انسان کو اپنی متاع بہت عزیز ہوا کرتی ہے۔ وہ اس متاع کو ہر شے پر مقدم جانتا ہے۔ یہ انسان کا ظرف ہوتا ہے، اس کی متاع ہے کیا؟ بڑے قد کے لوگوں کے نزدیک ان کی متاع ان کی علم و دانش ہوا کرتی ہے، ان کے ذاتی مفاد ان کی متاع کے قریب کہیں نہیں پھٹکتے۔ انسان اس متاع پر اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار ہوتا ہے، اپنا سب کچھ۔ جیسا کہ ایک ماں کے نزدیک اس کی کل متاع اس کی اولاد ہوا کرتی ہے، وہ اس کے لئے ہر شے سے صف آراء ہو سکتی ہے۔
بقول شاعر،
ماں کی مامتا مت پوچھ
چڑیا شیر سے لڑ جاتی ہے
لیکن اس متاع سے زیادہ عزیز اسے وہ آشیانہ ہوتا ہے، جس میں رہ کر اس نے اس متاع کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ تاریخ لکھتی ہے کہ ماؤں نے اپنے لخت جگر اپنے آشیانوں پر وار دئیے، کیونکہ وہ آشیانے کی قدروقیمت جانتی ہے۔
لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے تقریباََ تمام حکمران ایسے ایسے کم ظرف ہوئے ہیں، جن کو ذاتی مفاد ریاست سے کہیں درجے زیادہ عزیز تھے۔ ان تمام سیاہ بابوں میں ایک پیپلز پارٹی منفرد ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے باہر کیا گیا، ان پر کیس بنایا گیا اور مولوی مشتاق جیسے جج نے ایسے ایسے جملے بھٹو کو کہے کہ خدا کی پناہ۔ اس کے بعد بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ لیکن پیپلز پارٹی نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ یہ سب اس دور میں ہوا جب بھٹو شہرت کی بلندیوں پر تھا، اس کی ایک آواز پر لوگوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر دوڑا چلا آتا تھا۔ کرنل رفیع اپنی کتاب، “لاسٹ 323 ڈیز آف بھٹو” میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کی قابض حکومت کس حد تک خوف زدہ تھی بھٹو کو قید کر کے۔ نجانے کیا کیا جتن اس ایک شخص کے لئے کئے گئے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی پی نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کے خلاف جو جو غلیظ سازشیں میاں محمد نواز شریف اور ان کی پارٹی نے کیں۔ سکھر جیل میں بی بی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، وہ یہاں لکھے جانے کے قابل نہیں ہے۔ جب آصف علی زرداری کو قید و بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا تب محترمہ بلاول اور آصفہ کا ہاتھ پکڑ کر کبھی اس جیل تو کبھی اس جیل ماری ماری پھرتی رہیں۔ ایک روز جب بی بی کو ان کے مشیر نے کہا کہ بی بی آپ انتقام کیوں نہیں لیتیں؟ تب بی بی نے اپنے ظرف کے مطابق جملے کہے،
“یہ زندگی محبتیں پھیلانے کے لئے بہت چھوٹی ہے، اسے نفرتوں میں ضائع مت کرو۔”
بی بی کی شہادت ہوئی، ان کے قاتل آج بھی بیرون ملک بیٹھ کر انٹرویوز دیتے ہیں لیکن پی پی پی نے کبھی ریاست کے خلاف بات نہیں کی بلکہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا لیکن پی پی پی نے تب بھی پاکستان بچانے کا ہی نعرہ لگایا۔ آج منظر دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی سیاستدان میں اتناظرف ہے ہی نہیں کہ وہ حالات کو سمجھ سکیں۔
سیاست نام ہی درست وقت پر درست فیصلوں کا ہے۔ اس سیاستدان کا مقدر ناکامی ہوا کرتی ہے، جو صحیح وقت کا تعین نہ کر سکے۔ فیصلوں کے زاویے پر نواز شریف کا ہاتھ ہمیشہ ہی ڈھیلا رہا ہے۔ ایک ایسا وقت جب پاکستان کی دونوں سرحدوں پر حالات کشیدہ ہیں اور ایکٹو ہیں۔ جب پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات نہایت نازک دوراہے پر کھڑے ہیں اور پاکستان امریکہ کو اس کی زبان میں جواب دے رہا ہے اور آج سے کچھ دن بعد فنانشئیل ٹاسک فارس کا دیا ہوا وقت ختم ہونے جا رہا ہے اور پاکستان پر مزید پابندیاں لگائے جانے کا امکان ہے اور نام گرے لسٹ میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں نواز شریف نے نہایت ہی غیر ضروری بیان دے کر ایک مصیبت اپنے سر لے لی ہے۔
