تحریر : فضل خالق خان
بلوچستان کے علاقے لورالائی میں واقع کوئلہ کان میں گیس بھر نے اور کان کے منہدم ہونے کے باعث خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے ولے آٹھ محنت کش جاں بحق ہوگئے۔ جنہیں نکالنے کے لئے امدادی کارروائیاں تادم تحریر جاری ہیں لیکن ان بد قسمت مزدورں میں سے کسی کو نہیں بچایا جاسکا اور تمام کے تمام کوئلہ کے منہدم ہونے والے کان میں جاں کی بازی ہار گئے ۔ایک اور خبر !دو سال قبل سانحہ بلدیہ ٹائون میں آگ لگی(لگائی گئی؟) ‘بجھانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی لیکن آگ نہ بجھ سکی اور سیکڑوں زندہ انسان لاشے بن گئے ۔ ٹھیک اسی سے ملتی جلتی خبر آج صبح(دم تحریر تک)دُبئی کے ایک کئی منزلہ عمارت میں آگ لگی ،عمارت میں ہزاروں افراد موجود تھے جنہیں زندہ وسلامت نکال لیا گیا ۔ ایک ہی قسم کے واقعات لیکن الگ الگ انتظامی امور۔ ہم اپنے چند افراد کو نہ بچا سکے جب کہ دوسری جانب ہزاروں افراد کو با حفاظت بچالیا جاتا ہے ۔کوئلے کے کانوں میں جاں بہ حق ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق سوات سے ملحقہ علاقے شانگلہ سے ہے جن میں سے ایک کی میت گزشتہ روز علاقے میں پہنچائی جاچکی ہے جبکہ دیگر کی میتیں کوئلے کے کان سے نکالنے کے بعد پہنچائی جائیں گی۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس طرح کی کانیں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں لیکن ان میں ایسے حادثات سے بچنے کے لئے اتنے بہتر انتظامات کئے جاچکے ہوتے ہیں کہ اول تو ایسے واقعات کا ہونا محال ہوتا ہے۔ لیکن اگر بہ فرض محال رونما ہوبھی جائیں تو حفاظتی اقدامات ایسے ہوتے ہیں کہ چند لمحوںمیں ان میں متاثرہ افراد کو با حفاظت نکال لیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے چین کی مثال موجود ہے جس میں بارہا ایسے واقعات میں انسانی جانوںکے ضیاع کو کم سے کم رکھا گیا ۔ ملک بھر میں موجود کوئلے کے جتنے بھی کان ہیں ان میں کام کرنے والے افراد میں سے بیشتر کا تعلق اسی بد قسمت علاقہ شانگلہ کے باسیوں کی ہوتی ہے اور اب تک کی اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران27مزدور جاں بحق ہوچکے ہیں جو نسل درنسل سے اس مہلک پیشے سے وابستہ تھے ۔ یہ بدقسمت افراد جن کے آباو اجداد تک ان کانوں کی خوراک بن چکے ہیں میں سے کسی میں اب تک یہ ہمت پیدا نہیں ہوسکی ہے کہ وہ حکومتی ذمہ داروں سے لے کر کان کے مالکان تک میں سے کسی سے یہ مطالبہ کرتے کہ ان کی حفاظت کے لئے کون سے اقدامات کئے گئے ہیں ۔ مانا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور بہ حیثیت مسلمان ہمار اایما ن بھی ہے کہ موت جس شکل میںآنی ہے اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔
لیکن تدبیر بھی تو کسی شئے کا نام ہے جس کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے ۔ کان مالکان کا کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی نفع کے لئے کسی نہ کسی کو ان اندھیری غاروں میں ڈالنا ہے ۔بارہا کے تجزیوں میں یہ بات سامنے لائی جاچکی ہے کہ ان کانوں میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ۔ اسی بناء پر ا ن کانو میںکام کرنے والے اگر حادثات سے بچتے ہوئے زندہ بھی ہوں تو ان کا شمار مردوں میں کیا جاتا ہے ۔