تحریر :۔انجم صحرائی
یہ گذرے دنوں کا ذکر ہے جب راوی چین ہی چین اور امن ہی امن لکھتا تھا وہ اس لئے کہ دن کسی خوف کے بغیر گذ رتا تھا اور رات باہر گذاری جا سکتی تھی۔ ریلوے سٹیشن آباد اورشہر کی سڑکیں روشن ہوا کر تی تھیں ۔لوگ لوڈ شیڈنگ سے نا آشنا تھے اور بلیک اینڈ وائٹ پی ٹی وی پر میرے گا ئوں میں بجلی آ ئی ہے کے اشتہارات چلا کرتے تھے۔ یہ کو ئی صدیوں پہلے کی بات نہیں یہی کو ئی بیس پچیس سال پہلے کا قصہ ہے۔ پٹواری چھپ چھپا کے رشوت لیا کرتے تھے اور جج سا ئیکلوں پہ عدا لتوں میں جا یا کرتے تھے ۔ شیروانی اور جناح کیپ معزز لو گوں کا پہنا وا ہوا کرتا تھا ۔سودا سلف بیچنے کے لئے دوکاندار قسمیں کھا نا گناہ سمجھتے تھے ۔کھیلوں کے میدان آباد اور نو جواوں کا سڑک کنارے بیٹھنا اور کھلے گریبان راہ چلتے سگریٹ پینا معیوب سمجھا جا تا تھا۔
ناز سینما آباد ہوا کرتا تھا اور رات دیر دیت تک جا گنے والوں کی عیا شی اللہ دیا کے ہو ٹل کی چا ئے ہوا کرتے تھی ۔پڑھے لکھوں کی ادبی محفلیں سٹیشن کے پلیٹ فارم پر بنے ٹی سٹال یا پھر سٹیشن سے باہر سڑک کنارے بنے ہو ٹلوں کے سا منے رکھے ہما چوں پہ جما کرتی تھیں ۔ بلدیہ کی لا ئبر یری کتابیں پڑ ھنے والوں سے بھری ہو تی تھی اور بچوں کے رسا لے بھی بچے اور بڑے پڑھتے نظر آ تے تھے ۔ ہر گلی محلے میں لا ئبریاں ہو تی تھیں جہاں سے مطا لعہ کے شو قین ایک آ نا روزانہ پہ کتاب لیتے اور پڑھنے کی تشنگی دور کرتے ۔ شہروں اور گا ئوں کے عام گھروں میں دودھ بیچنا گناہ سمجھا جا تا تھا ۔ اور چا ٹی کی لسی میں مکھن ڈال کر پڑو سیوں کو دی جا تی تھی ۔ بازار میں سبزی والا سبزی کے سا تھ سبز دھنیا ، مر چیں اور ایک دو ٹماٹر مفت دیتا تھا ۔سب گھر میں پکنے والی ہا نڈی میں پڑو سیوں کا حصہ ہو تا تھا ۔سبھی بچے سب ما سیوں کے گھروں میں کھیلا کرتے تھے اور سب ما مووں سے ڈرا کرتے تھے ۔محلے کی چو پا لوں پر بزرگ با بوں کا راج ہوا کرتا تھا۔
مو نڈھووں پہ بیٹھے سفید براق جیسے کپڑے اور پگڑیاں پہنے اور حقے پیتے ان با بوں کی آ نکھیں بڑی عقا ب ہو تی تھیں جبھی تو سبھی دادیاں ، نا نیاں اور امیاں اس وقت پڑوس کے گھروں میں جا نے کے لئے نکلتیں جب یہ بابے نماز کے لئے مسجدوں میں چلے جاتے اور چو پال خا لی ہو تے ۔کس انجان بندے کا گھر کے دروازے پہ آ کے آواز دینا معیوب سمجھا جا تا چو پال میں بیٹھے با بے مہمان کو اپنے پاس بٹھا کر کسی بچے کو مطلوبہ شخص کے گھر سندیسہ بھیجتے اور جب تک میز بان چو پال پہ آتا مہمان چا ئے پا نی پی چکا ہوتا ۔مسا فر کو کھا نا کھلا نا عبا دت سمجھا جا تا تھا ۔با ہر سے آ نے والی با را تیں تین تین روز رہا کر تی تھیں اور سبھی گا ئوں والے گا ئوں کی بیٹی کی بارات کے میز بان ہوا کرتے تھے ۔ چا ندنی راتوں لڑکے اور لڑ کیاں اکٹھے کھیلا کرتے تھے مگر بہت کم سننے کو ملتا کہ وہ بھاگ گئی ہے اور وہ بگھا کر لے گیا ہے ۔ گا ئوں کی عزت سب کی عزت ہوا کرتی تھی۔