بروز ہفتہ میاں محمد نواز شریف کا ایک انٹرویو ڈان اخبار میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے ایک نہایت ہی غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ بلکہ اگر مجرمانہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا، ممبئی حملوں سے بیان دیا۔ محترم سے سوال کیا گیا، “آپ کو کیا لگتا ہے وزارت عظمی سے نااہلی کی حقیقی وجہ کیا ہے؟” جس کے جواب میں میاں صاحب نے یہ الفاظ کہے جو اخبار نے اردو ترجمے کی صورت میں چھاپے،
“عسکری تنظیمیں اب تک متحرک ہیں جنہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، مجھے سمجھائیں کہ کیا ہمیں انہیں اس بات کی اجازت دینی چاہیے کہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کو قتل کردیں۔”
اکثر ہوتا ہے، انسان جذبات کی رو میں بہہ کر بیان دے دیتا ہے، غیر دانستگی میں وہ بات کہہ دیتا ہے جو وہ نہیں کہنا چاہ رہا ہوتا۔ لیکن یہاں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس انٹرویو کے لئے میاں محمد نواز شریف مکمل طور پر تیار تھے، سرل المیڈاکو بلایا گیا اور یہ انٹرویو دیا گیا۔ اور اس میں سرل لکھتا ہے کہ نواز شریف سے پوچھا کچھ اور گیا، لیکن انہوں نے جواب کچھ اور دیا۔
اس سے کچھ دن قبل احتساب عدالت کے باہر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،
“میرے سینے میں بہت سے راز دفن ہیں، سدھر جاؤ کہ اس سے پہلے کہ میں مزید راز افشاں کر دوں۔”
اگر آپ یہ دونوں بیان دیکھیں تو آپ پر سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ ان کے کہنا یہ تھا کہ انہیں وزارت عظمی سے اس لئے نہیں نااہل کیا گیا کہ انہوں نے لندن میں فلیٹس بنائے ہیں اور اربوں رپوں کی جائیدادیں بنائی ہیں بلکہ اس لئے نااہل کیا گیا کیونکہ وہ ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ اپنے پانچ سالہ دور میں میاں صاحب نے اس طرح کی کوئی کوشش نہیں کی۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے اس بیان سے بھارت میں فوری طور پر ایک سخت ردعمل ہو گا۔ اور وہ ردعمل ہو رہا ہے اور پاکستان کی جی بھر کر جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ حالانکہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں انہوں نے اس معاملے پر کوئی نظرِکرم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ میں ذاتی حیثیت میں آرٹیکل 62-1 ایف کا سخت مخالف ہوں۔ کیونکہ یہ ایک آمر کا دیا ہوا زہر ہے اور صادق اور امین صرف انبیاء و اولیاء کی ذات ہوا کرتی ہے، آج کے دور کا کوئی بھی انسان اس پیمانے پر کسی صورت پورا نہیں اتر سکتا۔ مگر اس میں غلطی کس کی ہے؟ پی پی پی جب یہ قانون ختم کرنا چاہتی تھی تو کس کو ضیاء الحق کی محبت ستا رہی تھی اور اس نے اس کی مخالفت کی تھی؟ وہ یہ مسلم لیگ ن ہی تھی۔ فیصلے کے بعد نواز شریف نے ٹکراؤ کا ایک راستہ اپنایا تو میں نے اس کی بھی شدید مخالفت کی کہ یہ ریاست کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ لیکن ان کا یہ تازہ بیان کسی ادارے کے خلاف نہیں ہے بلکہ ریاست کے خلاف ہے۔ جو کہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ نواز شریف کے منہ سے اس قوم نے کبھی کلبھوشن یادیو کا نام نہیں سنا حالانکہ وہ ایک ثابت شدہ “را” ایجنٹ ہے۔ نجانے کیوں اس کا نام لیتے ہوئے میاں صاحب کا وضو ٹوٹتا ہے۔ نواز شریف کی حکمتِ عملی بڑی سادہ ہے، جس نظام میں وہ خود کو نہ دیکھیں، ان کے نزدیک ہر اس نظام کو پھانسی دے دینی چاہئے اور ہر وہ شخص جو نواز شریف کو قریب سے جانتا ہے اسے علم ہے کہ جس دن میاں صاحب کو ان کی کرسی واپسی ملی اس دن میاں صاحب کے تمام نظریات دم توڑ جائیں گے۔
اسٹیبلشمنٹ کے اوور رول پر اور ریاست کی ناانصافیوں پر تنقید ہم میں سے اکثر ہی کرتے ہیں لیکن جب بین الاقوامی سطح پر ہمیں اپنی فوج و ریاست کا دفاع لازم ہو جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کے بغیر ہماری بقاء ہے ہی نہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بہت بڑے بڑے بلنڈرز کئے ہیں مگر کوئی بھی ذمہ دار شخص ان کو اس طرح پبلک میں نہیں لے کر آتا کہ جہاں قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں۔ اپنے ایک معمولی ایجنٹ کو بچانے کے لئے امریکہ کس حد تک گیا تھا، اس کی خاطر باراک اوباما نے خود رابطے کئے اور پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ ہمارا سفارت کار ہے۔
ن لیگ کی جانب سے میاں صاحب کے بیان پر نہایت ہی فضول قسم کی وضاحت سامنے آئی اور بہت دیر سے آئی۔ اخبار صبح پانچ بجے چھپ کر آجاتا ہے۔حد اس کی وضاحت دس بجے تک آج جانی چاہئے تھی۔ اگر کوئی وضاحت نہیں آئی تھی تو وزیر اعظم کے ترجمان کو فوری طور پر سامنے آکر اس کی تردید بلکہ مذمت کرنی چاہئے تھی۔ لیکن حکومتی حلقے خاموش تماشائی بنے رہے اور جب سب جل کر خاکستر ہو گیا تو انہیں ڈیمیج کنٹرول کا خیال آیا۔
سوال تو یہاں یہ بھی اٹھے گا کہ اگر یہی بیان کسی چھوٹے صوبے کے حکمران جیسے کہ اکبر بگٹی نے دیا ہوتا یا لاڑکانہ کے کسی شخص نے تو اب تک اس پر غداری کے کیس بنا کر اس کی پھانسی کے حکم جاری کر دئیے گئے ہوتے لیکن یہ پنجاب کے حکمران لاڈلے ہیں۔
نواز شریف اس وقت اپنے ساتھیوں کے لئے عجیب دردِ سر بن چکے ہیں۔ وہ ایک متنازعہ بیان دے دیتے ہیں تو ان کے ساتھیوں کے لئے اس بیان کا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس تمام معاملے میں غلطی اخبار کی بھی ہے۔ اخبار یہ بیان چھاپتے ہوئے ایتھکس آف جرنلزم کا خیال کیوں نہیں رکھا؟ یہ ایڈٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا کچھ بھی چھپنے مت دے جو کہ قومی سلامتی کے منافی ہو۔ لیکن ہم نے ایڈیٹر کے دفتر کا وہ بیڑاغرق کیا ہے کہ اس کا کوئی کام رہ ہی نہیں گیا۔
ایک جانب ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو نواز شریف کو غدار جیسی تہمتوں سے نوازنا شروع ہو گئے ہیں، ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے عادی ہیں۔ پی پی پی کے کچھ اراکین بھی بالکل اسی عجلت میں دے مار ساڑھے چار کے اصول کے تحت دھڑا دھڑ غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرتے رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ کے ایک آرٹیکل پر اسے غدار تک کہہ دیا تھا۔ حالانکہ ان کی اپنی رہنما بےنظیر اپنی کتاب میں حسین حقانی کو وفادار ساتھی بھی کہہ چکی ہیں۔ اس فہرست میں وہ دانشور بھی شامل ہیں جو صرف تنقید بلا تنقید کرتے ہیں۔
دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو محض اسٹبیلشمنٹ کے خلاف بولنا جانتے ہیں، موقع محل دیکھے بغیر شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے دلیل یہ آتی ہے کہ دو درجن لوگ پہلے بھی کہہ چکے ہیں اگر نواز شریف نے کہہ دیا ہے تو کیا غلط کہا ہے۔ یہ ایک نہایت بھونڈی دلیل ہے۔ دنیا میں اب تک نجانے کتنے قتل ہوئے ہوں گے کیا میرا کیا قتل اس سے جائز ہو جائے گا؟
ہمیں دشمن کی سازشیں اتنا نقصان نہیں پہنچاتیں، جتنا اپنوں کی غلطیاں پہنچاتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران ایسے کم ظرف لوگ ہیں۔ جن کے لئے ذاتی مفاد قومی مفاد سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ملک میں ویسے ہی بےچینی کی صورت حال ہے۔ افواہیں ہیں، انتخابات ہونگے نہیں ہونگے؟ آخر کیا بنے گا۔ سیاسی استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے۔