کیوں کہ کچھ عرصہ بعد ان کو گردوں کی مہلک امراض کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے جلدی امراض لاحق ہوکران کو جینے سے بے زار کردیتے ہیں ۔اس سلسلے میں اول تو حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کیوں کہ ان کانوں سے نکلنے والے ذخائر کا فائدہ حکومت ہی اُٹھاتی ہے! کو ان کانوں میں کام کرنے والے افراد کی حفاظت کے لئے کام کرنا چاہئے ۔اس کے بعد ان کا نوں کے ٹھیکیداروںکو تمام تر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنا نا چاہئے کہ انسانی جان کا کوئی نعم البدل نہیں۔
ان کانو ں میں کام کرنے والا انسان اکیلا نہیںہوتا اس کے پیچے خاندان کی ایک پوری کہانی ہوتی ہے ۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق اکثر مرنے والے خاندان کے واحد کفیل ہوتے ہیں جس کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد ان کے خاند ان کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس بارے میں کسی نے سوچا ہے؟شانگلہ کے بدقسمت باسیوں کی بھی کیا تقدیر ہے ! ان کے پاس امیر مقام جیسا سیاستدان بھی موجود ہے جس نے تقریباً دو دہائیوں سے عنان حکم رانی کو اپنا بسیرا بنالیا ہے ۔موصوف ہر حکومت میں کسی نہ کسی شکل میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔ اس کو سب سے زیادہ پتہ ہے کہ ان کے آبائی علاقے کے لوگ جو اس پیشے سے وابستہ ہیں کس طرح کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں ؟سب طرح کی معلومات رکھنے کے بائوجود جنابِ امیر مقام بس یہ کرتے ہیں کہ واقعہ !ہاں واقعہ رونما ہونے کے بعد متاثرہ خاندان کے پاس جاکر میڈیا کے لئے فوٹو سیشن کی حد تک ان کا حال پوچھ لیتے ہیں اور بس اللہ اللہ خیر صلاّ۔ جس نے پیوند خاک ہوناتھا وہ مٹی بنا اور جو زندہ رہے ان کا اللہ حافظ !باقی کسی کی کوئی ذمے داری نہیں۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ان بے خانمائوں کی قسمت کب جاگے گی ؟ ان کا حال پوچھنے کے لئے کوئی اُٹھے گا بھی کہ نہیں
!امیر مقام سے مقامی لوگوں کا یہ گلہ بے جانہیں کہ انہوں نے سوات کو اپنا مسکن بنا لیا ہے جبکہ آبائی علاقے کے لوگ جنہوں نے موصوف کو موجودہ مقام تک پہنچانے میںکلیدی رول اد ا کیا ہے بے یارو مددگار دوسروںکی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔چند افراد یہ شکوہ بھی کررہے ہیں کہ اس کا بھائی عباد کیا کررہاہے ؟یک نہ شد دو شد کے مصداق ان دونوںکو ان موت کے غاروںکی شکل میں موجود کوئلہ کانوں میں کام کرنے والوں کے لئے آواز اُٹھانی چاہئے ۔یہ سلسلہ اب کہیں نہ کہیں پے رکنا چاہئے ۔آخر یہ لو گ کب تک ان خونی غاروں کی خورا ک بنتے رہیں گے ۔بہت ہوچکا ! شانگلہ کے باسیوںکے لئے لاشوں کے صندوق وصول کرنے کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے ۔ اس کے علاوہ متاثرہ خاندانوںکی کفالت بھی ایک اہم ذمے داری ہے جس کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
امیر مقام اینڈ کمپنی اپنی ذمے داریوںکو پورا کرتے ہوئے اپنے آپ کو صرف فاتحہ خوانی تک محدود نہ رکھے ۔ اب تک جو ہوچکا سو ہوچکا لیکن مزید خاندانوںکو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے فوری طورپر قانون سازی پر زور دے کر مرنے والوں کے بال بچوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کارروائی کی جائے ۔ورنہ یہ بھی ممکن ہے کہ درد کے ماروں کی آہیںکسی کو کہیں کا نہ رکھے۔
تحریر : فضل خالق خان