سبھی گا ئوں کے لوگ ذات برادری سے بڑھ کر گا ئوں کے رشتوں میں ایسے جڑے ہو تے تھے کہ چو ہد ریوں اور ملکوں کے بچے بھی مرا ثی اور مصلی جیسے کمی کمین لو گوں کو بھی چا چے اور ما موں کہتے تھے ۔ کسی کی کیا مجال کہ گا ئوں کے امام صاحب کے آ گے سر اٹھا ئے اور زبان چلا ئے ۔ سکول کا ما سٹر ،مسجد کے امام صاحب ، ڈاک خانہ کا ڈاکیا ،محکمہ زراعت کا انسپکٹر ،ریلوے سٹیشن کا با بو ، لال دوائی والا ڈاکٹر ، سفید لٹوں والا کھا نستا حکیم ،نمبردار اور چو کیدار یہ لوگ ہی وی وی آ ئی پی پی ہوا کرتے تھے گا ئوں کے ۔تھانہ کچہری کے نام تو لو گوں نے سن رکھے تھے مگر جب بھی تھانہ کچہری کا ذکر ہو تا لوگ کا نوں پہ ہا تھ رکھ کے کہتے کہ اللہ کسی کو نہ دکھا ئے ۔ رات کے سنا ٹے میں کنووں میں جتے بیلوں کے گلوں میں لٹکی گھنٹیوں کی آ وازیں اور کھیتوں میں پا نی لگاتے جوانوں کے ڈوہڑوں کی تا نیں جو مزہ دیتی ہیں اور جو اثر با ند ھتی ہیں اسے لفظوں میں بیان کر نا بہت مشکل ہے
چھو ٹی چھو ٹی دیواروں والے بڑے بڑے صحن کے کھلے کھلے گھر جہاں لگے ٹا لہی ، نیم ، سرس اور بیری کے درختوں نیچے بندھی بھینس ، گا ئے ، بکری بھیڑ یں اور ان کے ساتھ ایک گد ھا ۔ صبح کا ذب کے وقت ان گھروں میں دن کا آغاز ہو جا تا ، دادیاں اور نا نیاں نماز تہجد کے بعد ہا تھ کی چکی سے آٹا پیستیں اور بڑے بو ڑھے مسجد چلے جاتے۔ اذان ہو تے ہی امیاں ، خا لا ئیں چا چیاں اور سبھی چھو ٹے بڑے جاگ جا تے نماز فجر اور تلا وت قرآن مجید کے بعد گھر کی صفا ئی کی میں مصروف ہو جا تیں ۔ گھر کی دہلیز ضرور صاف کی جا تی ۔بچے قرآن پڑ ھنے بابا جی کے گھر چلے جا تے اور نو جوان دودھ دو ہنے کے بعد گدھا ریڑھی پہ سوار گھاس کا ٹنے نکل جا تے اور ہاں یہ بھی بتا تا چلوں نماز سبھی پڑھتے کہ اللہ میاں سے زیادہ با با کا ڈر ہو تا ۔ بزرگ نماز پڑھ کر واپس آ تے تو حقے کی چلم سلگا نے کے لئے صحن کے وسط میں بنے مٹی کے چو لہے میں آگ جلا تے۔
آ گ سلگا نے کے لئے اپلے استعمال کئے جا تے اور یہی سلگتی آگ چا ئے اور رو ٹیاں بنا نے کے کام آ تی ۔ کھا نا دو وقت کھا یا جا تا اور ڈٹ کے کھا یا جا تا ، چا ئے پیا لوں میں پی جا تی ۔ سکول خا صے فا صلے پر ہوتے تھے باپ بچے کو سکول میں بٹھا نے جا تا تو استاد صاحب سے یہ کہنا نہ بھو لتا کہ استاد جی یہ تمہارے ذمہ ، بس اس کی ہڈ یاں ہما ری اور گو شت آپ کا ۔بچے گروپوں کی شکل میں سکول جا تے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے سیاہ ملیشیا کی شلوار قمیض پہنے ایک ہا تھ میں سیاہ رنگ کے کپڑے کے کپڑے کے بستے میں ایک قاعدہ ایک سلیٹ ایک دوات ، چند قلمیں اور ایک پنسل لئے اور دوسرے ہا تھ سے تختی گھما تے ایک دو سرے کو مارتے اور بھا گتیدوڑتے سکول پہنچتے سکول کی دعا (اسمبلی ) اور پی ٹی کا پیرئیڈ بس مزیدار ایو نٹ ہو تے سکول میں سب سے زیادہ رعب پی ٹی ما سٹر کا ہوتا ہم سبھی اس بڑی بڑی مو نچھوں والے پی ٹی ما سٹر سے بہت ڈرا کرتے تھے ۔ادھی چھٹی میں ما مے کی دکان سے آ نے دو آ نے کی چیج کا فی ساری مل جا تی تھی ۔ دکان پہ سبھی بچے جا تے جس نے چیج لینی ہے وہ بھی اور جس کے پا س آنہ نہیں ہے وہ بھی۔
