تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
آجکل پاکستان میں صفائی مہم کا بڑا چرچا ہے۔ چاروں طرف ”صفائی”اور ”صفایا” ساتھ ساتھ جاری ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے بھارتی ”جھاڑو پارٹی” کا روپ دھار کر جھاڑو اٹھا لیے ہیں۔ دراصل ایم کیو ایم کو بھارت سے ”پیار” ہی بہت ہے اسی لیے وہ ان کی پیروی کرتی رہتی ہے۔ ایم کیو ایم کے کراچی کے مجوزہ میئر وسیم اختراِس صفائی مہم میں پیش پیش ہیں۔ اُدھر سابقہ میئر مصطفے کمال ”اَندر کھاتے” ایم کیو ایم ہی کا ”صفایا ”کرنے میں مگن ہیں۔
کہتے ہیں کہ جہاز جب ڈوبنے لگتا ہے تو چوہے سب سے پہلے چھلانگیں لگا جاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا جہاز بھی آجکل ڈانوا ڈول ہے۔ ایک ہمارے ”الطاف بھائی” ہوا کرتے تھے (وہ تھے اور تھے ہوگئے)۔ جب سے حکومت نے اُن کی ”بڑھکوں شڑکوں” پرپابندی لگائی ،پوری ایم کیوایم ہی ”ٹائیں ٹائیںفِش” ہوگئی ۔اسی لیے توایم کیوایم کے جہازسے کئی چوہے چھلانگیں لگاچکے اورباقی لگانے کوتیار بیٹھے ہیں ۔اُدھرہمارے وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد بھی الطاف بھائی کے ساتھ”چھیڑچھاڑ” کرتے رہتے ہیں ۔یقینا لندن میںبیٹھے ”اوازار” الطاف بھائی اِس چھیڑچھاڑ سے تنگ آکر گنگناتے رہتے ہوں گے کہ
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری ، راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ، ہم بیزار بیٹھے ہیں
پیپلزپارٹی بھی ایم کیوایم کے خلاف اِس ”صفائی مہم” میں” فرنٹ لائن” پرہے ۔ اسی لیے توڈاکٹر فاروق ستارنے ”تَپ” کرکہاکہ پیپلزپارٹی ایم کیوایم کی ”ساس” کاکردار اداکر رہی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ پیپلزپارٹی کی” ساس” نوازلیگ ہے ۔کسی جیالے نے ایک محفل میں ،جہاں ہم بھی موجودتھے ،جَل بھُن کرکہا کہ اگر ایم کیوایم کی ساس پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی کی ساس نوازلیگ ہے تو پھر نوازلیگ کی ساس کون ہے ؟۔ ہم نے مسکراتے ہوئے جواب دیاکہ نوازلیگ کی ساس تحریکِ انصاف ہے جووقفے وقفے سے اُس کاجینا دوبھر کیے رکھتی ہے ۔اب اگرہم سے کوئی یہ پوچھتا کہ تحریکِ انصاف کی ساس کون ہے توہم تُرت جواب دیتے کہ جمیعت علمائے اسلام لیکن نہ کسی نے ہم سے پوچھااورنہ ہی ہم نے جواب دیا۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ اپنے مولانا فضل الرحمٰن تو سب کی ساس ہیں جو گاہے بگاہے ہرکسی کوڈانٹتے رہتے ہیں ۔پچھلے دنوںپنجاب اسمبلی میں تحفظِ خواتین بِل کے پاس ہونے پرمولانا کے تَن بدن میں آگ لگ گئی اوروہ ”لَٹھ لے کر” اپنے ہی اتحادی کے پیچھے دَوڑپڑے ۔آجکل وہ اسی تحفظِ خواتین بِل پرسیاست ،سیاست کھیل رہے ہیں ۔اِس معاملے پراُنہوں نے جماعتِ اسلامی کے مولاناسراج الحق کوبھی اپنے ساتھ ملالیا ہے ۔ویسے اکابرینِ جماعت اسلامی کے ساتھ ”مولانا” لگانا کچھ عجیب ہی لگتاہے ،جیسے مولانالیاقت بلوچ ،مولانا فریداحمد پراچہ ،مولانا حافظ سلیمان بَٹ ،مولانا احسان اللہ وقاص وغیرہ وغیرہ لیکن ہیں تو وہ مولانا ہی اور
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
