سندھ ارکان اسمبلی اور اہم افسران کے خلاف 500 کرپشن انکوائریاں سرد خانے کی نذر ہوگئیں، یہ انکوائریاں تعلیم، صحت، ورکس، آبپاشی، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، بلدیات اور محکمہ زراعت سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سو ایسے ’’ زعماء‘‘ جن کا تعلق مختلف محکموں سے ہے کرپشن کے الزامات میں ملوث تھے جن کی انکوائریاں ہورہی تھیں وہ روک دی گئیں۔ کرپشن میں ملوث افراد کی تعداد 20،10 نہیں 500 ہے جن کا تعلق صوبہ سندھ کے اہم محکموں سے ہے۔ کیا 500 ارکان اسمبلی اور اہم افسران کرپشن کے مجرم ہیں؟ اس سوال کا جواب تو اس وقت مل سکتا تھا جب ان کے خلاف بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ تحقیق ہوتی لیکن چونکہ تحقیق کے کام کو روک کر اسے ’’سرد خانے‘‘ کی نذرکردیاگیا اس لیے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مذکورہ بالا 500 عمائدین گناہ گار تھے یا بے گناہ۔ ابھی پچھلے دنوں ہماری سندھ حکومت نے ملک کے مشہور تحقیقاتی ادارے نیب سے بھی تحقیقات کا کام واپس لے لیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس ادارے کو تحقیقات سے روک دینے سے لگ بھگ اعلیٰ قسم کے کرپٹ افراد کی تحقیق سے جان بچ گئی۔
مذکورہ خبر میں جس سرد خانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ ستار ایدھی یا چھیپا کے سرد خانے نہیں جہاں لاشیں رکھی جاتی ہیں یہ سرد خانے ملک کے ہر ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہیں، اور ان سرد خانوں میں انسانوں کی لاشیں نہیں رکھی جاتیں بلکہ ملک کی عزت، ایمانداری، قانون اور انصاف کی لاشیں رکھی جاتی ہیں جن کی سڑاند سے سارا ملک مہک رہا ہے اور شرفا ناک پر رومال رکھ کر پھر رہے ہیں۔ ان 500 زیر تحقیق عمائدین میں اعلیٰ افسران کے علاوہ سندھ اسمبلی کے محترم ارکان بھی شامل ہیں۔ جنھیں عوام منتخب کرکے قانون ساز اداروں میں بھیجتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی کریں لیکن یہ زعما قانون سازی کے بجائے قانون شکنی کے الزامات میں ملوث ہیں۔
دنیا کے ہر ملک میں جرائم کی روک تھام کے لیے قانون اورانصاف کے ادارے ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ ادارے بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ انصاف میں کامیاب نہ ہوں لیکن ان ملکوں میں بہرحال وہ سرد خانے نہیں پائے جاتے جو ہمارے ملک کے ہر قومی ادارے میں پائے جاتے ہیں۔ امریکا سمیت مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں قانون اور انصاف کے اداروں کو دنیا کے سامنے مثال بناکر پیش کیا جاتا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان ملکوں میں بھی نہ صرف کرپشن کی وبا زوروں پر ہے بلکہ سماجی جرائم کے حوالے سے پسماندہ ملکوں سے بھی آگے ہیں بلکہ بعض شہر تو جرائم کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں، اس حوالے سے دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب ملک امریکا بھی بدنام زمانہ امریکا بنا ہوا ہے۔
جب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوجاتا ملزم ملزم ہی رہتا ہے مجرم نہیں بن جاتا، اس حوالے سے ملک پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے ملک کے دو سابق وزرائے اعظم بھی ملزم ہیں اور ہمارے نا اہل کیے جانے والے وزیراعظم کی ساری فیملی بھی الزامات کی زد میں ہے اور ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے ہیں لیکن قانون اور انصاف کی اس پاسداری کے باوجود اعلیٰ سطح پر کرپشن آزاد ہے اور ملک میں دندناتا پھر رہا ہے۔ اس کی غالباً سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کے ہر شعبے میں سرد خانے موجود ہیں، ہمارے ملک کے ایک ’’صاحب حیثیت‘‘ فرد پر 462 ارب روپوں کی کرپشن کا الزام ہے جی ہاں 462 ارب روپوں کی کرپشن چونکہ الزام الزام ہی ہوتا ہے جرم نہیں بن جاتا اس لیے ملزم آزادی کے ساتھ زندگی ہی نہیں گزارتا بلکہ قوم کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ بات کرپشن کی چلی ہے تو لا محالہ ہمارا ذہن ملک کی ایک بہت بڑی کرپشن کی طرف چلاجاتا ہے اور وہ ہے دو کھرب کے قرضے معاف کرانے کی کرپشن، ذہن میں فطری طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو کھرب کی کرپشن سرد خانے میں کیوں چلی گئی جب کہ وہ عدالتوں کا سفر بھی کرچکی تھی؟
