تحریر : انعم احسن
انار کلی بازار میں داخل ہوتے ہی، بازار میں موجود ہوٹلز کے ویٹرز ہر آنے جانے والے فرد پر بھوکے گدھوں کی مانند جھپٹ پڑتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بازار میں داخل ہونے والا ہر شخص ان کے کھانے سے لطف اندوز ہو۔ کوئی بھی شریف آدمی اس بازار میں اپنی فیملی کے ہمراہ داخل ہونے سے پہلے سو بار سوچے گا۔لیکن یہ تحریر انارکلی بازار کی خوبیاں یا خامیاں بیان کرنے کے لئے نہیں لکھ رہی بلکہ 4ستمبر کو مغربی ملبوسات بنانے والی ایک برانڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کئے جانے والے اخلاق باختہ اشتہار نے مجھے قلم اُٹھانے پر مجبور کیاہے۔اس اشتہار نے ہر ذی شعور پاکستانی اور لاہور کے غیور عوام کو انتہائی دکھ میں مبتلا کیا ہے۔ اشتہار اسی انار کلی بازار میں فلمایا گیا ہے، اس اشتہار کے مطابق بازار میں دکاندار معمول کے مطابق اپنی دکانوں پر مصروف ہیں۔
ایک دو کھانے کے ڈھابوں پر چار لڑکیاں کھانے میں مشغول ہیں ۔اچانک بازار میں ایک رکشہ آ کر رکتا ہے اس رکشے سے ایک نوجوان لڑکی سر پر سیاہ چادر اُوڑھے بازار میں داخل ہوتی ہے۔بازار میں موجود مرد ترسی ہوئی نظروں سے اس لڑکی جانب دیکھتے ہیں۔جبکہ کھانے کے ڈھابوں پر بیٹھی لڑکیاں کن اکھیوں سے اس نو وارد لڑکی کو دیکھتی ہیں ، گویا کہ انارکلی بہ نفس نفیس بازار میں اتر آئی ہو یا ان کی پڑوسن نے قربانی کا نیا جانور لیا ہو اور وہ ان کے سامنے سے گزر رہا ہو۔لڑکی چلتے چلتے بازار کے نصف میں پہنچتی ہے ایک لڑکا اس کے پاس سے گزرتا ہے اور ماشاء اللہ کہہ کر اس پر جملہ بازی کرتا ہے۔ ماشاء اللہ کا لفظ سنتے ہی لڑکی کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو جاتی ہیںوہ اپنی چادر اتار پھینکتی ہے اور پیچ بازار میں ڈھمکے لگانا شروع کردیتی ہے۔کیوں کہ اس نے مذکورہ برانڈ کے ملبوسات زیب تن کئے ہوئے ہیں۔
ان ملبوسات کو پہننے کے بعد اس کے انگ انگ میں بجلی سی بھر گئی ہے اور اس بجلی سے وہ سارے بازار کو جھٹکے دے رہی تھی اس کے سارے جسم پر رعشہ طاری تھا اور وہ مسلسل جھومے جار ہی تھی۔لگ تو یوں رہا تھا کہ گویا اس برانڈ کے لباس کو زیب تن کرتے ہیں جی مچل اٹھتا ہے اور سر بازار ٹھمکے لگانے کو من کرے تو اس سے پرہیز نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ یہ تمام اشتہار ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت ریکارڈ کیا گیا ہے۔بازار میں عام لڑکیوں کے روپ میں پہلے سے ہی ماڈلز کو بھیج دیا گیا۔
لڑکی ٹھمکوں کا آغاز کرتی ہے تو فوری باقی ماڈلز اس کے ساتھ رقص انارکلی میں شریک ہو جاتی ہیں دائیں بائیں جھوم کر وہ اپنے سارے جسم کی نمائش کر تی ہیں گویا کہ ماڈلنگ لباس کی نہیں بلکہ اپنی روح اور جسم کی کر رہی ہوں۔برانڈ کا سلوگن اور نام DO your own thing (DYOT) یعنی اپنی مرضی کرو، اب میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ برانڈ پاکستانی عورت سے کیا کرانا چاہتی ہے۔ پہلے ہی نام نہاد آزادی کے نام پر عورت کو بازار کی رونق بنا دیا گیا۔ برانڈ کے اشتہار کے نام پر عورت کے جسم کی فروخت کی جا رہی ہے۔ اشتہار کے نام پر عورت کو اخلاقی پستیوں کی تاریک وادیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔یورپی طرز کے ملبوسات میں سر عام جسم کی نمائش کا یہ طریقہ پہلے یورپ میں رائج تھا مگر اب مارکیٹنگ یہ طریقہ کار ہماری اقدار ، روایات اور اخلاقیات کو دیمک کی طرح کھانے لگ گیا ہے۔
ہماری تہذیب کا سر عام جنازہ نکالا جا رہا ہے۔برانڈ کے فیس بک صفحے پر اپ لوڈ کئے گئے اس گھٹیا اشتہار میں یہ مئوقف اختیار کیا ہے کہ آج کی عورت آزاد ہے اسے ہر قسم کی آزادی دی جائے۔ہم نے لوگوں کو آزادی کا نیا تصور دیا ہے۔لوگوں کو آزادی ہو کہ وہ جو کرنا چاہتے ہیں وہ کریں ، معاشرے کی پرواہ نہ کریں۔اسی آزادی اور بے پروائی کے باعث ہی تو عورت اپنی قدر کھو رہی ہے ، مرد کی برابری نے اسی عزت کی بجائے ذلت و خواری تھی۔گھر کی چار دیواری سے باہر لا کر اسے بازار کی زینت بنا دیا ہے۔اشتہارات میں برانڈ کی بجائے عورت کی فروخت کی تلقین کی جاتی ہے۔میری نظر میں آزادی کے اس نئے تصور کا مطلب فحاشی و عریانی پھیلا کر عورت کو ایک پراڈکٹ کی مانند پیش کرکے اشتہارات کی زینت بنانا ہے۔
یہ محض اپنی پروڈکٹ فروخت کرنے کے لئے عورت میں مقناطیسی طاقت بھر کر اپنے اشتہار کو جاذب النظر اور پرکشش بناتے ہیں تاکہ اس اشتہار کو زیادہ لوگ دیکھیں اور پراڈکٹ خریدنے کی جانب مائل ہوں ۔آزادی کے اس تصور کے نام پر عورت ایک جانب تہذیب و مذہب سے آزاد تو ہو ہی رہی ہے جبکہ دوسری جانب مغربی روایات کی غلام بھی بن رہی ہے۔یہی وہ روایات ہیں جن کو اپنانے کے بعد عورت نے معاشرے میں اپنا مقام کھویا ہے۔اور یہی آزادی اسے شہرت کی بلندیوں سے ذلت و پستی کی جانب دھکیلے گی۔ایسے اشتہار ہمیں آزادی دیتے ہیں ، مذہب و اخلاقیات سے بیزار کی آزادی، تہذیب و روایات، اخلاقیات اور معاشرت سے آزادی۔
آج ٹی وی چینلز پر جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں وہ کوئی بھی شریف انسان اپنے خاندان کے ہمراہ دیکھ نہیں پاتا لیکن ستم بالائے ستم ہمارے ذہن اس قدر مائوف ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس کے تباہ کن اثرات کے بارے میں غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔کیوں کہ ہمیں اس قدر بیہودہ اشتہارات دکھا دکھا کر ان کا عادی بنا یا جا چکا ہے ۔عورت کی آزادی دراصل تقلید مغرب ہے جی ہاںیہ وہی آزادی ہے جس نے مغرب کے خاندانی نظام کو تباہ کردیا۔ جس نے مغرب میں عورت کو ذلیل و رسوا کر دیا۔ جس نے مغرب کی عورت کو عدم تحفظ دیا ۔ جس نے مغرب کو اخلاق کی پستیوں کی جانب دھکیلا۔ اسی آزادی نے مغرب میں عورت کو اعلیٰ مقام دینے کی بجائے اسے زمانے کی گرد میں ذلیل و خوار کردیا ہے۔ اس اشتہار کے آنے کے بعد حکومت کا کردار لمحہ فکریہ ہے۔
حال میں متعارف کرایا جانے والا سائبر کرائم بل شخصی آزادی پر تو قدغن لگا رہا ہے مگر ہماری اخلاقیات کو گرانے کے لئے سوشل میڈیا پر وائرل یہ اشتہار ابھی تک مسلسل شئیر کیوں ہو رہا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں یو ں ہی عورت کی تذلیل کی جا رہی ہے؟ کیا ہماری عورت ایسے ہی بازار میں ٹھمکے لگاتی ہے؟ کیا ایسے ہی عورت کی تذلیل کا تماشا دیکھا جاتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستانی عورت کو پلکوں پہ بٹھایا جاتا ہے۔ عورت کسی بھی گھر کی ہو ہر پاکستان اسے اپنی عزت سمجھتا ہے اور اس کا تحفظ اپنا اولین فرض جان کر کرتا ہے۔ مگر ہم عورت کی تذلیل پر خاموش کیوں ہیں؟ کیوں سائبر کرائم بل اور سیکورٹی ادارے اس اشتہار پر خاموش بیٹھے ہیں؟۔
آخر کیوں حکومت اس پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے؟ کس چیز کی پردہ داری ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں مگر ان سوالات کے جوابات شاید باقی سوالوں کی طرح کبھی نہ مل سکیں اور ہم یوں ہی بھوک ، پیاس اور چھت کی تلاش میں سرکرداں رہیں گے اور ہماری اقدار ماریکٹنگ کی دوڑ میں کہیں کھو جائیں گی۔ لیکن حکومت کی بجائے ہمیں خود اپنی اقدار کے تحفظ کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا، شاید ہمارا جلایا ہوا ایک دیا ہی مستقبل میں چراغاں کرنے کا سبب بن جائے۔
تحریر : انعم احسن