تحریر : شاہ بانو میر
دنیا کا روز اول سے وطیرہ رہا ہے کہ طاقتور نظام ہو یا انسان اسی کی یہ دنیا ہے ٬ یہ دنیا کسی ملک یا کسی انسان کو برا بھلا کہہ رہی ہوگی مگر جیسے ہی لکشمی دیوی اس پے مہربان ہوتی ہے ساری دنیا اسی کے گُن گاتی ہے٬ اس کے عیوب اسکی برائیاں نجانے کہاں پسِ چلمن گُم ہو جاتی ہیں ٬ یہ معیار ہے مادیت پرست دنیا کا٬ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مادیت پرستی میں اس قدر جھوٹ کی آمیزش کر دی گئی ہے کہ اب آپ کو ڈھونڈے سے بھی اصل چیز کہیں دکھائی نہیں دیتی ٬ کامیابی ہے تو وہ مصنوعی٬ ترقی ہے تو وہ مصنوعی٬ معیار ہے تو وہ مصنوعی٬ خوبصورتی ہے تو وہ مصنوعی۔
الغرض ہر طرف دھند کے بادل لہرا رہے ہیں ٬ اور تو اور اب تو نوبل انعام بھی جو دیا جا رہا ہے وہ کارکردگی کی بنیاد پر نہیں شائد ہمدردانہ سوچ اور مخصوص ممالک کے مخصوص مفادات کو پیش ِ نظر رکھ ر دیا جا رہا ہے٬ پاکستان جیسے ملک میں ان امراء کو کوئی ذہین انسان دکھائی نہیں دیا بلکہ جس نے اپنے پیارے وطن پاکستان کے لئے کچھ کرنے کی کوشش کی اسی کو دنیا میں مجرم ثابت کر کے اس پر مزید تحقیق کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیے٬ اور جس ملک کو عظیم بنانے کے لیے وہ انسان ساری دنیا میں بُرا بنا اس ملک نے اپنی روایت قائم رکھتے ہوئے اس کی وفاداریوں محبتوں کا صِلہ اپنے مخصوص انداز میں الزامات لگا کر بہتان تراشی کر کے ماشاءاللہ قائم و دائم رکھا۔
شائد اسی لئے اب آسان نسخہ سب نے ایجاد کر لیا کہ بیرونی ممالک سے بہترین تعلقات استوار کرو٬ اسلام پاکستان نظریہ سب اس ملک میں اب بےمعنی ہیں٬ وقعت ہے آج تو صرف نمائش کی ٬ انعامات کی٬ تصاویر کی ٬ پوری دنیا میں طے شدہ پروگرم کے تحت پھیلائی گئی اشتہاری مہم کی ٬ اور اگر کوئی خوش نصیب خاتون کی صورت ہو اور اس پےکسی بھی قسم کا ظلم پاکستان میں کیا گیا ہو تو آپ سمجھیں کہ اس کی اور اس کے خاندان کی قسمت کھل گئی ٬ قسمت کی دیوی اس پے مہربان ہو گئی٬ کچھ یہی حال سوات کی شہزادی کے ساتھ بھی ہوا۔
پہلے غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ساتھ مخصوص انداز میں ان کی تحریروں نے شہرت پائی بلکہ دلوائی گئی ٬ پھر بچیوں کی تعلیم کا نعرہ لگا کر آئے روز بیانات دلوائے گئے ٬ مد مقابل کا اشتعال میں آنا لازمی امر تھا ٬ یہ بد نصیبی ہے جو جو ان بیرونی طاقتوں کے اشاروں پے زیادہ اچھل کود کرتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کی نفرت کا شکار ہو جاتا ہے٬ یہی کچھ اب پھر ہو رہا ہے٬ پاکستان سے ائیر ایمبولینس سے روانہ ہوئی ایک بچی یورپ کی سرزمین پے پہنچتے ہی ایسی سٹار بن چکی ہے کہ اس نے”” عمر بھر کی ریاضتوں کے بعد نام مقام پانے والوں کی چھٹی کر دی”” اقوامِ متحدہ میں بیانات دلوائے جا رہے ٬ کہیں کتاب لکھی جا رہی ہے یا لکھوائی جا رہی ہے٬ جس میں نظریات عقائد کسی طور کسی مسلم کے نہیں٬ اسی پر اِکتفا نہیں کیا گیا۔
