تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
کرپشن کی ایک طویل داستان اس ملک سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ دور ایوبی کے مارشل لاء کے آخری ایام میں شروع ہوا تو ۔اور پھر آہستہ آہستہ اس عفریت نے اپنا سر اٹھانا شروع کیا جنرل ضیاء الحق ذاتی طور پر نہایت ہی بہترین کردا رکے مالک تھے مگر ان کے ساتھیوں ،جاگیرداروں اور بیورو کریسی میں طریقے طریقے سے خاموشی کے ساتھ خاص طور پر وڈیروں نے کرپشن کے ذریعے اپنے خزانے بھرنا شرو ع کر دیئے ۔پھر بے نظیر اور نواز شریف کے ادوار میں بھی بڑے سیاست کے کھلاڑیوں نے خاص طورآصف علی زرداری نے اور ن لیگ کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بہتی گنگا میں خوب ہی اشنان کیا۔ججز بیورو کر یٹس اور جنرلز کی کرپشن پر کسی کو آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی۔
وقت کے دھندھلکوں میںان کی کرپشن کے آثار کوخود بخود یا جان بوجھ کرمعدوم کر دیا گیا۔کوئی بھی ان لُٹیروں سے قومی دولت کی واپسی کا مطا لبہ کر نے کو تیار نہ تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء دور میں کرپٹ لوگ تمام حدود ہی پار کر گئے تھے۔جن سیاست دانوں نے اس کرپشن میں اشنان کیاوہ تو با بانگِ دھل کہتے تھے کہ و ردی میں ہم دس مر تبہ بھی مشرف کو اقتدار کی کرسی پر بٹھاکے لئئے تیار ہیں۔ جو بھی اس اقتدار کا حصہ بنا اُس نے جی کھول کر مال بٹورا اور موقع ملتے ہی پتلی گلی سے نکل کھڑا ہوا ۔بقول شاعر کے
”رات کو پی صبح کو توبہ کر لی رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی” اس کے بعد این آر او کے ذریعے پیپلز پارٹی کا اقتدار شروع ہوتا توتمام بھوکے ننگے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے زرد اری نے اپنا مخصوص حصہ رکھ کرپاکستان کے خزانے کے منہ کھول کر رکھ دیئے۔جس میں بڑے بڑے پوتر لوگوں نے خوب خوب کھُل کیلااور پاکستان کو قلاش کر کے مسٹر زردای یہ جا وہ جا! دوبئی میں جا بیٹھے کر لو جس نے کچھ کرنا ہے۔نہ جانے کب وہ وقت آئے گا جب پاکستان کے جسم پر چمٹی ان جونکوں سے اس دکھ کے مارے ملک اور اس کے مظلوم عوا م کو نجات ملے گی؟؟؟۔
چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی چیخیں بھی اس ملک کے عوام نے سُنیں جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ سیاست دانوں نے کرپشن کی ہے۔پیپلز پارٹی میں بھی کرپٹ لوگ ہیںاسی لئے میں ان کا دفاع نہیں کرتامگر یہ بھی سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ اس وقت سول و فوجی بیورو کریسی میںکوئی بھی شفاف نہیں ہے۔اگر احتساب کرنا ہے تو سب کا کرو ۔یہ ایسا وقت ہے کہ اس میں نیب کے قانون کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔جو ادارہ سب کا احتساب کر رہا ہے اُس کا بھی احتساب کیا جانا چاہئے۔ خصوصی عدالتیں سب کے لئے ہونی چاہئیں۔کرپشن کا خاتمہ قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جانا چاہئے۔خصوصی عدالتیں ضرور بنائیں مگر یہ خصوصی عدالتیں بھی سب کیلئے ہونی چاہئیں۔میں ساتھ کھڑا ہووں گا۔