ماما دکا ندار سب کو سو دا دے کے کو نے میں کھڑے ایسے بچے کو دیکھتا تو اسے بھی چیج مل جا تی بغیر پیسوں کے ۔ سکول سے چھٹی ہو تی تو سبھی گھر سے رو ٹی کھا ئوں گا کی تکرا ر سننے کو ملتیں اور پھر تقریبا سبھی بچے ایک ہا تھ میں روٹی اور دوسرے ہا تھ میں گڑ کی ڈ لی لئے گھروں سے باہر کھیلنے کو دوڑ پڑ تے ما ئیں چیختی رہ جا تیں ہا تھ تو دھو لو کپڑے تو بدل لو مگر کس نے سننا ہو تا ۔ میلے کپڑوں کی بنی گیندیں اور لکڑیوں کے بلے اڑتی ریت اور دھکم پیل ۔ گھروں کے دروازوں کے سا منے گلیاں ہی کھیل کا میدان بن جا تیں ۔ میچ کا اختتام عمو ما لڑا ئی جھگڑے سے ہو تا ۔ اور بچے منہ بسورے روتے آ نسو بہاتے گھروں کو لو ٹتے ۔ ما ئیں انہیں گلے لگا تیں باپ ڈانٹتے ۔ اور کہتے کہ کھیلتے ہیں تو لڑا نہیں کر تے۔
بچہ با ر بار بتا تا مجھے اس نے مارا ہے مگر اسے یہی جواب ملتا کو ئی بات نہیں بیٹے وہ بھا ئی ہے نا کھیلو گے تو چوٹ تو لگے کی نا ۔ لوگ بچوں کے گلے شکووں پر لڑا نہیں کر تے تھے ۔ مرد اپنے اپنے کا موں پر ، جا نور ریوڑوں میںاوربچے جب سکو ل چلے جاتے تو خواتین برتن ، کپڑے دھوتیں اور جا نوروں کے گو بر سے اپلے تھا پتیں ۔ہا تھ کی مشینوں سے کپرے سیتیں ۔ خروشیئے کا کام کرتیں بڑی بو ڑھیاں نا لے بنتیں اور چنگیریاں بنا تیں ۔اسی وقفہ کے دوران کبھی کبھی سا س بہو ،نن د بھاوجوں ، دیورانیوں اور جٹھا نیوں میں تو تو میں میں بھی ہو جا تی رات کو یہ قصے نمک مرچ لگا کر اپنے اپنے گبھرووں کو سنا ئے بھی جا تے مگر نہ کبھی با ئیوں میں سر پھٹول ہو تی اور نہ نو جوان بیٹے اپنی بیویوں کا دکھ سن کر باپ اور ماں کو للکا رتے اور نہ بھا ئیوں کے کپڑے پھا ڑتے۔
رات کا کھا نا سر شام ہی کھا لیا جا تا رات کو دودھ پیا جا تا اور پھر دادی اماں گرم لحاف میں بچوں کو کہا نیاں سنا تیں اور چو پال میں بیٹھے بزرگ اور نو جوان چھو ٹے سے ریڈ یو پر گا نے ۔قوا لیاں اور خبریں سنتے ۔ رات 8 بجے بی بی سی کا سیر بین ضرور سنا جا تا اور پھر رات گئے تک خبروں پہ تبصرے ہو تے ۔ کبھی کبھی کو ئی صاحب ذوق آ جا تا تو پھر رات یو سف زلیخا اور عارفا نہ کلام سنتے سنا تے گذر جا تی ۔ پر دیس سے آ نے والوں سے بھی گا ئوں والوں کی تفصیلی ملا قات رات کو چو پال میں ہی ہوا کرتی تھی ۔ یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ کو ئی گا ئوں میں اا ئے یا گا ئوں سے جا ئے چو پال والے اس سے بے خبر ہوں۔
اگر گا ئوں کا بندہ ایک دو دن نظر نہ آتا چوپال کے سجنوں کی پر یشا نی بڑ ھنی لگتی آخر کسی کو غیر حا ضر بندے کے گھر بھیجا جا تا اور اس کی خیریت در یا فت کر ائی جا تی ۔مسجدیں تھوڑی سادہ اور کچی مگر آ باد ہوا کر تی تھیں ۔ گا ئوں کے بچوں کا پہلا مدر سہ یہی مسجدیں اور پہلا استاد مسجد کا امام ہوا کرتا تھا ۔ فقہی مسا ئل پہ بھی بات ہو تی ، اختلافات بھی ہو تے مگر فقہی اختلافات کبھی نفرت و عداوت کا سبب نہ بنتے ۔