کے مصداق وہ ایک دفعہ پھر”ایم ایم اے” کو فعال کرنے کی بھرپور تیاریوں میں ہیں۔ ہماراتو جماعت اسلامی والوں کو مخلصانہ مشورہ یہی ہو گا کہ وہ جماعت اسلامی کوجمیعت علمائے اسلام میں ضَم کرکے ”پَکی پکی ایم ایم اے بنالیں کیونکہ کل کلاں اگر میدانِ سیاست میںایم ایم اے کے ہاتھ کچھ آبھی گیاتو حسبِ سابق سب کچھ ڈکار جائیں گے مولانافضل الرحمٰن اورجماعت اسلامی کے ہاتھ آئے گی صرف بدنامی۔ گویا ”صاحب نے کھایاپیا کچھ نہیں ،گلاس توڑا بارہ آنے۔ بات چلی تھی صفائی مہم کی لیکن نکل کسی دوسری طرف گئی ،آمدم بَرسرِ مطلب آجکل پیپلزپارٹی بھی ”نَوسو چوہے کھاکے بِلّی حج کوچلی” کے مصداق صفائی مہم کے لیے تیاربیٹھی ہے ۔نیویارک میں بیٹھے ہوئے آصف زرداری نے فرمایاکہ وہ احتسابی نظام کی بہتری کے لیے تیار ہیں لیکن ساتھ ہی شایداُن کا یہ مطالبہ بھی کہ ڈاکٹرعاصم پر ”ہَتھ ہَولا” رکھا جائے۔
اُنہوں نے فرمایا ”میرا ڈاکٹر عاصم سے تعلق ہے اوروہ ایساشخص ہے جواپنی پرچھائیں سے بھی ڈرتاہے ۔اُس پرلگائے گئے تمام الزامات غلط ہیں۔ہم ہمیشہ اُن کا ساتھ دیتے رہیں گے”۔گویا پیپلزپارٹی مشروط طورپر ”صفائی” کے لیے تیار ہے۔
زرداری صاحب نے تونوازلیگ کویہ ”کھُلی ڈُلی” دھمکی بھی دے دی ہے کہ عمران خاںآج بھی دَھرنا دینے کے لیے تیاربیٹھے ہیں اور پیپلزپارٹی کو حکومت گرانے کے لیے گرینڈالائنس میں شامل ہونے کے لیے کہا جا رہا ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہناچاہتے ہیںکہ نوازلیگ ڈاکٹرعاصم کے معاملے پر نظرِ ثانی کرے ورنہ وہ گرینڈالائنس میںشامل ہوکر نوازلیگ کا ”مَکوٹھَپ” دیں گے۔
شاید زرداری صاحب نہیں جانتے کہ ڈاکٹرعاصم کے معاملے میں نوازلیگ کاکوئی ہاتھ نہیں۔ وہ تواُنہی لوگوںکے قبضۂ قدرت میں ہے جن کی ”اینٹ سے اینٹ” بجادینے کااعلان کرکے خود پاکستان سے ”پھُر” ہوگئے اوراب نیویارک میں پائے جاتے ہیں۔وہ لاکھ کہیں کہ ”اینٹ سے اینٹ بجادینے کی باتیں اپوزیشن اورسیاسی جماعتوں کے لیے تھیں ،کسی کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائی جا سکتی ،پیپلزپارٹی کوہمیشہ غلط طورپر پیش کیا جاتا رہا۔
میں فوج ،اسٹیبلشمنٹ اورجوانوںکے ساتھ کھڑاہوں” لیکن اب اُن کی باتوںپہ کوئی کان دھرنے والا نہیں۔سبھی جانتے ہیںکہ اُنہوںنے کِن سے مخاطب ہو کر کہاتھا ”تُم نے توتین سال رہناہے ،پھرہم نے ہی ہوناہے”۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ”صفائی مہم” تواب رُکے گی نہیں اوراِس معاملے میںنوازلیگ بھی بے بَس ہے۔وہ تو خود ”وَخت” میں پڑی ہوئی ہے اسی لیے توپرویز رشید صاحب گاہے بگاہے ”نَیب” کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
دھمکیاں تو خیر وزیرِاعظم صاحب نے بھی دیں اور ہمارے خادمِ اعلیٰ نے بھی اپنی انگشتِ شہادت کو زورزور سے ہلاتے ہوئے یہ کہاکہ اگروہ نیب کی اندرونی کہانیاں بیان کرنے پراُتر آئے تواحتساب کایہ ادارہ کسی کومُنہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ نیب پربہرحال اِن دھمکیوں کا ”کَکھ” اثرنہیں ہوا اور ہ اپنے کام میں جُتی ہوئی ہے ۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اِس معاملے میں نوازلیگ نے پیپلزپارٹی کاکیا ساتھ دیناہے ،وہ اپنی ہی ”نبیَڑ”لے تو یہی بہت ہے۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر