تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
غریب اور غربت دو الگ الگ فقرے ہیں مگر اس کے معنی ایک ہی نکلتے ہیں۔ غربت زدہ قوم قوم کا استحصال کس دور میں نہیں کیا گیا، حکمرانِ قوم ، جب اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتے ہیں تو ان کا قد خود بہ خود گِر تا چلا جاتا ہے یا کم ہو نا شروع ہو جاتا ہے، منصب ایک اہم ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا بے جا استعمال جب کیا جاتا ہے تو قوم کے ساتھ ساتھ اس کا رہبر بھی کھائی میں گرتا چلا جاتا ہے، ہر پانچ سال بعد سیاسی رہبر بدل جاتے ہیں، حکمران اور صاحبِ دولت کی قسمت کا فیصلہ بھی آسمانوں پر لکھا جاتا ہے، جن کو ایک جھٹکے میں منصب سے اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے، اس وقت نہ دولت کام آتی ہے اور نہ اثر و رسوخ، نہ پھر دبدبہ، کبھی سمندروں میں طغیانی آتی ہے تو کبھی سنامی، جس سے حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ ایک درد بھری آواز اُبھرتی ہے اور پھر یہ آواز آتی ہے:
خاموش زبان، اب لَب پہ کوئی شکایت ہی نہیں
اس شہر خموشاں میں اب کوئی میرا شناشہ ہی نہیں
بلاشبہ اس روئے زمین پر اللہ کی نظر میں سب سے بہترین جگہ زمین کا وہ ٹکرا ہے جس پر مسجد یعنی اللہ کا گھر تعمیر ہوتا ہے، مساجد سے ہی مسلمانوں کی پہچان ہوتی ہے اس میں داخل ہوتے ہی سارے انسان ایک جیسے شمار کئے جانے لگتے ہیں، حسب اور نسب کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ سب ایک ہی صَف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بقول شاعر
ایک ہی صَف میں کھڑے ہوگئے محمود و اَیاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
ایک وقت وہ بھی تھا جب مساجد سے اُمت کو متحد کرنے کا کام کیا جاتا تھا مگر موجودہ وقت میں مساجد کو سیاسی مقاصد کے لئے بھی بلا خوف استعمال کیا جانے لگا ہے جس کی مثال ہر سُو موجود ہے۔موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم کسی بھی مسجد کو سیاسی مقصد کے لئے ہر گز استعمال نہ کریں کیونکہ مسجد اللہ کی عبادت کے لئے ہے وہاں صرف عبادت ہی کریں اور بس! تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور اس کے دامن میں سبق اور عبرت کا خزانہ بھی موجود ہوتا ہے لیکن آج کے انسان کے پاس نہ اتنا وقت ہے اور نہ صبر و تحمل کا مادہ کہ وہ ان کے اندر جھانک کر دیکھے اور اپنی راہیں متعین کرے۔ بہت مشہور کہاوت ہے کہ” چراغ بجھنے سے پہلے بھڑکتا ہے”یہ بات مشاہدہ میں بھی سچ ثابت ہوئی ہے کہ بجھنے سے پہلے چراغ کی لَو پل بھر کے لئے ہی سہی یکایک بہت تیز ہو جاتی ہے اور پھر ہمیشہ کے لئے تاریکی کے غار میں فنا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب کسی حکومت یا سیاسی جماعت کو اس کے توقع سے زیادہ کامیابی مل جاتی ہے تو وہ اِترانے لگتی ہے اور یہی اِترانا اس کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ایسا ہی منظر ہمارے وطنِ عزیز پاکستان میں بھی نظر آ رہا ہے۔2013ء کے انتخابات میں (ن) لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے وزراء بھی آسمان سے ہی باتیں کر رہے ہیں۔ جبکہ انہیں کرنا تو یہ چاہیئے کہ جو بلند و بانگ دعوے ان کے سربراہ نے عوام سے کئے تھے اور پاکستانی قوم کو جو سبز باغ دکھائے تھے، لفظوں کا ایسا جادو جگایا تھا کہ سب مسحور ہو گئے تھے اور ان کی باتوں پر اعتماد کرکے بہت اُمید کے ساتھ ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا اور وہ ملک کے وزیراعظم بن گئے ، اُن وعدوں کے ایفاء کرنے کے لئے تگ و دُو میں لگنا چاہیئے نا کہ صرف بیان بازی پر اکتفا کرنا چاہیئے؟انتخابات سے پہلے بہت سے وعدے کئے گئے تھے جن میں چیدہ چیدہ تو یہ ہیں، مہنگائی پر قابو پانا، کالے دھن کو ملک میں واپس لانا، تمام لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک، فساد کا سلسلہ بند کرنا، روزگار کی با آسانی فراہمی، وغیرہ وغیرہ! پیٹرول کی قیمتیں تو کم ہوگئیں مگر تاحال اس کے ثمرات عوام تک منتقل نہیں ہوئے۔ اس پر کاروائی کی ضرورت ہے تاکہ قوم کو اچھی خوشخبری مل سکے۔اگر اس طرف کوئی کام نہیں کیا گیا تو لوگوں کو یہ احساس ہونا شروع ہو جائے گا کہ تمام وعدے محض فریب ہی تھے۔
