الریاض (وقار نسیم وامق) مشاعرے ہمارا تہذیبی ورثہ اور وسیلہء علم و آگہی ہیں مشاعروں کے ذریعے سنجیدہ و پروقار شاعری شائقینِ شعر تک پہنچتی ہے مشاعروں کی بدولت شاعر نشو نما پاتا ہے تخلیق کے نئے زاویوں سے آشنا ہوتا ہے اور مشاعرے شاعر اور سامع کے لئے تربیت گاہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔ حسرتؔ عمدہ شعر کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں، شعر دراصل ہوئی ہیں حسرت سنتے ہی جو دل میں اتر جائیں گویا اچھی شاعری وہ ہے جو دل میں اتر جائے اور ذہن میں چراغاں کردے اور تازہ کاری کی بدولت حسن کاری کے کسی نئے روپ سے آشنا کردے شعر و ادب کے اسی پسِ منظر اور خوبصورت حوالے سے حلقہء فکروفن کے زیرِاہتمام کراچی سے تشریف لانیوالے خوبصورت لب و لہجے کے شاعر احمد مسلم علوی کے اعزاز میں ایک مشاعرہ ریاض کے مقامی ریستوران میں منعقد ہوا جس میں شائقینِ شعر اور عمائدینِ شہر نے بھرپور شرکت کی، مشاعرے کی صدارت کمیونٹی ویلفیئر اتاشی کیپٹن (ر) سید حماد عابد نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر حناء عنبرین طارق نے بخوبی سرانجام دئیے۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا جس کی سعادت ڈاکٹر محمود احمد باجوہ نے حاصل کی اور تلاوت کردہ آیات کا ترجمہ و تشریح بھی پیش کی، ڈاکٹر سعید احمدوینس نے بارگاہء رسالتؐ میں ہدیہء نعت پیش کیا جبکہ مرکزی سیکرٹری جنرل حلقہء فکروفن نے خطبہء استقبالیہ پیش کیا اور کہا کہ حلقہء فکروفن کی ادبی سرگرمیاں ملکوں ملکوں فکر و نظر کی شمعیں فروزاں کر رہی ہیں ، جذبے کا سوز، تخیئل کی پرواز اور خیال کے انجم جس علم و خبر کا پتہ دیتے ہیں ہمارا نسب نامہ ہیں، فکر و فن نام ہے اس ادبی تحریک کا جو فکر کو اڑان اور فن کو دوام دیتی ہے۔
محفلِ مشاعرہ میں شہرِ ریاض کے نمائندہ شعراء ڈاکٹر حناءؔ عنبرین طارق، عبدالرزاق تبسمؔ ، محمد صابرؔ قشنگ، ساجدہ ؔ چوہدری، وقار نسیم وامقؔ اور مہمان شاعر احمد مسلمؔ علوی نے اپنے کلامِ دلپذیر سے نوازااور سامعین سے بھرپور داد حاصل کی، مشاعرے میں پڑھے جانیوالے کلام سے انتخاب قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذرہے ، ڈاکٹر حناء ؔ عنبرین طارق: پھولوں میں تھی پہلے کبھی جو دلکشی نہیں رہی
یا شاید میری دید میں وہ روشنی نہیں رہی
میں چھو کے دیکھ سکتی ہوں اپنے ہر اک خیال کو
سوچا کروں فقط جسے وہ بے بسی نہیں رہی
عبدالرزق تبسمؔ : کھو کرخیالِ یار میں غزل کہہ گیا کوئی
بے لوث تیرے پیار میں غزل کہہ گیا کوئی
حسنِ جمالِ یار کا دیکھا جو بانکپن
لطفِ جمالِ یار میں غزل کہہ گیا کوئی
محمد صابرؔ قشنگ: گمان رکھا ہوا ہے مری بصارت میں
قطار کھینچ دی اس نے میری وضاحت میں
میں لکھ رہا ہوں وصیت تمام ہونے پر
مجھے بھی لوگ پڑھیں گے کسی روایت میں
ساجدہ ؔ چوہدری: روٹھ کر بھی عنایتیں وہ کرے
مجھ سے میری شکایتیں وہ کرے
اس کا طرزِ بیاں بات کھلنے نہ دے
یوں بظاہر وضاحتیں وہ کرے
وقار نسیم وامقؔ : میں بھی نگاہِ خلق میں دیوانہ بن گیا
لکھا تمہارا نام تو افسانہ بن گیا
شب بھر جلی ہے شمع تمہارے خیال کی
قلبِ حزیں فراق میں پروانہ بن گیا
مہمان شاعر کا تعارف پیش کرتے ہوے مشاعرے کی ناظمہ حناءؔ عنبرین نے کہا کہ احمد مسلم ؔ علوی کا تعلق لکھنؤ کے ایک ایسے علمی اور ادبی گھرانے سے ہے جس کے تمام افراد اردو ادب و سخنوری میں مشغول ہیں اورکراچی میں سکونت پذیر ہیں ، انہوں نے اپنی شاعری کی ابتداء نعت سے کی، ان کا کلام پیار و محبت کی مہک سے گوندھا اورترنم کے رس میں گھلا ہوا ہے اور غنائیت کے ساتھ کلام پیش کرتے ہیں، مشاعروں کی رونق اور محفلوں کی جان ہیں، ریشمی لب و لہجے کے رومان پرور شاعر ہیں اور غنائیت کے ساتھ کلام پیش کرتے ہیں، ان کے دو شعری مجموعے ’’ دریچہء الفت‘‘ اور ’’ پیار کا آنگن‘‘ منظرِ عام پر آچکے ہیں۔
احمدمسلمؔ علوی نے اپنے پراثر ترنم میں کئی غزلیں پیش کیں ان کے پیش کردہ کلام سے انتخاب ملاحظہ ہو،
وفاؤں کا جن سے صلہ مناگتے ہیں
وہ زخمِ جگر سب کھلا مانگتے ہیں
کہاں ہے جوانی کہاں ہم کھڑے ہیں
مگر دل جواں ہم سدا مانگتے ہیں
اور پھر
تمہیں پرانے رفیقِ دل کا پیام آیا تو کیا کرو گے
اسے رقیبوں کا پھر تمہارے سلام آیا تو کیا کرو گے
نگاہِ یاراں کے میکدے میں امیدِ مے لے کے جا رہے ہو
حسین آنکھوں کا گر چھلکتا نہ جام آیا تو کیا کرو گے
حلقہء فکروفن کے سنیئر رکن ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے مہمانِ خصوصی احمد مسلم ؔ علوی کو گلدستہ پیش کیا اور اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ حلقہء فکروفن کی جانب سے مہمانِ خاص اور تمام شرکائے محفل کا استقبال کرتے ہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ حلقہء فکروفن کا ہمیشہ یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ ہم نے ہمیشہ علم و ادب سے وابستہ افراد کی پذیرائی کی ہے اور انہیں خوش آمدید کہا ہے اس موقع پر ڈاکٹر ریاض نے اردو کے حوالے سے منظوم کلام بھی پیش کیا۔اپنے صدارتی خطاب میں کیپٹن (ر) سید حماد عابد نے مشاعرے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے شعرائے فکروفن کے کلام اور حلقہء فکروفن کو شعر و ادب کی ترویج میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے پر بے حد سراہا ، انہوں نے مزید کہا کہ ایسی محافل کا انعقاد ہوتے رہنا چاہئے تاکہ دیپ سے دیپ جلے اور فکروفن کو فروغ ملے۔
اظہارِ تشکر ادب دوست و ادب نواز اور میزبانِ مشاعرہ ڈاکٹر طارق عزیز نے پیش کرتے ہوئے کہا کہ شعر و ادب کے فروغ میں حلقہء فکروفن کا کردار قابلِ قدر ہے ، ڈاکٹر طارق نے تمام شرکائے مشاعرہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ تمام شرکائے مشاعرہ کے شکر گذار ہیں کہ وہ تشریف لائے اور ہماری محفل میں رونق افروز ہوئے ۔آخر میں شرکائے محفل کے اعزاز میں میزبان ڈاکٹر طارق عزیز نے پرتکلف عشائیہ دیا اس دوران رات گئے تک جاری رہنے والی اس خوبصورت محفل میں ڈاکٹر سعید وینس اور عبدالرزاق تبسم نے ترنم سے میاں محمد بخش کا کلام پیش کرکے محفل کو یادگار بنا دیا۔