تحریر : میر افسر امان
مسلمان ایک دیوار کی مانند ہیں۔ دیوار ایک جسم کی مانند ہوتی ہے۔ جسم کے کسی حصہ کو نقصان ہو تو سارے جسم کو درد محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک حدیث کا سادہ سا مفہوم ہے۔ جماعت اسلامی اسی فلسفے پر قائم ہوئی تھی۔ جب دہلی کی جامع مسجد میں ایک اسلام کے ہمدرد نے مسلمانوں کو پکارا تھا کہ ہے کوئی مسلمان جو ہندوئوں کو دلیل سے بتائے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ تبلیغ سے پھیلا ہے۔ تو یہ مولانا مودودی ہی تھے جنہوں نے ١٦ سال کی عمر میں اس درد کو محسوس کیا اور ”الجہاد فی اسلام” نامی کتاب تصنیف کی اور ثابت کیا کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا بلکہ اسلام دعوت و تبلیغ سے پھیلا ہے۔
ہاں جہاں تلوار ناگزیں تھی وہاں تلوار استعمال کی گئی۔ ان کی اسلامی خدمات کی وجہ سے حکیم الا امت علامہ اقبال نے تعریف کی تھی بلکہ ان سے درخواست کی تھی کہ وہ پنجاب آکر مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کی جدو جہد کے لیے کام شروع کریں۔وہ علامہ اقبال کے کہنے پر پنجاب کے علاقہ پٹھان کوٹ تشریف لائے تھے۔ قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد مودودی سے کہا تھا کہ آپ پاکستانی عوام کو بتائیں کہ ملک میں اسلامی نظام کیسے نافذ ہو گا۔ اس پر مودودی نے ریڈیو پاکستان پر تقریرں کی تھیں جو اب بھی ریکارڈ میں موجود ہیں۔انہوں نے ١٩٤١ ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی جو اب پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دوسری جگہوں پر اپنے ملکوں کے آئین کے تحت کام کر رہی ہے۔
دنیا کے تمام ملکوں میں اس کی تنظیمیں قائم ہیں اور اپنے اپنے طور پر کام بھی کر رہی ہیں۔ اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے کام کرنے والی ا سی طرز پر مصر کی الاخوان المسلون، سوڈان کی امٔوتمر الوطنی، ملائیشیا کی پارٹی آف اسلام، انڈ و نیشیا کی انصاف اور ترقی پارٹی اور ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ہیں۔ ان اسلامی پارٹیوں سے جماعت اسلامی پاکستان کی گہرے روابط رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ ان پارٹیوں کے سالانہ اور مختلف موقعوں پر ترتیب کردہ پروگراموں میں جماعت اسلامی کے وفود کو دعوت دی جاتی رہی ہے اور پاکستان سے جماعت اسلامی کے وفود شامل ہوتے رہے ہیں۔
جماعت اسلامی نے با قاعدہ طور پر ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کیا ہوا ہے۔ جس کے پہلے نگران خلیل حامدی صاحب تھے جو اب وفات پا چکے ہیں اور اس وقت عبدالا غفار عزیز صاحب اس کے انچارج ہیں۔ یہ ڈیپارٹمنٹ برادر اسلامی ملکوں میں ان نشاة ثانیہ کی تنظیموں کے حالات و واقعات سے جماعت اسلامی پاکستان کو اطلاعات فراہم کرتا رہتا ہے۔ان اسلامی تنظیموں کے سربراہ بھی پاکستان میں جماعت اسلامی کے آل پاکستان منعقدہ سالانہ اجتماعات میں جماعت اسلامی کی دعوت پر یکجہتی کے لیے شرکت کرتے رہتے ہیں۔
