ہوا اور 6 ماہ میں اس کی برآمدات کا حجم نصف رہ گیا اور پھر حملوں کے خوف سے جیلنڈس پوسٹن کا دفتر بھی بند ہو گیا
ڈنمارک کے وزیراعظم کو اعتراف کرنا پڑا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کا ملک بدترین عالمی سفارتی بحران کا شکار ہو چکا ہے، لیکن مغرب نے اس معاملے سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ پیغمبر رحمت حضرت محمد کریمۖ کی شان اقدس اور قرآن کریم کی شان میں گستاخیوں کو مزید بڑھا دیا، 2008ء میں ہالینڈ کے کارٹونسٹ گریگوری نیکشٹ نے اپنے خاکوں میں اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا۔ واضح رہے کہ گریگوری نیکشٹ ہالینڈ کے گستاخ فلم میکر تھیووین گاف کا قریبی ساتھی ہے جس نے 2004ء میں صومالی نژاد مرتد خاتون آیان ہرسی علی کے ساتھ مل کر گستاخانہ فلم (Submission) جس کا عربی نام اسلام رکھا گیا تھا بنائی تھی۔ اس فلم میں قرآن پاک کی توہین کی گئی اور ایک برہنہ خاتون کے جسم پر آیات قرآنی لکھی ہوئی دکھائی گئی تھیں۔
اس فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر تھیووین گاف کو 2004ء میں محمد بوژہری نامی ہالینڈ کے شہری نے جہنم واصل کر دیا تھا۔ اسی طرح 2008ء میں بھی ہالینڈ میں رکن پارلیمنٹ گیرٹ ویلڈرز نے ایک متنازعہ فلم ”فتنہ” بنائی جس میں قرآن کریم کی آیات پر تنقید کی گئی جس پر پوری دنیا میں مظاہرے کئے گئے اور گیرٹ ویلڈرز کے خلاف مقدمہ کا مطالبہ کیا گیا۔
2 نومبر 2011ء کو فرانس کے متنازعہ ترین اخبار چارلی ہیبڈو نے پیغمبر رحمتۖ کی گستاخی والا شمارہ شریعہ ہیبڈو کے نام سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ردعمل میں اس پر حملہ ہوا لیکن اس کا ایڈیٹر شارب گستاخیوں سے باز نہ آیا اور یہ سلسلہ 2012ء میں بھی جاری رہا۔
دوسری جانب امریکہ بھی گستاخیوں کے سلسلے میں پیچھے نہ رہا۔ ملعون پادری ٹیری جونز بھی قرآن کریم کے حوالے سے اپنی گستاخیوں سے باز نہ آیا اور پھر 21 مارچ 2011ء کو قرآن پاک پر مقدمہ بنا کر مجرم ٹھہرا کر نذر آتش کیا گیا جس پر پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا۔ اس موقع پر چیئرمین تحریک حرمت رسول مولانا امیر حمزہ نے ”میں نے بائبل سے پوچھا قرآن کیوں جلے” لکھ کر ٹیری جونز کی گستاخیوں کا تحریری مدلل جواب دیا، ستمبر 2012ء میں ٹیری جونز نے ایک متنازعہ فلم ”مسلمانوں کی سادگی” کے نام سے بنائی لیکن ان سب گستاخیوں کے منصوبہ ساز یہودیوں کو اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تھے۔ دوسری جانب عراق سے شرمناک شکست اور فرار کے بعد افغانستان میں بھی ناٹو کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی اور گزشتہ سال امریکہ اور ناٹو افغانستان سے پریشانی کے عالم میں بھاگ چکے ہیں۔
امریکہ افغانستان میں اب صرف علامتی طورپر موجود ہے۔ ان حالات میں شکست سے زچ ہو کر یورپ ایک مرتبہ پھر گستاخیوں کے راستے پر ہے۔ بدنام زمانہ میگزین چارلی ہیبڈو اپنی گستاخیوں سے باز ہی نہیں آ رہا تھا کہ ردعمل میں اس پر حملہ ہوا اور اس کے عملے کے لوگ مارے گئے۔ اس واقعہ کے بعد چند عالمی نشریاتی اداروں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ ایسا کوئی گستاخانہ خاکہ نہیں چھاپیں گے جس سے کسی کی مذہبی دلآزاری ہو لیکن جس طرح مغرب نے اکٹھے ہو کر پیرس میں یہ اعلان کیا کہ ہم سب چارلی ہیں اور اگلے شمارہ میں مزید گستاخانہ خاکے شائع کر کے 6 زبانوں میں 30 لاکھ کی تعداد میں پوری دنیا میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ یہ واضح طور پر مسلمانوں کیخلاف اعلان جنگ اور اس بات کا اظہار ہے کہ مغرب آزادی اظہار رائے کے نام پر دراصل پیغمبر رحمتۖ حضرت محمدۖ کی توہین کے درپے ہیں اور پوری دنیا کے گستاخوں کا پشتیبان ہے
جو عالم اسلام کو کسی طور گوارا نہیں۔ پورا عالم اسلام متحد ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بھی امیر جماعةا لدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید کی زیر قیادت تحریک حرمت رسول پاکستان کے چیئرمین مولانا امیر حمزہ مغرب کی گستاخیوں کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کر چکے ہیں جس میں انہیں ملک بھر کی دینی و سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل ہے۔ مال روڈ کے احتجاجی پروگرام میں سول سوسائٹی سمیت تمام طبقہ ہائے زندگی کے افراد کی شرکت اس بات کا اعلان ہے کہ حرمت رسول کے نام پر پوری قوم متحد ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امیر جماعة الدعوة پاکستان حافظ محمد سعید کے اعلان کے مطابق پہلے مرحلے میں فرانس کی مصنوعات کے مکمل بائیکاٹ کی بھرپور تحریک چلائی جائے تاکہ ڈنمارک کی طرح اسے بھی معلوم ہو کہ اگر گستاخوں کی سرپرستی کیلئے 40 ممالک اکٹھے ہو سکتے ہیں تو پھر 57 مسلمان ملکوں کے عوام و سربراہان بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں اور ان کا معاشی مقاطعہ کر سکتے ہیں۔
تحریر: صلاح الدین اولکھ
برائے رابطہ: 0322-9173226