سمجھ نہ آئے، معیشت زیادہ خراب یا مایوسی زیادہ پھیلائی جارہی، حکومت زیادہ نالائق یا پروپیگنڈا زیادہ کیا جا رہا، حالات آؤٹ آف کنڑول یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے ایسا تاثر دیا جارہا، بلاشبہ ڈالر شُتر بے مہار روپیہ، افغانی ،نیپالی کرنسی سے بھی بے قدرا، بلاشبہ 9ماہ میں ڈالر مہنگا ہونے سے ایک دھیلا نہ لینے کے باوجود 2ہزار ارب قرضے بڑھ گئے، بلاشبہ ایک ماہ میں اسٹاک ایکسچینج میں 4ہزار پوائنٹس کی کمی، کھربوں ڈوب گئے، بلاشبہ بجلی، گیس مہنگی، مزید مہنگی ہوگی، بلاشبہ مہنگائی کے توبہ شکن مرحلے ابھی باقی، بلاشبہ آئی ایم ایف ڈیل کسی پل صراط سے کم نہیں، 39 مہینوں میں ساڑھے 6ارب ڈالروں کیلئے 8سو ارب کے نئے ٹیکس لگانا ہوں گے، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھولنا پڑے گا، 90 فیصد سبسڈیز ختم کرنا ہوں گی، ڈالر پر حکومتی کنڑول نہیں رہے گا۔ گیس، بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں مرحلہ در مرحلہ اضافہ کرنا ہوگا، اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے تک کی نجکاری ہو گی، آئی ایم ایف سے رقم قسطوں میں ملے گی، ہر 3ماہ بعد حکومتی کارکردگی کو جانچے گا، آئی ایم ایف مطمئن ہوا تو ٹھیک ورنہ قرضے کی اگلی قسط سے معذرت، بلاشبہ آئی ایم ایف ڈیل کے بعد 24 گھنٹوں میں ڈالر 9 روپے مہنگا، اسٹاک ایکسچینج 8 سو پوائنٹس نیچے گری۔
بلاشبہ یہ ہوش اڑا دینے والے اعداد و شمار، بری پرفارمنس کی ایک وجہ حکومتی نااہلی، نالائقی، کنفیوژن مگر پھر بھی کیا یہ کہنا درست کہ حکومت مکمل ناکام ہوچکی، انتخابات واحد حل، کیا یہ کہنا ٹھیک کہ حکومت کو فارغ نہ کیا تو مارشل لا کا خطرہ، کیا ایسا نہیں لگ رہا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے مایوسی کو ڈبل ٹرپل بنا کر دکھایا جارہا، حالات خراب مگر اتنے خراب نہیں، جتنا بتائے جارہے۔ فرض کریں اگر آج عمران خان کو ہٹا کر نواز شریف یا زرداری صاحب کا کوئی شیر جوان وزیراعظم بنا دیا جائے تو حالات ٹھیک، معاشی مسائل حل ہو جائیں گے، ملک میں دودھ، شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی، آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا جائے گا؟ نہیں بالکل نہیں، تو پھر کیوں اصلی مایوسیوں کے ساتھ نقلی مایوسیاں پھیلائی جا رہیں، جعلی مایوسی فیکٹریاں چلائی جا رہیں، اِس لئے کہ عمران خان کو ناکام بنانا، اس لئے کہ عمران خان کی کامیابی کا مطلب اسٹیٹس کو کی ناکامی، باریوں کا خاتمہ، دو پارٹی سسٹم کا دی اینڈ، مل جل کر کھانے کا خاتمہ، من مرضی کی جمہوریت کا اختتام، اس لئے کہ یہ ان چند شاہی گھرانوں کی بقا کا مسئلہ، جنہوں نے اگلے 50سال تک اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، یہی وجہ وہ بھی آج عوام کیلئے تڑپنے کی اداکاریاں کر رہے جن کی وجہ سے عوام تڑپ رہے، وہ بھی آج عوامی دکھ درد بانٹنے کے ڈرامے کرر ہے، جنہوں نے ہمیشہ عوام کو دکھ درد دیئے، وہ بھی سبزیوں، فروٹوں، آٹے، گھی کے بھاؤ پر پر یشان، جن کیلئے عوام کی حیثیت سبزیوں، فروٹوں، آٹے، گھی جتنی بھی نہ تھی، ان کی نظر میں تو عوام پیلی ٹیکسیوں کے ڈرائیور، سستے تندور سے سستی روٹیاں کھانے والے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگراموں اور ہیلتھ کارڈوں کی لائنوں میں لگے بھکاری، کہنے کو اقبال کے شاہین، اصل میں بچا کھچا نوچتی چیلیں، ان کا نظام ایسا 2فیصد کیلئے دودھ ملائیاں، 98 فیصد کیلئے وعدوں، امیدوں کی چوسنیاں۔
اندازہ کریں، اس ملک میں جہاں ہر نوازشریف کا کیس ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے، جہاں ہر آصف زرداری کو آدھ درجن کیسوں میں ایک ہی دن ضمانتیں مل جائیں، جہاں ہر شہباز شریف کی لندن میں بیٹھے ضمانت میں توسیع ہوجائے، جہاں ہر حمزہ کو چھٹی والے دن گھر کے بیسمنٹ میں انصاف مل جائے، وہاں عوام کا حال یہ کہ ایک غریب پان والے جمشید اقبال کو احترام رمضان آرڈیننس کے تحت 5دن قید کے خلاف اپیل پر 6سال بعد انصاف ملے، ہے نامزے کی بات، 5دن قید کے خلاف اپیل، فیصلے میں 6سال لگ گئے، اب یہ نظام بنانے والے، عوام، عوام کررہے ہوں تو کون اعتبار کرے گا، رہ گئی معیشت کی بدحالی تو جہاں چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں کو قدم قدم پر تحفظ ہوں گے، نرمیاں برتی جائیں گی، رعایتیں ملیں گی، وہاں معاشی خوشحالی خاک آئے گی، جہاں سیاستدان، بیورو کریٹس کرپشن، بے ایمانی، دو نمبری میں نکونک ہوں گے، وہاں معاشی خوشحالی خاک آئے گی، جہاں صورتحال یہ ہوگی کہ د و چار دن پہلے حفیظ شیخ رعایتیں مانگتے تاجروں، ایکسپوٹروں سے جب کہیں ’’یہ سب رعایتیں لے کر ایکسپورٹ بڑھائیں گے‘‘ تو جواب ملے ’’ایکسپورٹ نہیں بڑھا سکتے لیکن رعایتیں دیدیں‘‘ ان حالات، اس مائنڈ سیٹ میں خوشحالی کیا خاک آئے گی، جہاں قوم ایسی کہ حج، عمرے، دنیا بھر میں ٹاپ فائیو میں جبکہ جھوٹ، منافقت، ملاوٹ میں بھی پانچواں نمبر، وہاں خوشحالی کیا خا ک آئے گی۔
بلاشبہ معاشی بحران مگر اتنا بھی نہیں کہ یہ فیصلہ صادر کر دیا جائے کہ 9ماہ کی حکومت ہر خرابی کی ذمہ دار، اسے نہ ہٹایا گیا تو مارشل لا لگنے کا خطرہ، حالانکہ ہمارے ہاں ہی نہیں پوری دنیا میں معاشی بحران چل رہا، صرف روپیہ نہیں پاؤنڈ بھی ڈی ویلیو ہوا، کل ایک پاؤنڈ کے دو ڈالر تھے، آج ایک پاؤنڈ کے 1.30 ڈالر، کل ایک یورو کی ویلیو تھی۔ 1.80 سے 1.95 ڈالر، آج ایک یورو 1.12 ڈالر کا، مہنگائی برطانیہ میں بھی، پٹرول 200، ڈیزل 250 روپے کا ایک لیٹر، سعودیہ جہاں 95 پیسے کا ایک لیٹر پٹرول وہاں آج دو ریال کا ایک لیٹر، مہنگائی ہرجگہ، کرنسی کی بے قدری ہرجگہ، جن حالات سے ہم گزر رہے، ان سے سب گزر رہے، ہمیں صورتحال اس لئے مشکل لگ رہی کیونکہ یہاں جزا، سزا کا نظام نہیں، گھوڑے، گدھے ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جارہے، دوفیصدکی سات نسلیں سنور چکیں، 98 فیصد کا حال نہ مستقبل، جو ڈکیتیاں ہوچکیں ان کا حساب لینے نہیں دیا جا رہا، جو ڈکیتیاں ہورہیں، ان کو روکا نہیں جا رہا، پھر ان مشکلات کو مایوسی کے تڑکے اس لئے لگائے جارہے کیونکہ تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکالنی، عمران خان کو ناکام بنانا اور کھال بچاؤ، آل بچاؤ اور مال بچاؤ مقصد، اب یہ تو معلوم نہیں کہ مکار، عیار دشمنوں اور چھوٹے دماغوں، لمبی زبانوں والے نااہل، ناتجربہ کار دوستوں میں گھرے عمران خان کی چومکھی لڑائی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے لیکن یہ معلوم کہ اگر اس چومکھی لڑائی میں عمران خان ہار گیا تو اگلے پچاس سال پاکستان میں امید، خواب کی موت ہوجائے گی۔