دوسرے نمبر کی کرپشن کا سب سے بڑا ذریعہ ترقیاتی فنڈز ہوتے ہیں جو ایم این ایز، ایم پی ایز وغیرہ کو دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ترقی کا پروپیگنڈا تو بہت ہائی لیول پر کیا جاتا ہے لیکن ترقی نظر نہیں آتی کروڑوں اربوں روپے جس ترقی پر خرچ کیے جاتے ہیں وہ اس لیے نظر نہیں آتی کہ یہ ترقی کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔ منتخب نمایندوں کو قابو میں رکھنے کے لیے انھیں کروڑوں بلکہ اربوں کے فنڈز اس لیے دیے جاتے ہیں کہ وہ قابو میں رہیں اور وقت ضرورت کام آئیں، سندھ ارکان اسمبلی اور اہم افسران کی کرپشن انکوائریوں کی خبر میں بتایاگیا ہے کہ سندھ حکومت ’’طاقتور شخصیات‘‘ کے سامنے بے بس ہوکر رہ گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ طاقتور شخصیات کون ہیں؟ یہ طاقتور شخصیات وہ ہیں جو حکمران اشرافیہ کے چہیتے ہیں وہ حکمرانوں کی طاقت ہیں۔ ہمارے نام نہاد جمہوریت میں قوت کا سرچشمہ عوام کوکہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام قوت کا سرچشمہ نہیں بلکہ بے بسی کا سرچشمہ ہیں اور عوام کی اسی بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران طبقے کے مصاحبین قوت کا سرچشمہ بن گئے ہیں۔ جہاں جس ملک میں عوام کے بجائے حکمرانوں کے دلال قوت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں وہاں کرپشن انکوائریاں سرد خانوں میں چلی جاتی ہیں۔
بینکوں سے اربوں کا قرض لے کر معاف کرالینا ایک آسان ترین کرپشن ہے جس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھا آجاتا ہے۔ ماضی قریب میں ملک کی ایک معروف شخصیت کے اربوں روپے قرض معاف کرانے کی خبر دھڑلے سے میڈیا میں آئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ واردات سرد خانے میں چلی گئی۔ 7 اکتوبر کو میڈیا میں آنے والی 500 ارکان اسمبلی اور اہم افسران کی خبر یقینا قانون اور انصاف کے اداروں کی نظر سے بھی گزری ہوگی سوال یہ ہے کہ معمولی معمولی ایشوز پر از خود نوٹس لینے والے اخبار کے پہلے صفحے پر تین کالمی خبر سے بے خبر ہیں؟
ہمارے ملک میں اشرافیہ اس قدر مضبوط اور توانا ہے کہ بڑی بڑی انکوائریاں سرد خانوں کی نذر ہوجاتی ہیں۔ پاکستان کی سب سے اہم اور بڑی انکوائری حمود الرحمن کمیشن عشروں سے کیوں سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے؟ اصغر خان کی رپورٹ کیوں سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے۔ اصغر خان کی رپورٹ کیوں سرد خانے کی نذر ہوگئی۔ 2014 میں ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہونے والے قتل عام کی رپورٹ کیوں سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اس رپورٹ کی اشاعت کے لیے بڑی بڑی تحریکیں چلاکر اور بڑے بڑے دھرنے دے کر تھک گئے لیکن یہ رپورٹ سرد خانے سے باہرکیوں نہیں آرہی ہے اس لیے کہ اس کیس میں با اختیار طاقت ور اشرافیہ ملوث ہے۔ باقر نجفی کا نام ملک کے 21 کروڑ عوام جانتے ہیں کیونکہ ماڈل ٹاؤن قتل کی انکوائری باقر نجفی نے ہی کی تھی لیکن ملک کے 21 کروڑ عوام حیران ہیں کہ ایک اس قدر اہم کیس کی رپورٹ کو پبلک کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟اس لیے کہ اس رپورٹ میں ان پردہ نشینوں کے نام ہیں جو جمہوریت اور ترقی کے سمبل بنے ہوئے ہیں۔
ہمارے ملک میں قانون اور انصاف اس قدر تیز رفتار ہے کہ لاکھ دو لاکھ کی کرپشن کے ملزم کو فوری ہتھکڑی بھی لگادیتا ہے اور جیل بھی پہنچادیتا ہے لیکن اس کی تیز رفتاری اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب وہ اشرافیائی ملزمان اس کے سامنے ہوتے ہیں جن پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اربوں کھربوں روپے جو کرپشن کی نذر ہورہاہے وہ آسمان سے نہیں آیا بلکہ وہ انھی 21 کروڑ غریب پاکستانیوں کی محنت کی کرنسی ہے، جو دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور ان کی ترقی کے نام پر ہی اربوں روپوں کے کرپشن کی جارہی ہے، کیا طاقت کا سرچشمہ اصحاب کہف کی نیند سے بیدار ہوگا؟