تحریر : محمد آصف اقبال
کسی بھی معاشرہ میں رہنے بسنے والے افراد کا عمل وردّ عمل کے پس پشت اس کے عقائدونظریات اور تصورات کارفرما ہوتے ہیں۔عقائد میں سب سے اہم عقیدہ انسان کا خود اپنا وجود،مقصد حیات،دنیا میں آنے و جانے کا نظریہ،اور موجود وسائل سے ذات کا تعلق ہے۔انہیں عقائد وتصورات کی بناپر تہذیبیں وجود میں آتی ہیں نیزارتقائی مراحل سے گزرتی ہیں۔پھر یہی وہ تصورات بھی ہیں جن پر چل کر ثقافتیں رائج ہوتی ہیں۔دوسری جانب دنیا کا ہر شخص ماورائی تصورات کے ساتھ خدا کے وجود،اس کی کبرائی،اختیارات،شکل و ہیئت اور صفات کا نہ صرف تذکرہ کرتا ہے بلکہ مختلف طریقوں سے وابستگی کا اظہار بھی کرتا ہےعام الفاظ میں،خدا سے وابستگی کو عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لہذا اسلام اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں اگر عقائد کا تذکرہ کیا جائے تو اول الذکر وحدانیت کا تصور ہے،لا شریک اورایک خدا کا تصور،جس کے بے شمار ناموں میں اہم ترین نام’اللہ’ہے۔وہیں مقصد وجود یا مقصد حیات کے تذکرے میں اسلام صرف اور صرف اللہ کی عبادات پر عمل آوری کے جذبے کو ابھارتا ہے۔نیز ہر اس عمل کو اختیار کرنے کے لیے کہتا ہے جس کو اللہ نے اختیار کرنے کے لیے کہا اورہر اس عمل سے رکنے کے لیے کہتا ہے ،جس سے رکنے کی تعلیم اللہ نے دی ہے۔
دنیا میں موجود وسائل و ذات کے تعلق سے ،اسلام صاف طور پر آگاہ کرتا ہے کہ تمام وسائل،جو انسان کی قدرت اختیار میںہیں اور جو اب تک نہیں بھی ہیں، سب کے سب اللہ کے فراہم کردہ ہیں۔لہذا وسائل و ذات کا تعلق بس وہی ہے جسے ‘حرام و حلال’میں تقسیم کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بے شمار بلکہ لا تعداد چیزیںوسائل کے زمرے میں فراہم کی ہیں۔ان زمرہ جات کو جاندار اور بے جان چیزوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تمام ہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی عطا کر دہ ہیں۔اور ان کی تخلیق کا مقصد اگر کچھ ہے تو صرف یہ کہ وہ انسان کی ضروریات کی تکمیل میں معاون ثابت ہوں۔یعنی دنیا میں موجود ہر شے ء اللہ کی تخلیق شدہ اور انسان کے استعمال کے لیے بنائی گئی ہے۔لہذا’خدا’کا تصور اور دنیا میں موجود چیزیں،ایک ہی عقیدہ کے دو جز ہیں۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دنیا میں موجود کوئی بھی شیء خدا یا اس کی صفات سے متصف نہیں ہو سکتی، لہذا نہ اس کی پرستش کی جائے گی،
نہ ان سے حاجات بیان کی جائیں گی اورنہ ہی انسان سے زیادہ انہیں فوقیت دی جائے گی۔ان کی حیثیت اگر کچھ ہے ،تو اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں،کہ وہ انسان کی ضرویات و مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوں۔لہذا عبادات کا صرف وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جس میں موجود وسائل دنیا کا عمل دخل نہ ہو۔باالفاظ دیگرظاہر و باطن میں عبادات کا صرف وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا،جس میں جاندار و بے جان چیزیں،چھانٹ کر الگ کر دی جائیں،یعنی زمیں و آسمان کے درمیان پائی جانے والی ہر شیء خدا ئی تصور میں داخل نہیں ہونی چاہیے۔
اسلامی تعلیمات جن کا تذکرہ مختصر طور پر ہم نے کیا ہے،خوب اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ اس میں وجود پذیر تہذیب و تمدن کیسا ہوگا۔انسانوں کی انسانوں پر حکمرانی کی حیثیت کیا ہوگی؟ساتھ ہی دنیا میں موجود جاندار و بے جان چیزوں سے ربط و تعلق اور تصورات ،کیا ہوں گے؟اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قائم ہونے والی حکمرانی، میں ہر شخص چاہے وہ حکمراں ہو یا رعایا،عدل و انصاف میں برابر کے اختیارات حاصل ہوں گے۔برخلاف اس کے رائج الوقت حکمرانی و تہذیبوں کو اسلامی نہیں کہا جاسکتا۔ہماری بات کس حد تک صحیح و غلط ہے؟اس کا فیصلہ اہم واقعہ کے پس منظر میں رونما ہونے والی اس حدیث کی روشنی میں جانچی جا سکتی ہے ۔رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”اے لوگو ! تم سے پہلے کے لوگ اس وجہ سے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی شریف چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے ۔خدا کی قسم ! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا ہاتھ کاٹ لے گا”(بخاری و مسلم)۔اسی طرح ‘زنا’جوآج عام ہے،جس سے نہ آج کراہیت محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کو خاندانی و معاشرتی بگاڑ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے،کے سلسلے میں اسلام ،دنیا میں بگاڑ،خاندانی انتشار،معاشرتی زوال، فرد و سماج کی حد درجہ اخلاقی پستی،خدا کے قائم کردہ خونی رشتوں میں دراڑ اوردنیا کے نظام کو درہم برہم کرنے کا سبب سمجھتا ہے۔
مزید یہ کہ زنا کو خدائی حدود کی کھلے عام پامالی بتاتا ہے۔جس کے نتیجہ میں نہ صرف فرد کی تباہی طے شدہ ہے بلکہ خاندان،معاشرہ اور ملک و عالم بھی لازماً انتشار میں مبتلا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اس کی سزا بھی ایسی سخت مقرر کی گئی جس کے مشاہدے سے ہر انسان پناہ مانگے،یا بصورت دیگر اللہ کی نظر میں پاکی و طہارت اختیار کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ اسلامی تعلیمات پر قائم معاشرہ کیسا ہوتا ہے؟اس کی دو مثالیں پیش کی گئی ہیں۔آئیے تہذیب وتمدن کے تصور،نظریہ اور معنی و مفہوم کو بھی سمجھتے چلیں۔تہذیب کے لغوی معنی چھانٹنے، اصلاح کرنے سنوارنے ، درست کرنے، خالص کرنے اور پاکیزہ کرنے کے ہیں۔ اس کا مادہ ہذب ہے۔ عرب بولتے ہیں ہذب ( اس کی تہذیب کی یعنی اس کی اصلاح کی۔ اسے درست کیا۔اور سنوارا)۔اصطلاح میں تہذیب کا لفظ ہر چیز کی درستگی اصلاح پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یعنی ارادہ و نیت کی درستگی اور اصلاح، خیالات وجذبات اور عادات و اطوار ، رسم ورواج اورنظام معاشرت، سیاست و تمدن، سیاست ومنزلت، علوم فنون، تجارت وذراعت اور فکر وعمل کی درستگی و اصلاح۔ غرض تہذیب کا اطلاق سب پر ہوتا ہے۔وہیں محمد مار میڈیوک پکھتال کے الفاظ میں:تہذیب سے مراد انسانی دماغ اور دل کی آراستگی ہے( محمد مارمیڈ یوک پکھتال ،خطبات مدراس کا اردو ترجمہ ،تہذیب اسلامی ،مترجم شیخ عطاء اللہ ایم۔ اے)۔تہذیب کی تشریح کرتے ہوئے سرسید لکھتے ہیں کہ جب ایک گروہ انسانی کسی جگہ اکٹھا ہو کر بستا ہے تو اکثر ان کی ضرورتیں اور حاجتیں، ان کی غذائیں اور پوشاکیں، ان کی معلومات اور خیالات ،ان کی مسرت کی باتیں اور نفرت کی چیزیں سب یکساں ہوتی ہیں۔ اس لیے برائی اور اچھائی کے خیالات بھی یکساں ہوجاتے ہیں۔ برائی کو اچھائی سے تبدیل کرنے کی خواہش سب میں ہوتی ہے۔ اور یہی مجموعی خواہش و تبادلہ اُس قوم یا گروہ کی تہذیب ہے(مقالات سر سید از مولانا محمد اسماعیل پانی پتی )۔
