تحریر : راؤ خلیل احمد
دو نومبر پاکستانی سیاست میں ایک یاد گار دن بن گیا ہے۔ جب تحریک انصاف کی جانب سے یوم احتجاج یوم تشکر میں بدلا ۔ حکومت وقت کی اپنے دور کا قتل و غارت میں سیکنڈ پکڑ دھکڑ اور لاک ڈاون میں اب تک کا سب سے بڑا ایکشن تسکین کے ری ایکشن میں بدلا ۔ اسی ایکشن اور ری ایکشن میں کامیابی کا تناسب کیا رہا یہ گزرتا ہوا وقت بتا دے گا۔ مگر تحریک انصاف نے اپنی کامیابی پر یوم تشکر کے نام سے اسلام آباد میں جشن کا اہتمام کیا جس کا” زائیقہ ” پیرس تک محسوس کیا گیا۔ جس پر میرے استاد جناب سلیم بخاری کا یہ کہنا کہ ” مجھے اتنے بڑے جلسے کی توقع نھیں تھی یہ جلسہ ہر اعتبار سے بہت بڑا ہے ، اب عمران خان کے ناقدین کے منہ بند ہو جانے چاہیں ” میرے لیے ان کی یہ سٹیٹمنٹ کافی ہے ۔ دوسری جانب یورپ کے معروف جرنلسٹ خالد حمید فارقی کی یہ سٹیٹمنٹ
Khalid Hameed Farooqi
PTI stands completely exposed that it has no workers neither political organisation to resist state power . 2nd November was test for PTI and IK to collect people beyond concert gathering .apolitical people crossing boundaries of All ethics . We must remain confined to political criticism. بھی کابل غور ہے۔
2 نومبر کو ہی ایک نااہلی کے کیس کی شنوائی تھی جو پاکستان الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ کی جانب سے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، کیپٹن (ر) صفدر اور حمزہ شہباز کے خلاف تھا ۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹارئرڈ سردار رضا خان کی سربراہی میں فل کمیشن نے جیسے ہی اس کیس کی سماعت شروع کی تو وزیر اعظم کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ پاناما کے معاملے پر سپریم کورٹ سماعت کررہی ہے لہٰذا فیصلہ آنے تک الیکشن کمیشن کو سماعت روک دینی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سماعت بغیر جرح کے روک دی گئی۔
یکم کو دو کا احتجاج تشکر میں بدلا تین جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس میں سامنے آنے والے الزامات کی باقاعدہ سماعت کی۔اسی دن وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے عدالت میں جواب جمع کروا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ عدالت کی فی الحال ترجیح وزیر اعظم کے خلاف الزامات کو ہی دیکھنا ہے۔ مگر پتلی گلی سے نکلنے کے لیے عدالت میں وزیراعظم کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے بھی جواب جمع کروا دیا گیا ہے 3 دن بعد پیر کو وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز اور بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے بھی جوابات جمع کروا دیے گئے ۔ اس سے کیس میں حاکم وقت کی کلین چٹ کی تیاری کا انداہ تو ھو جانا چاہیے۔
حکومت کی جانب سے دستاویزی شواہد جمع کرانے کے لیے وقت مانگا جا رہا ھے مگ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس تو پہلے ہی دستاویزی شواہد موجود ہیں ! تحریک انصاف کے وکیل حامد خان سے عدالت دریافت کرتی ہے کہ کیا ان کے پاس اس مقدمے سے جڑے مزید کوئی شواہد ہیں تو ان کا جواب تھا کہ انہوں نے سب پہلے ہی جمع کروا دیے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس کے پاس دو راستے ہیں کہ وہ دستاویزی شواہد کا خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے یا پھر شواہد دیکھ کر کمیشن تشکیل دے ؛ حامد خان کا اصرار رہا کہ یہ کمیشن کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ مزید شواہد حاصل کرے۔ اور یہ بھی یاد رھے تحریک انصاف کے وکیل حامد خان وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ ایک ہی لاء فرم کے بنی فیشری ہیں، فیس تقسیم ہوگی۔ سب جانتے ہیں کہ کمیشن پہلے بھی کئی بنے اور آئندہ بھی بنیں گے مگر رپورٹیں منظر عام پر نہیں آتیں۔
ماڈل ٹاؤن پر بننے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ بھی ابھی آنا باقی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سب یہ بھی سمجھتے ہیں کمیشن تو حکومت وقت کی مرضی سے ہی ڈرائیو ہوتے ہیں ! ایسے میں تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کاکمیشن پے اسرار کہانی کی ڈائریکشن کا تعین کرتا نظر آتا ہے۔ پاناما ایشو کو 7 ماہ ہونے کو آئے اس پر ہر طرف سے یلغار بھی ہوئی پھر بھی ایک ہی دن کا نوٹس اور وزیر اعظم کی جانب سے خیر مقدم جوابات بھی داخل ، کہانی کچھ اور ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کاغذات میں ضروری ردوبدل اور تبدیلیاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔ کوئی بعید نھیں حسن ،حسین اور مریم کی کمپنیوں کے مالک جارج ، پیٹر اور میری ہوں اور وہ جاتی عمرہ کے کسی کمرے میں نشے میں دھت پڑے ہوں۔ حسن حسین اور محترہ مریم صاحبہ ان کی کرائے دار ثابت ہوں ،کسی کی زیرے کفالت اور کرائے دار کی کیا حیثیت ہے ؛ تو پھر کلین چٹ تو بنتی ہے نہ!
ہاں اگر کیا کرشماتی بچوں سے دولت کے ماخذ اور دولت کی آمدروفت اور نقل و حرکت کے بارے میں زور دے کر پوچھا جائے تو جان چھوٹی نظر نھیں آتی اگر ایسا ہوا تو امید سے نہیں کہا جا سکتا کہ سماعت خیر و عافیت سے جاری رہ سکے گی۔ ایک بات تو کلیر ہے وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے فلور پر جو موقف دیا وہ سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان سے متصادم ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی بچہ ان کی زیر کفالت نہیں 2013 ء میں الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے گوشواروں سے متصادم ہے۔ اور یہ کافی ہے وزیر اعظم کی نا اہلی کے لیے۔ اب لمحہء فکریہ یہ بھی ہے اگر میاں صاحب نااہل ہو بھی جائیں تو کرپشن کا احساب کون لائے گا ، کیا لوٹی ہوئی ملکی دولت واپس آ سکے گی ؟ کیا ملک میں اشیاء سرف کی یورپ سے بھی زیادہ بڑھتی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے گی۔ کیا غریب سے چھینا ہوا نوالہ اسے مل پائے گا۔
تحریر : راؤ خلیل احمد