نوبل انعام وہ بھی انہی کو دیا گیا اب اگر کوئی حقیقی کام ہوتا تو صرف ان کو ہی ملتا لیکن پس منظر میں اسلام دشمن ایجنڈا اور جبرا گولیاں برساتی انڈین سرکار کے ساتھ ہاتھ ملاؤ پالیسی کارفرما تھی لہٰذا “”چُونگے”” میں انہیں بھی نوبل انعام کا دیدار کروا دیا گیا٬ سوچتی ہوں یاربّ کیسی دنیا بنا دی؟ آرٹیکلز وہ جو کسی کے لکھے ہوئے جن سے آپ کا نام پھیلایا گیا٬ تقاریر وہ کسی کی اور کی سوچ جو آپ سے کہلوائی گئی٬ کتاب جو ثابت ہو گئی کہ آپ کا صرف نام ہے٬ پیغامات دے کر آپکو مدر ٹریسا بنانے والوں کا یہ انداز دنیا جانتی ہے٬ اب نوبل انعام ٬ ہر اہلِ ہُنر آج اداس ہے اور افسردہ بھی قابلیت کا محنت کا دن رات عرق ریزی کا ثمر یہاں ملتا نہیں ٬ لیکن اغیار کے ہاتھوں اپنے آپ کو سونپ دو تو پھر وارے نیارے ہیں ٬ ہر چیز جھوٹ ہر کامیابی اصل میں ناکامی نہ لینے والی کو شرم آتی ہے کہ کس بل بوتے پے لے رہی اور نہ دینے والوں کو شرم آتی ہے کہ پوری دنیا ان کے ایجنڈے کو جانتی ہے کہ وہ مہربان تو آسمان مہربان٬ جن کو مسلمان ایک نظر نہیں بھاتے وہ اتنے مہربان کیسے ہو گئے کہ ایک مسلمان لڑکی پر انعامات ہی انعامات اور نوازشیں ہی نوازشیں حیرت زدہ ہوں کہ جس پاکستان کو دہشت گرد کہتے ان کے ادارے نہیں تھکتے وہ آج اس ملک کی بچی کو نجانے کہاں کی پرنسسز اور کہاں کی معلوماتی نظریاتی حساس اور عالمگیر سوچ رکھنے والی مافوق الفطرت بچی ظاہر کر رہے ٬ صرف ا سلئے کہ وہ جو مقاصد براہ راست حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
آج اس بچی کی آڑ لے کر وہ سب پراگندہ مواد کتابی صورت میں منظرِ عام پر لے آئے ٬ ہر تقریر میں پاکستان کے ساتھ بھارت کو نتھی کر کے بیان دینے والی یہ بچی اور اس کے والدین اور ان کے ساتھ پاکستان کے مخصوص افراد نجانے کیوں اسی ملک کے ایمل کانسی کا حشر بھول جاتے ہیں٬ جب تک ان بڑے لوگوں اور ملکوں کے لئے کوئی غلام بن کر ان کی جی حضوری کرتا ہے وہ انعامات و اکرامات کا مستحق ٹھہرایا جاتا ہے ٬ جیسے ہی اللہ حق کا چراغ دل میں روشن کرتا ہے اور وہ انسان غیرت کا خودی کا اِدراک کرتے ہوئے ان سے الگ ہونا چاہتا ہے بس زندگی وہی تھم جاتی ہے٬ یہ انعامات یہ تحائف یہ شہرتیں یہ نوازشیں ختم اور اذیت ناک موت ان کا مقّدر٬ بی بی مصنوعی ہیں٬ ذرا ایک لحظہ سوچنا اکیلے میں،؟ ایسا کونسا تیر مارا آپ نے سوائے غیر ملکی زبان سیکھ کر اور سوچ اپنا کر ؟ بی بی انعام وہی انعام ہے و تخلیقی صلاحیت پر ملے ٬ جس سے ضمیر مطمئین ہو٬ بی بی کیا آپ اتنے بڑے پلیٹ فارمز پے جا کر وہاں بول کر تصاویر بنوا کر پوری دنیا میں نام کما کر کیا آپ کا ضمیر مطمئین ہے؟ کیا آپ سوچتی ہیں کہ سچ میں آپ نے کچھ ایسا کیا تھا کہ آپکو “” چُونگے”” کا یہ نوبل پرائز ملنا چاہیے تھا؟ اصل میں قصور آپ کا بھی نہیں جو ادارے و ملک اپنے قیمتی افراد کی مناسب حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے اس ملک کے باسی یونہی “” چُونگے “” میں ملی بھیک کو اپنی نام نہاد قابلیت کا ثمر سمجھ کر جھوٹی شان سے انعام وصول کرتے ہیں ٬ انعام تو انعام ہے اور وہ بھی نوبل خواہ “” چُونگے”” میں ملا ہوا ہو٬ جس ملک کا نظام نہ ہو طریقہ کار نہ ہو ٬ وہاں قابل بزرگوں کو ذہین و فطین انٹلیکچوئیلز کو انعامات نہیں ملتے بلکہ بچوں اور بچیوں کو نواز کر اس ملک کے ہر شعبے کو تمانچہ رسید کیا جاتا ہے اسی لئے میرے لئے یہ “” چُونگے “” کا نوبل پرائز ہے کیونکہ ایک چھوٹی بچی کو بہت سے قابل بڑے لوگوں کی موجودگی میں دیا گیا ہے۔
تحریر : شاہ بانو میر