تحریر : واٹسن سلیم گلِ، ایمسٹرڈیم
آج صبح کے جنگ اخبار میں ایوان صدر میں کرسمس ڈنر کے حوالے سے ایک خوشگوار خبر پڑھی ۔ اس تقریب میں ایک بہت اہم بات یہ تھی کہ وزیر اعظم پاکستان بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ دوسری سب سے اہم بات کہ پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو بہت اچھے طریقے سے پیش کیا ۔ پاکستان کےدو سب سے بڑے اور معتبر عہدےدار صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان ایک ساتھ اس تقریب میں پہنچے ۔ کرسمس کے حوالے سے اردو اور انگریزی مین گیت گائے گئے ۔ کرسمس کیک کاٹا گیا۔ یہ ایک نہایت خوش آئیند بات ہے اس سے نہ صرف مسیحیوں میں امتیازی سلوک کا احساس کم ہوتا ہے بلکہ اکثریتی مسلمان بھائیوں کے لئے بھی ایک مثال قائم ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے اقدامات معاشرے میں مزہبی عدم برداشت اور نفرت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہم 2016 کے استقبال کی تیاری میں مصروف ہیں ۔ مگر وقت کے ساتھ امن اور عدم برداشت میں کمی بہت تیزی کے ساتھ محسوس کی جا سکتی ہے۔ آپ اگر آج سے بیس سال قبل کے زمانے کا تقابل آج کے دور کے ساتھ کریں تو فرق واضع نظر آئے گا۔ اور تھوڑا اور پیچھے جایں تو دنیا میں محبت ، امن ، برداشت کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ میں یہاں انفرادی عادات و اطوار کی بات کر رہا ہوں۔ عدم برداشت اور نفرت پھل پھول رہی ہے اور یہ آخرت کی نشانیاں ہیں۔
مجھے پاکستان سے باہر کرسمس اور نیا سال مناتے ہوئے تقریبا 19 سال گزر گئے۔ ہم جب پاکستان میں تھے تو سوچتے تھے کہ یورپ میں کیسا کرسمس اور نیا سال ہوتا ہوگا۔ کتنی رنگینی ہوگی، گلیمر ہوگا۔ رنگ و نور کی محفلیں ہونگی۔ کتنا زبردست کرسمس اور نیا سال ہوتا ہوگا۔ میں گزشتہ 19 سال سے یورپ میں ان تقاریب کو منا رہا ہوں اور اپنے خاندان کے ساتھ ہر کرسمس اور نئے سال کی خصوصی عبادات میں شریک ہوتا ہوں۔ ان سے منسلک تقاریب میں شریک ہوتا ہوں۔ ویسے ہم مسیحیوں کے لئے کرسمس کا دن تمام دنوں سے زیادہ معتبر اور اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہم نئے سال کو بھی پورے جوش کے ساتھ مناتے ہیں۔ پرانے سال کے سکون سے گزر جانے اور نئے سال میں قدم رکھنے پر رب کا شکر کرتے ہیں۔
ویسے تو ہر سال کرسمس اور نئے سال کے موقع پر میں ان تہواروں کو مناتے وقت پاکستان میں منائے گئے کرسمس اور نئے سال کا موازنہ کرتا ہوں۔ تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اپنے ملک میں کرسمس اور نئے سال میں گزارے گئے وقت میرے لئے قیمتی اثاثے سے کم نہی ہیں۔ اب وہاں کرسمس کیسے منایا جاتا ہے اس کا مجھے احساس نہی ہے کیونکہ میں صرف سنتا ہوں کہ کرسمس اور نیا سال کیسے منایا گیا۔ 80 کی دہائ کے آغاز کے سال تھے۔ یہ میرے لڑکپن اور جوانی کے امتزاج کے سال تھے۔ پاکستان بلخصوص کراچی پُر سکون اور روشنیوں کا شہر تھا۔ عدم برداشت ، تصُب، نفرت، دہشتگردی، ڈر، خوف نام کی چیزوں کا وجود تک نہی تھا۔ ہم مسیحی کرسمس کوائرز بنا کر پورے کراچی میں گھومتے تھے۔
کوائر گروپس اپنے کرسمس گیتوں کی پریکٹس تقریبا ایک ماہ قبل شروع کر دیتے تھے۔ اس میں مسیح ابن مریم کی ولادت کے حوالے سے گیت ترتیب دیے جاتے تھے۔ ہم پریکٹس کے دوران ڈھولک، جھانجھ اور بانگو بجاتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم گیتوں کی پریکٹس رات کے 10، 11 بجے تک کرتے تھے اور پورے ساز ؤسامان کے ساتھ اونچی آواز میں گاتے تھے۔ اور یہ سلسلہ ہر سال جاری رہتا تھا۔ میرے گھر کے آس پڑوس میں مُسلمان بھی رہتے تھے۔ مجھے یاد کرنے سے بھی یاد نہی آرہا کہ کبھی کسی نے یہ شکایت کی ہو کہ وہ ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ یا کسی نے کوئ شکایت کی ہو۔ یہ تو پڑوسی تھے مگر ہم جب 23 دسمبر اور 24 دسمبر کی رات کو کراچی کے مختلف علاقوں میں کوائرز کے ساتھ نکلا کرتے تھے۔ اور ساری ساری رات گاتے بجاتے تھے کبھی بھی کسی بھی جانب سے ہمیں مشکل کا سامنا نہی ہوا۔ ہم ساری ساری رات بلا خوف و خطر پورے کراچی میں کوائر نکالتے تھے۔
ہمارا کوائر گروپ پیسے اکھٹے کرتا تھا ۔ اور یہ پیسے بجائے چرچ میں دینے کہ ہم خود ہی کھا جاتے تھے۔ نرسری کے بس اسٹاپ پر موجود ایک ریسٹورینٹ ہوتا تھا۔ ہم صبح سویرے پراٹھا اور چائے کا ناشتہ کر کے اپنے گھروں کو واپس آیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کراچی کا سب سے بڑا بازار صدر بازار کرسمس کے دنوں میں خصوصی طور پر سجا ہوتا تھا۔ وہ تمام اشیاء جو کرسمس کے حوالے سے آج مجھے یورپ میں دکانوں میں نظر آتی ہیں اس وقت صدر میں بھری ہوتی تھیں۔ کرسمس ٹری، اس کی ڈیکوریشن کا سامان ، کرسمس فادر کا گیٹ اپ، کرسمس اسٹار وغیرہ سب کچھ دستیاب ہوتا تھا۔ بلکہ رنگ برنگے ڈیکوریشن کے ربن تو ہر دُکان پر دستیاب ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کرسمس کے دنوں میں پورے کراچی سے مسیحی صدر میں شاپنگ کرتے نظر آتے تھے اور بوری بازار میں واقع معروف مکس چاٹ کی دُکان پر چاٹ بھی کھاتے تھے۔
کرسمس کے دنوں میں علاقے کے درزیوں کے پاس بھی اتنا کام ہوتا تھا کہ کپڑے وقت پر نہی ملتے تھے۔ کراچی میں کوآپریٹو مارکیٹ، طارق روڈ میں درزیوں کی دکانوں پر مسیحی نوجوانوں کا رش اور پھر درزیوں سے کپڑوں کے حوالے سے نوک جھوک مجھے آج بھی یاد ہے۔ مگر مجھے اتنی فکر نہی ہوتی تھی کیونکہ کراچی کا لنڈا بازار بھی موجود تھا۔ جو مجھ جیسے بہت سے نوجوانوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی تھا۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ 24 دسمبر اور 31 دسمبر کی رات 12 بجے چرچز میں عبادات کا اہتمام ہوتا تھا جو آج بھی ہے مگر اس وقت تمام مسیحی خاندان بلا خوف آدھی رات کو چرچ آتے تھے۔ خواتین ،بچے بھی تنہا چرچ آجاتے تھے اور ہمیں رات میں دن کا سا سما لگتا تھا۔ رات 2 بجے کینڈل لائٹ مارچ ہوتا تھا۔ چرچ کے بعد آدھی رات کو خاندان اکھٹے ہوتے تھے اور رات بھر ایک دوسرے سے ملتے اور جشن مناتے تھے۔ 24 دسمبر کی ساری رات جاگنے کے بعد صبح کراچی میں حسن سکوائر پرموجود سبزی منڈی سے فروٹ خریدنے کی روایت عام تھی۔
دوسرے دن کرسمس اور نئے سال کا میلہ بھی لگتا تھا جس مین تمام کمیونٹی اکٹھی ہوتی تھی اور لوگ ایک دوسرے کو ملتے تھے۔ دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے جانا اور دیر ہو جانا ،پھر اس کے جواب میں ماں کی ڈانٹ اور باپ کا تھپڑ یہ سب مجھے یاد ہے اور یہ سب نایاب ہے۔ اب ہم یورپ میں ہیں کرسمس اور نیا سال ہے۔ خوشیاں ہیں۔
چرچز، عبادات، گیٹ ٹو گیدر سب کچھ ہے مگر یہ سب میرے ان دنوں کے سامنے کچھ بھی نہی ہے۔ نا اب وہ کراچی ہے اور نہ ہی وہ حالات، نا وہ دوست اور نا وہ احباب، نا وہ بچپن اور نا وہ لڑکپن، نا وہ اڑوس اور نا وہ پڑوس، نا ماں رہی اور نا باپ۔ کہا گئ کرسمس اور نیے سال کی وہ تقریبات جو مجھے آج بھی ان دنوں میں بے چین کر دیتی ہیں۔ آج میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہنستا مسکراتا ان دنوں کو مناتا ہوں مگر خاموشی میں تنہائ میں میری انکھیں نم کیوں ہو جاتیں ہیں۔ مجھے کیوں پاکستان میں منایا جانے والا کرسمس اور نیا سال آج بھی شدت سے یاد آتا ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان میں جلد امن ، محبت ، بھائ چارے کی فضا دوبارہ ویسی ہو ہو جائے جیسی کہ آج سے تیس سال قبل تھی۔
تحریر : واٹسن سلیم گلِ، ایمسٹرڈیم