ایوانِ بالا سینٹ نے اپنی کمیٹی برائے قانون و انصاف کی رپورٹ کی توسیق کرتے ہوے واضح طور پر کہا ہے کہ جرنیلوں اور ججوں سمیت ملک میں سب کے لئے جامع احتساب کا یکسان نظام قائم کرنے کامطا لبہ کیا جاتاہے۔دوسری جانب سے بھی یہ مطالبہ سامنے آچکا ہے کہ ججوں اور جرنیلوں سمیت سب کے احتساب کا یکسان نظام سامنے لایا جائے۔جس پر سینٹ کے آئیندہ اجلاس میں بحث ہوگی۔رپورٹ میں احتسا ب کے موجودہ نظام پر عدم اعتماد کا اظہاربھی کیا گیا ہے اور اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی کہ کرپشن کی تحقیقات اور مقد مات چلانے پر ما مور ادارہ سب کے لئے احتساب کے اصول پر کاربند رہنے میں ناکام رہا ہے۔
جس کی ہر بات پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ نیب کرپشن کے اکثر معاملات میں فوج اور عدلیہ کے معاملات کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔ 18ستمبر کو سینٹ نے اپنی مرتبہ رپورٹ کو اتفاق کے ساتھ منظوری دیدی ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ بعض معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ نیب کی تحقیقات کا طریقہ کار بھی حقوق انسانی کی اقدار کے خلاف رہا ہے۔احتساب کے عمل اور ساکھ کو یقینی بنانے کے لئے شفا فیت کو یقینی بنایا جائے۔اس قسم کے تاثرات کا خاتمہ کیا جانا ضروری ہے۔
ایکس سروس مین ایسو سی ایشن کے چیئر مین جنرل علی قلی خان کا کہنا ہے کہ وردی والوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وردی والوں کا احتساب کرنے کی کسی میں جرء ت ہے کیاْ ؟وردی والوں کا احتساب وردی ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داری نبتا ہے۔مگر بعض موقعوں پر محسوس یہہوتا ہے کہ پیٹی بھائیوں کا خصوصی خیال بھی رکھا جاتا ہے۔مگر نیٹو کنٹینر کیس ایسا تھا جس پر کاوائی بھی کی گئی جس کی ایک جھلک نیٹو کنٹینرز کیس میں دیکھنے کو تو ملی مگر اس کے بعد اس ڈپارٹمنٹ میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔پاکستانی قوم کسی کے بھی کرپشن کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔پاکستان کی جڑوں میں لگی اس دیمک کا تو ہمیں ہر سطح پر خاتمہ کر کے ہی دم لینا ہوگا۔غریب آدمی پر اگر کرپشن کے الزامات ہیں تو اس کی پوری فیملی کو اس کے نتائج بھگتنا پڑ جاتے ہیں مگر بڑ ے اور اصل کرپٹ افراد پر ہاتھ ڈالنا بھی یہاں محال تصور کیا جاتا ہے۔یہ روئیہ ہر ادار ے کے لئے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں احتساب کا ظالمانہ نظام بروِ کار لایا جائے تاکہ عوام کے اندر سے بد اعتمادی کا خاتمہ کیا جاسکے۔اگر ہمیں اس آئی سی یو میں پڑے آکسیجن لیتے ہوے پاکستان کو بچانا ہے تو اس کے کینسر کی تمام جڑوں کو کاٹنا ہوگا۔اس وقت ہر جانب پاکستان کے دشمن پھن پھیلائے بیٹھے ہیں ۔جن کی یہ کوشش ہے کہ اس ملک کو فلاحی ریاست نہ بننے دیا جائے ۔یہاں پر غربت و افلاس کا دور دورہ رہے۔اور عیاش حکمرانوں کی عیاشیاں نہ چھننے پائے۔جن لوگوں نے ملک کے خزانے لوٹے اور سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔اُن کے حلقوں سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت ہر حال میں نکالی جائے۔ پاکستا ن کا یہ سرمایہ اس ملک کے غریبوں کی خون پسینے کی کمائی ہے۔ سول وملٹری بیوروکریسی بھی اس ملک میں شفاف نہیں ہیںان لوگوں کو بھی کسی صورت میں لوٹ مار پر استثنٰی نہ دیاجائے۔
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23hurshid@gmail.com