ماہرین نے ایک ایسا جین دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کا تعلق بالوں کی بڑھوتری اور افزائش سے ہے۔امریکی نشریاتی ادارہ کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دریافت بالوں کو گرنے سے روکنے کے لیے کی جانےوالی کوششوں کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے۔سائنس دانوں نے پاکستان اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے بعض خاندانوں میں تیزی سے گنجا ہونے کی ایک ایسے مرض پر تحقیق کی، جوشاذونادر ہی لاحق ہوتا ہے۔ اس ریسرچ کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ بالوں کی افزائش کا تعلق اے پی سی ڈی ڈی ون نامی ایک جین سے ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں مالی کیولر ڈرماٹولوجی کی پروفیسر اینجلا کرسٹینو اس تحقیقی ٹیم کی سربراہ تھیں۔اس ٹیم میں کولمبیا یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ نیویارک کی راک فیلر یونیورسٹی ، کیلی فورنیا کی سٹین فورڈ یونیورسٹی اور پاکستان اور اٹلی کے سائنس دان شامل تھے۔کرسٹینو نے بتایا کہ کہ اس بیماری کی وجہ سرکی جلد میں واقع ان نالی نما غذودوں کاسکڑنا ہے جس میں بال کی جڑہیں ہوتی ہیں۔ ان غدود کے سکڑنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرکے بال پہلے جیسے گھنے اور لمبے نہیں رہتے ، وہ تعداد میں کم اور چھوٹے ہوجاتے ہیں اور وہ پہلے جیسے چمک دار بھی نہیں رہتے۔کرسٹینو اور ان کی ٹیم کو پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو خاندانوں اور اٹلی کے ایک خاندان کے تیزی سے بال جھڑنے کی بیماری پرتحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ ان سب کا تعلق ایک مخصوص جین سے ہے۔ یہ جین بنیادی طورپر بالوں کو بڑھنے کا پیغام بھیجتا ہے یہ جین جس رفتار سے بال بڑھنے کا پیغام بھیجتا ہے، وہ اسی تیزی سے بڑھتے ہیں۔پاکستان اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے خاندنوں میں اس بیماری کے نتیجے میں بال کم عمری میں ہی جھڑنے شروع ہوگئے تھے اور ان خاندانوں کے افراد اپنے سرکے بال بڑھانے کے قابل نہیں تھے۔ یہ مرض انہیں موروثی طورپر ملاتھا۔ کرسٹینو نے بتایا کہ کہ بالوں کی جڑوں کی غدود کے سکڑنے کے عمل کا تعلق مردوں کے گنجے پن سے بھی ہے۔ لیکن یہ عمل وقت گذرنے کے ساتھ بتدریج ہوتا ہے اور اس کا اس بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہے جو تجربے میں شامل پاکستانی اور اٹلی کے خاندانوں کو لاحق تھی، حیاتیاتی طورپر غذودوں کے سکڑنے کے عمل کو اس جین کی مدد سے کنٹرول کیا جاتا ہے لیکن فی الحال بال بڑھانے کے لیے کوئی ایسی دوا موجود نہیں ہے جو اس جین پر اثر کرتی ہو۔تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس نئی دریافت کے بعد وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب بالوں کو گرنے سے بچانے کے لیے مو ¿ثر اور محفوظ طریقہ علاج تلاش کرلیا جائے گا ۔یہ تحقیق ہفتہ وار جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