پاکستان میں میدان سیاست ایک ایسا اکھاڑہ ہے جسے چالبازی اور مختلف داؤ پیچ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیاست بازی ایک فن ہے جو انگریز کے زمانے سے نسل در نسل منتقل ہوتا چلا آیا ہے۔ اس لیے کہ انگریز نے بلدیاتی اداروں کے ذریعے جمہوریت کا تحفہ برصغیر پاک و ہند کو دیا اور پھر لیجسلیٹو کونسل وغیرہ جیسے اداروں کے ذریعے الیکشن کا تصور دیا۔ لیکن اس سب سے پہلے وہ ہر علاقے میں اپنے وفادار ایک بااثر خاندان‘ نواب‘ وڈیرے‘ خان اور چوہدری کی صورت میں منتخب کر چکا تھا۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریز کی آمد سے ہی اس کے ساتھ راہ و رسم بنائے‘ اپنوں سے غداریاں کی‘ ا گر کبھی جنگ ہوئی تو جو کوئی بھی انگریز فوج کے سامنے کھڑا ہوا اس کی گردن کاٹی‘ انگریز کو اپنی اولاد‘ نسل ‘ برادری‘ اور قبیلے سے لڑنے مرنے کے لیے سپاہی فراہم کیے۔ یہ سب کے سب راج دربار میں عزت حاصل کر گئے‘ انھیں جائیدادیں ملیں‘ انھیں مقامی سطح پر آنریری مجسٹریٹ جیسے عہدوں کے ذریعے فیصلوں کا اختیار دیا گیا۔ یہ لوگ جرگہ‘ پنچایت اور دیگر مقامی بندوبست کے سربراہ بنے۔ انھوں نے انگریز سے وفاداری‘ اپنوں سے غداری اور ذاتی مفادات کی بالا دستی جیسے مقاصد کو ملا کر ایک فن ایجاد کیا جسے سیاست کہا جانے لگا۔
یہ اس فن میں اس قدر طاق ہو گئے کہ انھوں نے لوگوں کو قائل کر لیا کہ انگریز کی حکومت ایک نعمت ہے‘ یوں یہ جب الیکشن کے لیے میدان میں اترے تو ان کو الیکشن جیتنے کے کئی سو گر آتے تھے‘ انھیں لوگوں کو فریب دے کر‘ لالچ ‘ دھونس اور کہیں کہیں تشدد اور قتل کے ذریعے بالآخر ان پر حکومت کرنے کا فن ازبر تھا۔ اسی لیے پورے برصغیر میں ہر خاص و عام کی زبان پر یہ محاورے عام تھے۔ مثلاً ’’میرے ساتھ سیاست مت کرو‘‘… ’’یہ سیاست بازی چھوڑ دو‘‘…’’ اس کا کیا اعتبار وہ بہت سیاسی ہے۔‘‘
یوں سیاست کو عام زندگی میں دھوکہ‘ فریب ‘ جھوٹ‘ مکر اور چالاکی سے تعبیر کیا جاتا اور آج بھی یہ محاورہ نہیں بدلا۔ اس کی حیران کن مثال یہ ہے کہ ایوب خان نے جب سیاست دانوں کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے گول میز کانفرنس پر بلایا تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، مولانا یہ سیاست تو ایک گندا کھیل ہے‘ آپ کیوں اس میں چلے آئے تو ہاتھ پکڑ ے پکڑے مولانا کا جواب تھا‘ ’’تو کیا سیاست کو گندا ہی رہنا چاہیے۔‘‘ لیکن پاکستان بننے کے بعد اس سیاست کے میدان میں بہت سے ایسے افراد بھی آ نکلے جو ان انگریز کے بنائے ہوئے گھرانوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن انھوںنے سیاست کے گر اور چالبازیاں ایسی سیکھیں کہ بڑے بڑے پرانے جغادری سیاسی گھرانوں کو شکست دے کر اس ملک کی سیاست کے مختار بن گئے۔
میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی ان میں شامل ہیں۔ آصف علی زرداری کا وہ بیان کہ ہم نے وعدہ کیا ہے‘ اور وعدہ کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتا کہ توڑا نہ جا سکے اور میاں محمد نوازشریف کا پانامہ لیکس کے دوران عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے ایک جواب دینے کے بعد عدالت میں وکیل کے ذریعے یہ بیان دینا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان ہے‘ پاکستان کے لیڈروں کی نظر میں ’’سیاست‘‘ کی مبلغ ’’اوقات‘‘ جھوٹ اور چالاکی کا پتہ دیتے ہیں۔
