تحریر : جویریہ ثناء
لباس کے لفظی معنی ستر کے ہیں ڈھاپنا۔ اسلام میں لباس کا تصور بے حد صاف ہے ایسا لباس جس میں خرچ نہ آے جس میں جس کی نمائش نہ ہولیکن افسوس ہم رنگوں اور فیشن کی دوڑ میں اس قدر آگے جا چکے ہیں ۔ جس میں ہم اپنی اسلامی روایات اقدار کو بھلا چکے ہیں اور اسے ماڈرن ازم کا نام دے کر اپناتے چلے جا رھے ہیں اور اسی ماڈرن ازم کی دوڑ میں ہمارا لباس بھی شامل ہے۔ جسے ہم یورپ کی تقلید میں بالکل مختصر کر چکے ہیں ۔ اسلام میں عورت کو بلند مرتبہ عطا کیا گیا ۔جو کسی الہامی یہ خود ساختہ مذہب میں نظر نہیں آتا اور اسلام اس بات کا متقاضی ہے کہ اخلاق کے علاوہ سیرت و کردار میں بھی پختگی نظر آئے جس میں سب سے زیادہ ان کو عزت و حرمت اور لباس کا خیال رکھنے کی تلقین کی گئی۔
اللہ کی ذات ہم سب کی خالق ہے اسکا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے ۔پورے لبا س کا حکم بھی اللہ کی طرف سے دیا گیاہے۔ محمدکریم نے فرمایا وہ عورتیں جو لباس پہن لیتی ہیں لیکن عریاں رہتی ہیں اور اونٹ کے کوھان کی طرح کندہوں کو ہلا جلا کر اور ناز وانداز دیکھاتی ہیں وہ قیامت والے دن جنت میں داخل نہ ہوں گی۔ایک مومن عورت کا لباس اسکا تقوی ہے اور تقوی ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اسے اسلامی اصولوں کے مطابق پہنیں ۔جس طرح اسلام میں دوسری چیزوں کے بارے میں اسراف اورنمائش سے منع کیا گیا اسطرح سے لباس کے بارے میں بھی اسراف اور نمودونمائش سے منع کیا گیا ہے۔بے جا اسراف اور نمودو نمائش لباس کے اصل مقصد کو ختم کر دیتا ہے۔
حضور پاک نے فرمایا جو کوئی دنیا میں نام ونمود کے واسطے کپڑا پہنے اس کو قیامت میں ذلت کا لباس پہنا کر دوزخ کی آگ لگائی جائے گی۔ لباس سے مراد یہ نہیں کہ لباس کی اچھائی میں ممانعت کا اضافہ کیا گیا خدا کے بندے اس کی دی ہوئی علامات کو ظاہر کریں۔ایک بدو آپ کے پاس پھٹے پرانے کپڑوں میں آیا تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے پاس مال نہیں ہے۔ تو اس نے کہا میرے پاس ہر چیز موجود ہے تو آپ نے فرمایا جاو اپنا لباس درست کرو۔
اس ضمن میں حضرت عمر ؓکا قول ہے کہ خدا نے جو تمہیں کشائش دئیے ہیں اسے ظاہر کرو۔تم اپنے بھائیوں کے پاس جاتے ہو اپنی پوشاک درست کرو تاکہ تم معزز نظر آﺅ۔لیکن یہاںپر زینت سے مراد زرق برق لباس نہیں ہے۔بلکہ وہ لباس ہے جس میں انسانیت کی جھلک نظر آسکے۔اللہ کے بندے اس کی دی ہوئی علامت کو ظاہر کریں لیکن اس حد تک علامات کو ظاہر کریں جہاں تک اللہ نے حدود مقرر کی ہیں جہاں تک ہمارا دین اس کا متقاضی ہے۔تعریف وتوصیف کی غرض لباس کے مقصد کو ختم گناہوں میں اضافہ کا سبب ہے۔ معزز سے مراد زرق برق لباس نہیںبلکہ لباس کی سادگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اور عورت کے لباس کی پاکیزگی کے ساتھ مرد کے لباس میں بھی اس کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔
مردو عورت میں واضح فرق ہے ۔دونوں کی ساخت خداداد ہے اور دونوں کواللہ تعالیٰ نے بعض مسائل میں الگ الگ احکام کا پابند بنایا ہے۔ جس میں سے ایک لباس ہے نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ مردوں سا لباس زیب تن کرے نہ مردوں کو اس ضمن میں اجازت دی گئی ہے کہ وہ خواتین جیسا لباس زیب تن کریں۔لباس ہمارے احترام کا موجب ہے اور ہمیں اس میں سادگی کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے جس کا حکم ہمارے دین میں دیا گیا ہے۔بے جا آرائش مردانگی کے خلاف ہے اور جو قومیں اس میں حد سے زیادہ گزر جاتی ہیں ان میں سے مردانگی کا جوہر رخصت ہو جاتا ہے۔
آپ کی زندگی بتاتی ہے آپ لباس میں بالکل بھی تکلف کے قائل نہیں تھے ۔صرف ایک تہبند اور چادر اور اسطرح سے امہات المومنین بھی سادہ لباس میں ہوتی تھیں۔ہمارا دین وہ ہمیں ادب و آداب سکھاتا ہے جو ہمیں ایک باوقار زندگی کی طرف راغب کرتا ہے حتی کہ ہمارے لباس کے بارے میں پاکیزگی رکھتا ہے۔ہمارے رہنما جو اس قدر سادہ زندگی گزار کر ہمیں یہ درس دے گئے ہیں جب ہمیں اسلام اس قدر تحفظ فراہم کرتا ہے تو ہم کیونکر کسی تہذیب کو اپنائیں۔اسلام کے بنائے ہوئے اصولوں کو ہی اپنا مقصد حیات بنائیں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اس کے مطابق بنائیں بیشک وہ لباس ہو یا کچھ اوراللہ تعالیٰ ہمیں اس پہ عمل کرنے کی توفیق دے۔
تحریر : جویریہ ثناء