ایک دو سرے کے ساتھ مرنا جینا ختم نہیں ہوا کرتا تھا ۔محرم پہ دودھ اور میٹھے پا نی کی سبیلیں سنی لگا تے اور گیا رہویں شریف پہ قوا لیاں سننے شیعہ آ تے ۔عید آ تی تو اپنے ساتھ سا دگی کی سادہ خو شیاں لا تی ۔ بڑوں کے لئے پیٹیوں اور ٹرنکوں سے سپیشل جو ڑے نکا لے جا تے نو جوا نوں اور بچوں کے نئے کپڑے اور جو تے خریدے جا تے صبح صبح سویاں تیار ہو جا تیں اور ایک دو سرے کے گھروں میں بھیجنے کا عمل شروع ہو جا تا ۔ سب لوگ تیا رشیار ہو کر مساجد ، عید گا ہوں یا پھر کھلی جگہوں کا رخ کر تے۔
عید کے دن اونٹ گھوڑوں کو بھی خاص طور پر تیا ر کیا جا تااور ان پر بیٹھ کر نو جوان اور بچے عید نماز پڑ ھنے آ تے نماز عید کے بعد بو ڑھے چو پال میں اور نو جوان اور بچے بازاروں کا رخ کرتے ۔ سکول کے میدان میں میلہ سجا ہو تا میلے میں جلیبی اور لڈو ، کا ٹھ کے جھو لے ، آ نکھوں پہ دوربین لگاکر دیکھنے والی بارہ من کی دھوبن اور چڑیا گھر ، موت کا کنواں اور بہت کچھ میلے میں گیس والے غبارے بھی ہو تے اور نشا نہ لگا نے کے لئے چھروں والی بندوق لئے پٹھان بھی ہو تا ۔میلے میں بڑے سے کالے ڈبے والا کیمرہ لئے ا یک فو ٹو گرا فر بھی ہو تا اس کے پاس نقلی بندوق اور نقلی پستول بھی ہو تے نو جوان بندوق ہا تھوں میں لے کراور پستول کی خالی پیٹی گلے میں ڈال کر تصویریں بنواتے ۔ فو ٹو بنا نے والا فوٹو گرافر بڑے سے کا لے ڈبے میں سر ڈال کر پتہ نہیں کیا کر تا چند منٹوں میں تصویر بنوانے والے کے ہا تھ میں ہو تی ۔کشتیوں اور کبڈ یوں کے مقا بلے ہو تے
سجیلے گھبرو ڈھول اور تو طی کی آواز پر مستا نہ وار اکھا ڑوں اور میدانوں میں اتر تے تھپڑوں کی تڑ تڑ سے چہرے لا ل گلال ہو جا تے پسلیاں اوپر چڑھے پہلوان سے ٹو ٹنے کو ہو جا تیں مگر ہار جیت کے بعد کپڑے جھا ڑتے ہو ئے سبھی ایک دوسرے کے گلے لگ جا تے نہ دنگا نہ فساد ۔کہتے ہیں کہ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہو تے ہیںمجھے اپنے ننھیالی گا ئوں میں ڈھول بجا نے والا فلک شیر جسے سبھی گا ئوں والے فلکو کہا کرتے تھے مجھے آج بھی یاد ہے یہ بر سوں پہلے کی بات وہ ہمارے گھر آ گیا میں بہت چھو ٹا تھا با با نے پو چھا فلکو چا چا کیسے آ نا ہوا فلکو نے اداس سی نظروں سے با با کو دیکھا اور کہنے لگا جی میں اپنی بیٹی سے ملنے آ یا تھا
میری بیٹی کی شا دی بھی یہاں کے ایک چک میں ہو ئی ہے واپسی پہ سوچا کہ اپنی بڑی بیٹی کے سسرال بھی ہو تا چلوں ۔ آپ کے گھر ہمارے گا ئوں کی بیٹی ہے نا جی اور آپ کا گھر بھی میری بیٹی کا سسرال ہے جی بھلایہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں ایک بیٹی سے ملوں اور دوسری کو بھول جا ئوں ۔ یہ کہتے ہو ئے اس نے اپنے ہا تھ میں پکڑی ہو ئی پو ٹلی با با کو دیتے ہو کہا جی اس میں خا ص گڑ ہے جی میووں والا خود بنایا تھا گھر والوں نے ۔مجھے اس وقت تو فلکو چا چے کی یہ بات سمجھ نہیں آ ئی مگر اب سو چتا ہوں یہ رشتے ہی کہیں کھو گئے ہیں تبھی تو خا ص گڑ اب کہیں سے نہیں آ تا میرے گھر ۔۔۔
تحریر : انجم صحرائی