تحریر : ساجد حبیب میمن
شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سڑکیں چھوٹی ہوگئی ہیں کیونکہ ان سڑکوں کو استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے ،عام حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ سڑکوں پر ٹریفک کے بہاؤ یا کسی چھوٹے موٹے حادثے کی صورت میں مسافروں کو کچھ دیر ہوجاتی ہے لیکن اس کے باجود بھی لوگوں کا کاروبار حیات چلتارہتاہے ،سنگین مسئلہ اس وقت جنم لیتاہے جب اس مملکت کے اعلیٰ ترین عہدیدارکسی بڑے یا چھوٹے شہر میں تشریف لاتے ہیں ،جس کے لیے ان کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک وقت پر پہنچنا ہوتاہے ان اعلیٰ حکام کی آمد سے بہت پہلے ٹریفک کو مکمل طور پر بند کردیا جاتاہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ایک جگہ پر جامد ہوکررہ جاتے ہیں یعنی نہ وہ آگے کی جانب جاسکتے ہیں اور نہ ہی وہ پیچھے یعنی واپس جاسکتے ہیں ایسے میں ٹریفک کا شور اور دھواں الگ سے برداشت کرنا پڑتاہے عوام کو اس وقت تک کھڑے رہنا یا ٹریفک میں پھنسے رہنا پڑتاہے جب تک وہ وی آئی پی مہمان اپنے حساب سے ان راستوں سے گزر نہیں جاتا۔
جب وہ وی آئی پی شخصیت آسانی سے عوام کے جزبات اور وقت کو روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں تو ان کو عوام کی مشکلات کا زرابرابر بھی احساس نہیں ہوپاتا ہے ہاں وہ اپنی منزل پر پہنچ کر مقامی پولیس کو داد ضرور دیتے ہیں کہ آپ نے ہماری شاہی سواری کے لیے بہت اچھے انتظامات کیئے ہیں۔ مگر اس سارے عمل میں افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ اس ٹریفک کی بندش سے جو عام لوگوں کا نقصان ہوتاہے اس کا کوئی ازالہ نہیں کیا جاتااور نہ ہی ان چیزوں کی اس معاشرے میں کوئی پروا کی جاتی کہ اس ٹریفک میں کوئی جیئے یا پھر مرے ! یعنی اس ٹریفک کے رکنے سے کوئی شدید بیمار ہسپتال نہ پہنچ سکے کوئی بچہ کمرہ امتحان میں نہ جاسکے یا ان حکمرانوں کی بلا سے کسی کی گاڑی یا فلائٹ چھوٹ جائے حاکم وقت کی بلا سے ! مگر جو تکالیف عوام کو اٹھانا پڑتی ہیں اس کے لیے لوگوں میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
ایسے میں لوگ نہ صرف ان اعلیٰ حکام کو بدوعائیں دے رہے ہوتے ہیں بلکہ ٹریفک جام کے موقع پر ایک دوسرے کے نئے نئے بننے والے دوست ان حکمرانوں کے خلاف سڑک پر کھڑے ہوکر نازیباں کلمات کی ادائیگی کے ساتھ اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں ۔ بات صرف وی آئی پی پروٹوکول کی نہیں ہے بلکہ اس سے ملتے جلتے ان تمام معاملات کی ہے جس کی وجہ سے شہر کے لوگ سڑکوں پر آئے روز پھنسے رہتے ہیں اس میں جلسے جلوس اور ریلیاں بھی انسانی زندگی کے چل چلاؤ میں بڑی رکاوٹ ہیں گزشتہ دنوں چیئرمین عمران کی لاہور میں حکومت کے چند افراد کے خلاف ریلی نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کا سکون برباد کیا میں نے ایک نجی ٹی وی میں دیکھا کہ ایک غریب شخص پولیس انتظامیہ کے آگے رو رو کر ہاتھ جوڑ رہا تھا کہ اس کی گاڑی کو جانے دو اس میں اس کا ایک بارہ سال بیمار بچہ تھا جو اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔
مگر ہم نے دیکھا کہ وہ بچہ اس بے ہنگم ٹریفک میں اپنی زندگی کی بازی ہار جاتاہے ،پنجاب کے وزیرقانون جو اس وقت عوام کے ہمدردبن کر ٹی وی چینلوں پر آتے ہیں تو اس بچے کا قاتل تحریک انصاف والوں کو ٹھرا کر اپنی سیاست کو چمکاجاتے ہیں فرض کیا کہ یہ بات درست ہے تو 8 ستمبر کے روز ان کے وزیراعظم صاحب کراچی میں تشریف لاتے ہیں تو شارع فیصل پر جو ایمبولینس پھنسی ہوئی تھی اس میں جو عوام کا وقت اور سکون برباد ہورہا تھا اس کا مقدمہ کس پر درج کیا جائے ؟۔ چونکہ وہ اس ملک کے وزیراعظم ہیں اور عمران خان ٹھرے مقبول ترین رہنما تو ان دونوں حضرات کے خلاف قانون کچھ بھی نہیں کرسکتا؟ ہاں البتہ کسی عام آدمی کی وجہ سے ٹریفک میں کوئی وی آئی پی شخصیت پھنس جاتی ہے تو اس عام آدمی کو پکڑ کر نہ صرف مارا جاتاہے بلکہ اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا جاتاہے ،اس ملک میں جو ٹریفک کا قانون ہے وہ موٹروہیکل ایکٹ 1965موجود ہے اس میں جو کچھ بھی درج ہے مگر اس قانون پر عمل درآمد صرف عام شہریوں تک محدود ہے جب کہ خاص آدمی اس قانون سے مکمل طورپر آزاد ہیں اس میں وہ اس قانون کو خود ہی نہیں توڑتے بلکہ ان کے ساتھ ہماری ٹریفک پولیس اور انتظامیہ بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہیں۔
قائرین کرام اس ملک میں بہت سے ایسے حالات اور واقعات ایسے بھی جنم لیتے ہیں جن کی ذمہ اصل میں ہم خود ہی ہوتے ہیں یا پھر ہم نے خود وہ حالات پیدا کیئے ہوتے ہیں ،وی آئی پی کلچر میں وہ ہی لوگ موجود ہوتے ہیں جن کو ہم ووٹ دیکر اقتدار میں لاتے ہیں ریلیوں اور جلسوں میں ٹریفک بھی جام عوام ہی کی شمولیت سے ممکن ہوتی ہے !! اور مسئلے مسائل صرف شہر قائد یا لاہور میں ہی نہیں ہیں بلکہ یہ بیماری اس ملک کے چاروں صوبوں میں سر چڑھ کر بول رہی ہے ، ہمارے حکام بالا اور اس ملک کے اپوزیشن میں بیٹھے ارب پتی سیاستدان جو خود بھی شاہانہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور ان کی اولادیں بھی شہزادوں کی زندگیاں گزار رہے ہوتے ہیں ایسے خاندانوں کو عوام کی تکالیف کا اس لیے بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ لوگ تو کبھی ان مشکلات سے گزرے ہی نہیں ہوتے ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ جب ان لوگوں کی حکومت ہوتی ہے اس وقت وہ خاموش بیٹھے ہوتے ہیں اور جب حکومت چلتی جاتی ہے۔
اس وقت وہ عوام کے مسیحا بن کر ان کو سڑکوں پر لانے کی سیاست شروع کردیتے ہیں مگر حقیقت میں ان لوگوں کے دلوں میں عوام کے ووٹوں کے سوا اور کوئی ہمدری نہیں ہوتی !! میں ایسے بہت سے ممالک کی مثال دے سکتاہوں جو اس وی آئی پی کلچر کو اپنے پسیوں سے افورڈ کرسکتے ہیں مگر اس کے باجود وہ بہت سادگی کی زندگی کو گزارنا اپنے اور عوام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور ایک ہمارے حکمران ہے جو ساری شاہی سواریاں بھی عوام کی جیبوں کا صفایا کرکے حاصل کرتے ہیں اور اس ہی عوام کو عذاب میں بھی ڈالا ہوتاہے ان کا اپنا سارا زاتی پیسہ ملک سے باہر پڑا ہوتاہے اورخود عوام کے ٹیکسوں سے عیاشیاں کررہے ہوتے ہیں ،دوستوں ہم اس ماحول میں رہتے ہیں جس کے اعلیٰ حکام وی آئی پی پروٹوکول کے حصول کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں جنھیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ چاہے ان کی کوتاہیوں سے اس بے ہنگم ٹریفک میں بچے پیدا ہویا پھر کوئی زخموں سے تڑپتا ہوا مریض اللہ کو پیارا ہوجائے ،حاکم وقت کی بلا سے۔