تہذیب کی ان تعریفوںکے باوجود مختصراً یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تہذیبیں،ابتدائی مرحلے میں عقائد و نظریات پر استوار ہوتی ہیں،اوربعد میں معاشرتی میل ملاپ سے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی یا توپستی میں مبتلا ہو تی ہیں یا انہیں عروج حاصل ہوتا ہے۔نیز یہی معاملہ افراد،گروہ و قوموں کے عروج و زوال کا بھی ہے اوراسی پر تمدن کا انحصار ہے ۔تمدن کا مادہ چونکہ مدن ہے، جس کے لغوی معنی جگہ ، بستی اور شہر کے ہیں۔اس لحاظ سے اصطلاحی معنوں میںشخصی اور جماعتی آزادی، اور شخصی و اجتماعی حقوق کے قوانین مراد لیے جاتے ہیں۔جہاںآپس میں مل جل کر رہنے کے وہ قواعدجو اخلاقی و روحانی اصولوں پر مستنبط ہوں اور جن میں اخلاق و فطری خوبیاں اور حقیقی شائستگیاں پائی جاتی ہوں،تمدن کہلاتا ہے۔ساتھ ہی اصلاح میں تمدن سے مراد وہ باتیں ہیںجو Civilization میں شمار ہوتی ہے۔ مثلاشائستہ ہونا اوربودوباش،یہ سب شہری زندگی اختیار کرنے اور انہیں اپنانے وغیرہ میںآتا ہے۔دراصل تمدن ضروریات زندگی کی پیداوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی ضروریات رفتہ رفتہ تمدن کو جنم دیتی ہیں۔
موجودہ حالات میں رائج الوقت تہذیب وتمدن نہ صرف دنیا میں بلکہ وطن عزیز میں بھی ،فرد و اجتماعیت ،ہر دو سطح پر سود مند نہیں ہے۔نتیجہ میںمعاشرہ انتشار میں مبتلاہے،خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیںاور ملک حد درجہ اخلاقی پستیوں میں مبتلا ہوچکا ہے۔برخلاف اس کے جو کوششیں جاری ہیں اور جن کی بنیاد ہی ماورائی تصورات ہیں ،پر قائم ہونے والی تہذیب و تمدن اور ثقافت فرد،معاشرہ اورملک ہر سطح پر حد درجہ نقصان کا باعث ہے۔واقعہ کے پس منظر میں لازم ہے کہ آفاقی تعلیمات کی روشنی میں،جس کا اسلام نہ صرف دعویٰ بلکہ علی الاعلان چیلنج بھی کرتا ہے،پر سنجیدگی سے غور و خوض کیا جانا چاہیے۔
یہ غور و خوض کامعاملہ مسلمانوں سے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو توامن پسند طریقہ اختیار کرتے ہوئے ،اُن مزاحمتوں کا مقابلہ کرنا ہوگا جن کے سبب اسلام کو بدنام تواسلامی تعلیمات کومجروح کیا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں مداوا اگر کچھ ہے تو صرف اور صرف افکار ونظریات کو قول و عمل سے صحیح تصورات کے ساتھ پیش کرنے کا ہے،ساتھ ہی معاملات میں اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونا ہے۔یہی وقت کی ضرورت اور اسلام ،مسلمان اور خداورسولۖ کی تعلیمات کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے گا ۔برخلاف اس کے ہر عمل و ردّعمل عام انسانوں کواسلام و مسلمانوں سے دوریاں قائم کرنے میں معاون ہوگا !
تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.co