تحریر: نسیم الحق زاہدی
میرا مسئلہ بجلی ، پانی ، گیس ، روٹی کپڑا مکان کا نہیں بلاشبہ میں ان بنیادی ضروریات سے محروم ہوں پر میرا مسئلہ وہ طاغوتی طاقتیں ہیں جو میرے وطن عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور جن کی وجہ سے ملک سے یہ چیزیں غائب ہوئی ہیں انتہائی افسوس اور حیرت سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس انگریز کی غلامی سے نجات کے لئے ہمارے آبائو اجداد نے آزادی کی قیمت چکائی آج ہم اسی انگریز کے غلام ہیں یہ غلامی بڑی ہے کم نہیں ہوئی سچ تو یہ ہے کہ ہم انگریز کے ساتھ ساتھ دوسرے عیسائی ممالک کے بھی رحم و کرم پر زندگی گزر نے پر مجبور ہو چکے ہیں آج ہمارے لئے ان کی تہذیب و تمدن قانون اور اطوار سے چھٹکارا پانا ممکن ہی نہیں پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست ہے اور اسلامی ریا ست کا مقصد کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ ہو میں نے جمہوریت کے متعلق پڑھا ہے یہ خالصتاً یہودی نظام حکو مت ہے یہودی پرٹوکولز ، تفرقات ، ترجیحات ، امتیازات وغیرہ مسلمان خلافت کا حامی و قائل ہے اور خلافت میں خلیفہ قوم کا حاکم نہیں محافظ ہوتا ہے جس کا کام اقتدار نہیں بلکہ رعایا کی فلاح و بہود ہوتی ہے۔
اسلام اقتدار کے خواہش مند کو اقتدار کے لئے نا اہل قرار دیتا ہے پاکستان کا مطلب تو لا الہ اللہ تھا جبکہ مقصد محمد رسول اللہ ۖ تھا میں نے جب مسلمانوں کی بر با دی کی تاریخ کے اوراق پلٹے تو انتہائی دکھ اور شر مند گی ہوئی کہ اسلام کو نقصان ہمیشہ اپنوں (مسلمانوں )کے ہاتھوں ہی ہوا ہے مسلمان اگر غدار نہ ہوتا تو آج پوری دنیا پر حکو مت کر رہا ہو تا وہ ہندو سکھ فرنگی کہ جس کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان آواز اٹھانے پر مجبور ہو ئے اس دھرتی کا چپہ چپہ ہند ئوں سکھوں کے ہا تھوں مسلمانوں کے بہنے والے خون سے سرخ ہوا آج انہی ظالموں کو ہمارے حکمران دوست کہتے ہیں پسند ید ہ ملک اور اس پاک سر زمین پر ان کا والہانہ شاند ار استقبال کرتے ہیں کیا حصول پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ارباب بست و کشاد نظریہ پاکستان بھلا کر من کی تسکین و شانتی اور ذاتی مفا دات کے لئے دشمن کو دست بنا بیٹھیں۔
خیر یہ ایک طویل ترین موضوع ہے جو بحث کالم تو ہے مگر خوف اشاعت گہرائی میں جانا ٹھیک نہیں ہو گا پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے اور مسلمان دنیا کی حاکم قوم ہے مگر ”اگر تو سمجھ جائے اپنا مسلماں ہونا ”کیا پاکستان کے حصول کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا نظام حکومت طرز یہود ہو رہن سہن رسم و رواج ہندئوانہ ہو عبادات و مذہبی روایات نصرانیوں کی دین ہو یہ اسلام کی تجربہ گاہ بننے کی بجائے دوسرے مسخ شدہ ادیان کی آماجگاہ بن چکی ہے آج ایک طرف یہودی کائنات کے سر بستہ رازوں کو منکشف کر رہیں ہیں اور دوسری طرف ہم مسلمان آلو ، گوبھی ، بیگن ، ٹنڈے ، چقندر اور روٹی پر لفظ اللہ تلاش کر کے اسے سوشل میڈ یا پر اس فتوی کے ساتھ پوسٹ کر رہے ہیں کہ جس نے لائک یا شیئر نہ کیا وہ سچا مسلمان ہی نہیں جبکہ اللہ تو کائنات کا مالک ہے آج افسوس ہوتا ہے ان من گڑھ قصے کہانیوں پر مسلمان جس نے دنیا پر غالب آنا تھا وہ تباہی و بربادی کے راستوں پر گامزن ہے خود ساختہ بحرانوں کا شکار ہو چکا یہ سب کچھ ایک سو چی سمجھی سازش ہے عالم کفر کی اسلام اور مسلمان کو مٹانے اور ذلیل و رسواء کر نے کی آج ہم خود اس ساز ش کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
اگر ہم اپنے وطن عز یز کے ساتھ مخلص ہو تے توآج بر طانوی لا ز کی بجائے ابو بکر ، عمر ،عثمان اور علی لاز ہوتے کیا آپ سمجھتے ہیں ؟کہ اگر ایسا ہوتا توکبھی اس ملک پر قحط سالی پڑ سکتی تھی ؟ کوئی شخص روٹی کی خاطر کسی کی جان لیتا کوئی ملا ں مولوی اپنے فتوئوں میں شر یعت کا کا روبار کرتا ؟ کوئی محافظ کسی کو لوٹتا ؟ قاضی کا قلم بکتا؟ ویسے تو ہم نے اسرائیل کو کبھی نہیں مانا مگر اس کے مقر وض ہمیشہ رہے ہیں بتائیے مقروض عوام کبھی آزاد ہو سکتی ہے ؟ غلامی کی اسی وجہ سے ہم بے بس ہو چکے ہیں ہمارا پورا معاشی نظام ان کے ہا تھوں میں ہے اور دوسری طر ف ہمارے اربا ب اختیار کی ذاتی تر جیحات کی بد ولت ہم کبھی آزاد نہیں ہو سکتے افلاس کا یہ عالم ہے کہ لوگ دو وقت کی رو ٹی کے لئے تر ستے ہیں روٹی کے چو ر پید ا ہو چکے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی کا فرمان ہے اگر کوئی شخص اپنی بھوک مٹانے کے لئے روٹی چوری کرے تو چور کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے بادشاہ کے ہاتھ کاٹے جائیں ہم محکوم نہ ہو تے تو آج فلسطین ، شام ، برما میں مسلمانوں کی مد دکو پہنچ چکے ہو تے ہم تو کھل کر ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں پر ہو نے والے مظالم اور ان سے اظہار ہمدردی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں اجا زت نہیں آج بھی فر شتے ہماری مدد کو اتر سکتے ہیں۔
اگر ہم غلامی کا کشکول توڑ کر اپنے رازق پر بھروسہ کرنا شروع کر دیں اور اپنی ذاتی خواہشات ، امتیازات کا خاتمہ کر دیں حاکم رعایا کی بھوک کی فکر کرے کیونکہ رعایا کی بھوک ، صحت، روزگار ، مکان بذمہ حاکم وقت ہو تا ہے حاکم کے اتنے فرائض ہیں کہ اگر احساس ہو جائے تو حاکم وقت کھانا پینا سو نا چھو ڑ کر رعا یا کی فکر میں لگ جائیں پھر بجلی ، پانی ، گیس ، رو ٹی کپڑا ، مکان کا کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا اور نہ ہی کبھی زلزلے آئیں گے کی نکہ جس دھر تی پر انصاف ہوتا ہے وہاں پر عذاب نہیں آتے وہاں پر لو گ افلاس کے ہا تھوں زہر کے پیالے اور مائیں اپنا جسم نہیں بیچتیں۔
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
تحریر: نسیم الحق زاہدی