اس سیاست بازی میں بہروپ ایک طریقہ ہے تاکہ لوگوں کو متاثر کیا جائے‘ عوام کے ساتھ گھل مل جانا‘ ان کے دکھوں پر مصنوعی طور پر آنسو بہانا‘ اور خاص طور پر نیک و پارسا ثابت کرنے کے لیے مزاروں پر حاضری دینا اور کیمرہ مینوں کی موجودگی میں حج اور عمرے کرنا‘ یہ سب انداز جمہوری سیاست دانوں اور ملٹری ڈکٹیٹروں سمیت سب نے اپنائے ہیں‘ چونکہ پاکستان کی سیاست میں ڈیڑھ سال بعد ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کی دوبارہ آمد ہے اور ایک ایسے وقت جب نواز شریف کے پاؤں پانامہ لیکس کی زلف دراز میں الجھ چکا ہے تو ایسے میں جہاں وہ عوام دوستی گڑھی خدا بخش میں دفن ہونے کی آرزو اور ’’مولا‘‘ کی مدد کو پکار رہے ہیں۔
مجھے آج سے 22 سال قبل19 مئی سے 21 مئی 1994ء کے دوران تاریخ کا مختصر ترین دورانیئے کا حج یاد آ رہا ہے جو انھوں نے اپنی بیگم محترمہ بے نظیر وزیراعظم پاکستان کے ساتھ کیا۔ یہ حج چھتیس (36)گھنٹے میں مکمل ہوا۔ اس کی سرعت اور تیز رفتاری ان کے شیڈول سے نظر آتی ہے جو وزیراعظم ہاؤ س سے جاری ہوا اور جس پر ٹھیک چھتیس گھنٹوں میں عملدرآمد مکمل کر کے دونوں کو حج کی سعادت سے مالا مال کر دیا گیا۔ اس حج کے بارے میں اسٹاف نے پہلے علماء سے رائے لی کہ مختصر ترین حج کیسے ہو سکتا ہے جس پر انھوں نے یہ شیڈول بنا کر دیا۔
1- 19 مئی کی شام ساڑھے چھ بجے آصف علی زرداری اپنی بیگم اور بچوں اور دو عدد فلپائنی آیاؤں کے ساتھ پہنچے‘ بچوں اور آیاؤں کو حرم کی حدود کے باہر ایک ہوٹل میں ٹھہرایا۔ قصر ضیافہ میں وضو کر کے طواف کیا گیا اور منی روانگی ہو گئی۔
2- 20مئی کو صبح چار بجکر13منٹ پر فجر پڑھی گئی‘ آرام کیا گیا‘ عصر کے قریب عرفات روانگی ہوئی‘ مغرب کے وقت مزدلفہ گئے‘ مغرب اور عشاء وہاں سے پڑھ کر رات ٹھہرے بغیر منیٰ آ گئے‘ وہیں رات کو 12بجکر 5 منٹ پر شیطان پر کنکریاں پھینکیں ‘ بال کٹوائے اور احرام کھول دیا۔ مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے صبح 5:15پر طواف زیارہ کیا اور ساڑھے سات بجے جدہ رانہ ہو گئے۔ حج مکمل ہوا۔ پاکستان واپسی کے لیے اڑان باندھی‘ تین بجے مدینہ شریف حاضری دی اور تین بج کر پچاس منٹ پر پاکستان کے لیے روانہ ہو گئے۔
حج تو ختم ہوا لیکن اس کے بعد بیوروکریسی ایک اور روپ میں جلوہ گر ہوئی‘ اس نے اس مذہبی فریضے کو پروٹوکول کی حیثیت دے کر اس دوران ہونے والی کوتاہیوں پر لوگوں سے باز پرس کر کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا ثبوت دیا ۔ 23مئی 1994ء کو شاہد امین‘ سفیر پاکستان نے ایک انکوائری کے لیے ڈائریکٹر جنرل حج اور کونسل جنرل پر مشتمل ٹیم کو چارج شیٹ تھمائی جس پر ان دونوں کو تحقیق کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات یہ تھے۔
1- جدہ آمد کو وزیراعظیم کے بچوں اور ان کی آیاؤں کو مناسب طریقے سے جہاز سے نہیں اتارا گیا۔
2- منیٰ کے گیسٹ ہاؤس سے لے کر مدینہ منورہ تک حج وزارت کا کوئی اہم عہدیدار موجود نہ تھا اور یہ کمی پیپلزپارٹی کے دو مقامی عہدیداروں نے پوری کی۔
3- پہلے سے آب زمزم کا بندوبست نہیں کیاگیا تھا اور آخری وقت پر پی آئی اے نے یہ کام کیا۔
4- مدینہ منورہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر حج ابو احمد عائف موجود نہ تھا اور 19 مئی 1994ء کو مکہ مکرمہ میں ڈائریکٹر حج موجود نہ تھا تاکہ وہ گیٹ پر موجود رہے ۔
باقاعدہ انکوائریاں ہوئیں اور شاہان نازک مزاج کی ناراضگی کا بہانہ بنا کر سزا ان تین افسران کو بھگتنا پڑی۔ادھر اخبارات میں وزیراعظم بے نظیر اور ان کے شوہر کے حج ادا کرنے کی تصاویر لگائی گئیں ۔ کچھ کالم لکھے گئے۔ارباب اختیار کو راضی رکھنے کا فریضہ بیوروکریسی جس خوبصورتی سے ادا کرتی ہے وہ حکمرانوں کو حقیقت سے بہت دور لے جاتی ہے۔ وہ عام آدمی سے اور اس کی سوچ سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں۔اس غفلت میں وہ اپنے ارد گرد کی خوشامد پرست بیوروکریسی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں جو انھیں اس طرح غافل کر دیتی ہے کہ ایک دن انھیں کچھ علم نہیں ہوتا اور بساط الٹ جاتی ہے۔