ترکی میں حالیہ ناکام فوجی بغاوت میں چند نا عاقبت اندیش طبع آزماء فوجیوں نے ،تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے اور اب موجودہ صدر کی جمہوری حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کے مرتکب ہوئے۔ جیٹ طیاروں نے عوام پر گولیاں برسائیں، پارلیمنٹ اور صدراتی محل پر بمباری کی۔ترکی کے اسلام پسند اور جمہوری عوام نے اپنے ہر دلعزیز صدر کے فون پردیے گئے پیغام پر مسجدوں سے اعلان کرتے ہوئے باہر نکل آئے ۔ باغیوں کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ خود صدر اردگان نے اپنی عوام سے خطاب کیا۔ پھر دنیا نے ترکی کے شہروں میں اردگان کے عوام سے خطاب اورسرخ رنگ کے ترکی کے جھنڈوں کو لہراتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ صدر اردگان کی ملک کی دوسری پارٹیوں کے ساتھ اچھے تعلوقات کی وجہ سے سب جماعتوں نے فوجی بغاوت کے خلاف جمہوری منتخب حکومت کا ساتھ دیا۔ حزب اختلاف کی ان جمہوری جماعتوں کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ اسلام دشمن اتاترک کی بنائی ہوئی سیکولر ترک فوج اس سے قبل تین بار حکومت کے خلاف بغاوت کر چکی ہے۔
آئینی جمہوری اسلامی حکومت پر پابندی لگاکر ایک منتخب وزیر اعظم کو سولی پر چڑھا چکی ہے۔ ہمارے ہاں کے سیکولر عناصر، مغربی اور امریکی میڈیا پہلے بغاوت کی حمایت میں ڈفلیاں بجا رہے تھے مگر عوام کے سمندر کو ترکی کی حکومت کا ساتھ دیتے دیکھ کر اپنے باطل پروپگنڈے کو روکا۔ ترک حکومت نے باغیوں کو گرفتار کر کے آئین کے مطابق سزا دینے کے لیے جیلوں میں بند کر دیا۔ بغاوت کے سہولت کار، چاہے وہ عدلیہ ، تعلیم،میڈیا اور چاہے ترکی کے کسی بھی جگہ تھے کو گرفتار کیا۔ ترک حکومت نے فوج سے اسلام اور جمہوری حکومت کے دشمن فوجیوں کی تتہیرکا کام بھی شروع کیا ہوا ہے۔
ترکی کے ان اقدام پر نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار مغربی حکومتیں مخالفت کر کے اپنے اسلام دشمن ہونے کا مذید ثبوت پیش کر رہیں ہیں۔ ان کو عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں بین الاقوامی طور پر ممنوع زہریلی گیسیں استعمال کر کے لاکھوں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹاتے وقت انسانی حقوق یاد نہیں رہتے۔ اردگان ایک اسلام پسند شخصیت کے طور پر اسلامی دنیا میں اپنا مقام حاصل کرچکا ہے۔برما میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے اردگان اور اس کی اہلیا پہنچی، کئی دہایوں سے غزا کے محصورفلطینیوں کے لیے واحداردگان تھے جس نے امداد سے لدا بحری جہاز بھیجا۔اسرائیل کی ظالم حکومت نے کھلے بین الاقوامی حدود میں جرم کرتے ہوئے بحری جہاز کے کارکنوں کو شہید کیا۔
اردگان نے اسرائیل سے تعلوقات ختم کیے جب تک اسرائیل نے معافی نہیں مانگی تعلوقات قائم نہیں کیے۔بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے پاکستان کی حمایت میں پاک فوج کے ساتھ دینے پر ایک جعلی ٹریوبیونل کے ذریعہ پھانسیوں پر احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے معاملے میں بھر پور ساتھ دیا۔ اردگان کی جمہوری اسلامی حکومت تمام اسلام پسندوں کی پشتی بان بنی ہوئی ہے۔ اردگان کی ان ہی اسلامی خدمات اور ترکی میں سیکولر فوج کی ناکام بغاوت اور ان حالات میں ترکی کی جمہوری اسلامی اردگان حکومت کا ساتھ دینے اور ترکی کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی نے پاکستان میں ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا۔ جس میں راقم بھی شریک ہوا۔ پہلی دفعہ ترکی میں مشہور اسلامی نعرے سننے کو ملے۔ یہ نعرے ترکی کی اردگان کابینہ کی وزیر نے سیٹ لائٹ پر پاکستان میں جماعت اسلامی کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے لگائے۔ جس میں پاکستانی عوام نے بھی ان کے ساتھ یہ نعرے لگائے۔ ترکی سے اردگان کے جلسوں کی ویڈیو بھی دکھائی جس میں یہ اسلامی نعرے لگائے جا رہے تھے۔
اب ہم ایک سوشلٹ، سیکولر اور لبرل کالم نگار جو اپنے اسی مضمون میں عثمانی خلافت کو نام نہاد خلافت کہتے ہیں کی بات پر یقین کریں یا ڈائریکٹ اردگان کے جلسوں میںمیں لگائے اسلامی نعروں پر یقین کریں۔ ترکی حکومت اور اردگان کی کابینہ کے وزیر نے بھی جماعت اسلامی کے جلسہ میں خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں جماعت اسلامی کی طرف سے ترکی میں ناکام سیکولرفوجی بغاوت اور ترک عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کا اردگان اور اپنی حکومت کی طرف سے شکریہ ادا کیا۔ وہ نعرے کیا تھے وہ نعرے اسلامی تھے سیکولر نعرے نہیں تھے۔ بسم اللہ، یا اللہ، اللہ اکبر کے نعرے تھے۔ اب ان حالات میں جماعت اسلامی کے اظہار یکجہتی کے پروگراموں پر ایک مشہورسوشلٹ ، سیکولر اور لبرل کالم نگار کے منفی تجزیہ کو کیسے دیکھا جائے۔ سیکولر عناصر پاکستان کے بانی، اسلام کے شیدائی، جس نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے تحت پاکستان حاصل کرنے والے، حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔
ایسے سیکولر عناصر جو مذہب بیزار ہیں ان کے ذہن اللہ نے مفلوج کر دیے ہیں۔ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ شہید ملت لیاقت علی خان نے ١٩٤٧ء میں قراداد پاکستان پیش کی تھی۔اس کے بعد پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ جماعت اسلامی اور دوسر ی اسلام پسند طاقتوں کی تحریک کا نتیجہ تھا کہ ملک میں ١٩٧٣ء میں مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا اسلامی آئین منظور ہوا تھا جو ابھی بھی موجو د ہے۔ جس کے مطابق پاکستان میں اسلام کے خلاف کوئی بھی قانون سازی نہیں ہوسکتی بلکہ پہلے سے موجود غیر اسلامی دفعات کو عدالتی کاروائی کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے قانون کے مطابق کوئی بھی دوقومی نظریہ کے خلاف بیان نہیں دے سکتا۔ جب تک پاکستان میں نظریہ پاکستان کی محافظ جماعت اسلامی اور دیگر دین پسند لوگ موجود ہیں یہ سوشلٹ، لبرل اورسیکولر عناسر پہلے بھی منہ تکتے رہ گئے اور اب بھی ان کا انجام ایسا ہی ہو گا پاکستان قائد اعظم کی اسلامی جد وجہد اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق اسلامی جمہوری پاکستان ہی رہے گا انشاء اللہ۔ ایک سکہ بند سوشلٹ، سیکولر اور لبرل کالم نگار نے اپنے کالم میں جماعت اسلامی کے ترکی کے ناکام سیکولر فوج کے خلاف اسلام پسند کردار کو بعنوان” جماعت اسلامی کے عبداللہ دیوانے” میں جماعت اسلامی سے عناد اوراپنی مذہب بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ کیا یہ ایک سکہ بند سوشلسٹ سیکولر اور لبرل کالم نگار عبداللہ دیوانہ ہےیا کہ جماعت اسلامی!
تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان