تحریر: میاں نصیر احمد
ہم خوش قسمت ہیں کہ آج دنیا بھر میں ایک آزاد قوم کہلواتے ہیں قیام پاکستان سے پہلے ایک طرف برصغیر غلامی کے اندھیروں میں مبتلا تھا تو دوسری طرف عالم اسلام کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہ تھی ایسے پیچیدہ حالات میں صرف ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہی تھے جنہوں نے برصغیر سمیت پوری دنیا کے مسائل کے درست تجزیے اور اپنی الہامی شاعری کے ذریعے مایوسی کے اندھیروں کو امیدکی روشنی میں بدل ڈالا۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ان خدمات کا اعتراف صرف مسلم معاشروں میں ہی نہیں کیا گیا بلکہ مغرب بھی ان کی فکرسے متاثر ہوا جس کا ثبوت مغربی مفکرین کی تحریروں میں بڑے تواترکے ساتھ ملتاہے علامہ محمد اقبال قوموں کو حیات نو عطا کر دینے و الے شاعر ہیںعلامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں آلہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔
اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو یہ مر تبہ اور مقبولیت اْن کی وسیع النظری اورفکری کشاد گی کی وجہ سے ملی یوں تو اْن کاسارا کلام اْن کی اسی بصیرت کاعکاس ہے لیکن جاوید نامہ میں وہ اپنی فکری معراج پر نظر آتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب ہماے موجودہ عہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے تصنیف فرمائی وہ اپنے صاحبزادے کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مردمومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسلم اور غیر مسلم کے امتیازات سے بالاترہو کر ہر انسان کے لیے سراپارحمت بن جائے کیونکہ اللہ کی ذات بھی کسی امتیاز کے بغیر ہر انسان سے محبت فرماتی ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے ہمیں ایک آزاد ملک دیا اور ہم خوش قسمت ہیں کہ آج دنیا بھر میں ایک آزاد قوم کہلواتے ہیںڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی سوچ اور فکر کی آج پھر اشد ضرورت ہے تعلیم ڈاکٹر علامہ اقبال کی سوچ اور فکر کا محور تھی طلبہ کو اقبال کا شاہین بنانے کے لئے اساتذہ پیشہ وارانہ مہارت سے کام لیں اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو ہمیں علامہ اقبال کے افکار اور کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہوگااقبال حریت ،فکر اور خودی کے شاعر تھے علامہ محمد اقبال نے ملت کے ہر فرد کو مقدرکا ستارہ کہا ہے۔
طلبہ کو اقبال کا شاہین بنانے کے لئے اساتذہ پیشہ وارانہ مہارت سے کام لیںا س کی تعلیمات کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی اپنی سطح پر اہم کردار ادا کرنا چاہئے مسلمان ممالک ایک ایک کر کے آزادی سے محروم ہو چکے تھے ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات یا تو حکمرانوں کے مقلد بن چکے تھے یا پدرم سلطان بود کے خواب میں مست پڑے تھے ان حالات میں قوم کے کسی بہی خواہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ارد گرد کے حالات سے آنکھیں بند کر لے اور قوم کو ماضی کے سپنوں میں پڑا رہنے دے سرسید احمد خاںحالی شبلی نذیر احمداکبر الہ آبادی اور دوسرے بہت سے ادبا اور شعرا اپنے اپنے انداز میں ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کر رہے تھے علامہ اقبال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے وہ چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت اسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دْور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔
اقبال کا انتقال ہوا تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا بہت سے مسلمان ممالک رفتہ رفتہ آزاد ہونے لگے تھے۔ اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اْنہوں نے خطب الٰہ آباد میں برصغیر کے مسائل کا حکیمانہ جائزہ لے کر تصور پاکستان پیش کیا لیکن ان کا ایک طر امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے خود کو اپنے زمانے اور برصغیر تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے خطے سے باہر اور آنے والے زمانوں کے بارے میں بھی غورو فکر کرکے دنیا کی رہنمائی کی علامہ اقبال نے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جسکی وجہ سے کچھ لوگ سیاست میں اس فکر کی طرف آئے۔
اگرچہ یہ بات عملاً ناممکن نظر آرہی تھی کہ انگریزوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی قوم اور دوسری طرف سے ایک واضح اکثریت کے غلبے کے نیچے دبی ہوئی قوم کس طرح سے ایک الگ ریاست، ایک الگ وجود اور ایک الگ نظام بنا سکتے ہیں لیکن علامہ نے یہ فکر عوام میں بھی پیش کی اور خواص میں بھی پیش کی، کچھ کو سمجھ میں آئی اور انہوں نے اس راہ پر کام شروع کیا البتہ اْنکے پیچھے جو فکر کارفرما تھی وہ علامہ محمد اقبال ہی کی تھی جسکی وجہ سے سیاسی عمل اپنی حد تک آگے بڑھا علامہ محمد اقبال چاہتے ہیں کہ کورانہ تقلید کی بجائے ملت کے افراد سچائی کی تلاش کے لیے تحقیق و تدقیق کے راستے پر چلیں یہ بڑا کٹھن راستہ ہے، پرْخار اور طویل، مگر اس کو اختیار کیے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں، لیکن حالات یہ ہیں کہ صوفی، ملا اور اْستاد کسی کو آزادی اظہار دینے کے لیے تیار نہیں یہ کیفیت ہو تو تحقیق کیسے پنپ سکتی ہے یہ بات بلاوجہ نہیں کہ اقبال کے ہاںتحقیق اور صداقت کی تلاش پر اتنا زور دیا گیا ہے۔
افسوس کہ 68 سال گزر جانے کے باوجود، جس طرح کا پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور قائد چاہتے تھے ہم ویسا بنانے میں تا حال ناکام ہیں علامہ اقبال نے جب مسلمانوں کو ایک الگ مملکت کی فکر دی تو وہ برصغیر کے مسلمانوں کی غلامی کا دور تھاجس وقت علامہ اقبال نے مسلمانوں کی الگ ریاست کا تصور پیش کیا اس وقت مسلمان اور دیگر قومیں جسمانی، تعلیمی، سیاسی، عملی اور معیشتی طور پربلکہ مکمل طور پر انگریزوں کی غلامی میں تھے علامہ اقبا ل نے فقط ایک سرزمین کا مطالبہ یا تفکر پیش نہیں کیا کہ مسلمانوں کو ایک الگ جغرافیہ چاہئے محض جغرافیہ کسی کام کا نہیں ہے چونکہ علامہ اقبال نے وطنیت کی فکر کو بعنوان فکرسیاسی سختی سے رد کیا ہے بلکہ اسکو بت پرستی اور شرک کہا ہے ہرجگہ وطن پرستی خاک پرستی اور جغرافیہ پرستی کی تردید کی ہے درعین حال مسلمانوں کیلئے خود ایک الگ وطن کا مطالبہ بھی کیا۔
مسلمانوں کو اس طرف رہنمائی بھی کی ہے ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان بحیثیتِ وطن یا جغرافیہ راہِ حل نہیں تھا بلکہ اسلئے ایک سرزمین چاہئے تھی تاکہ اسکے اندر نظام الہی نافذ کیا جاسکے اصل نظام الٰہی ہے لہٰذا اسکو برپا کرنا ہے معاشرے کی ایک بڑی اکثریت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو محض ایک اسلامی شاعرفلاسفربانی نظری پاکستان اور تصور پاکستان سمجھتی ہے اس لئے ان کا نام بہت احترام سے لیتی اور ان کے کلام کو اپنی روحانی تسکین اور بالیدگی ایمان کے لئے لازمی تصور کرتی ہے علامہ محمد اقبال کو ہم سے بچھڑے 77 برس بیت گئے لیکن اتنے برس بعد بھی وہ ہمارے درمیان ایسے ہی موجود ہیں جیسے 77 برس پہلے موجود تھے آئیے آج عہد کریں کہ ہم اپنے ہی گھر میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شکل میں پھوٹنے والی روشنی سے استفادہ کر کے وطن عزیز اور اِس دنیا کو خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا ر کھیں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین پاکستان پائندہ باد
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
تحریر: میاں نصیر احمد