دنیا میں انسان کی بے شمار چھوٹی بڑی ضرورتیں ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، سواری، امن و امان، صحت، نیند وغیرہ۔ مگر انسان کی سب سے بڑی ضرورت ” ربانی رشد و ہدایت ” بھی ہے۔ اس ضرورت سے اہلِ ایمان ایک لمحہ کے لئے بھی غافل ہونے کا تحمل نہیں کر سکتے کہ ” جو لمحہ غافل وہ لمحہ کافر” اس کے حصول کے لئے وہ ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اتنی بڑی اور اہم ضرورت ہے کہ اس کے بغیر انسان دنیا کی چند روزہ اور آخرت کی لا محدود زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسی نا گزیر ضرورت ہے کہ با وضو قبلہ رو ہر نماز میں دست بستہ صراطِ مستقیم کی دعا بارگاہِ خدا وندی میں کی جاتی ہے۔جب انسان کی دنیاوی ضرورتیں احسن طریقے پر پوری نہ ہوں تو وہ مسائل کی شکل و صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ آج دنیا میں انسانوں کے سامنے بڑے بڑے مسائل ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بے شمار مسائل انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ انسانوں کے بے شمار چھوٹے بڑے مسائل ہیں جیسے بھوک، پیاس، جہالت، خوف، بدامنی ، نا انصافی ، بے روزگاری، ظلم، غربت وغیرہ۔ان سب مسائل کا سدِ باب کرنا حکمرانوں کا اوّلین ترجیح ہونا چاہیئے۔
جرائم روکنے کے خاطر ، نظم و نسق قائم رکھنے کے لئے پورے ملک میں یکساں ڈیوٹی لگائی جائے، سیکوریٹی مسائل کو ختم کرنے کے لئے لازمی ہے کہ جرائم کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ انگریز ہمیں آزادی تو دے کر چلے گئے، ہمارے ملک کا نظم و نسق، انتظام سنبھالنے کی خاطر، ہم نے اپنا آئین و دستور بنایا، جو انتہائی جامع ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد سے ابھی تک ہم ترقی نہیں کر پائے ، اس کی وجوہات کیا ہیں، اس میں حائل کیا کیا رکاوٹیں ہیں، انصاف میں حائل کیا کیا رکاوٹیں ہیں۔ ان سب پر حکمرانوں کو سوچنا اور پھر اس کا سدِ باب کرنا ان کی ذمہ داریوں میں سرِ فہرست ہونا چاہیئے تاکہ قوم خوشیوں کی بلندیوں کو چھُو سکے۔
آج روش بدلنے کی ضرورت ہے، رفتار بدل کر تیز کرنے کی ضرورت ہے، اعتماد کو قوم پر بحال کرنے کی ضرورت ہے، اپنے اندر انقلابی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، خدائی عذاب سے پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والا فرعون نہ بچ سکا تو باقی کس کھیت کے مولی ہیں! وہ دریائے نیل میں غرق ہوگیا، جن یہود نے ایک باپ کے سر کے تاج کو کنویں میں پھینکا تھا، اسی بچے کے سر پر قدرت نے حکمرانی کا تاج رکھا، پھر نوبت یہ آئی کہ تمام بنی اسرائیل نے اس کی چوکھٹ پر اس کے حضور میں پہنچ کر اس کو سجدہ کیا، جب ظلم اور کبریائی حد سے بڑھتی ہے تو قدرت پھر نئی تبدیلیاں لاتئی ہے لہٰذا قوم کے محسنوں کو اپنے محاسبہ کرنے کی سخت ضرورت ہے، جس سے وہ خدائی عذاب سے مستقبل میں محفوظ رہیں، روش بدستور غلط ہو تو پھر یہ دولت و منصب کام نہیں آتا ہے، تازہ قوم کی حالت اور اس کے ساتھ یہ سلوک ہے کہ:
ٹوٹے ہوئے دل، ٹوٹے ہوئے ارماں، ٹوٹی ہوئی باتیں ہیں
ہم محسن جنہیں سمجھتے ہیں، وہ ہی منصف ہیں، وہ ہی قاتل ہیں
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی