لاہور (ویب ڈیسک) ابھی دو دن ہوئے 16 دسمبر گزرا ہے۔ ایک سرد دسمبر اور دوسرا سولہ کا دن۔۔۔ بےحد تلخ دن، بےپناہ تکلیف دہ، 71 کا سانحہ تو جیسے تیسے برداشت کر لیا مگر 2014 کا سانحہ بھلائے نہیں بھولتا۔میں 16 دسمبر 2014 کے واقعے کے بعد سے 16 دسمبر کو پورا دن ٹی وی بند رکھتی ہوں نامور خاتون اینکر صحافی اور کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ تاکہ اس سانحے کی کوئی یاد تازہ نہ ہو، پھر بھی سسکیاں اندر ہی اندر دم توڑتی رہتی ہیں۔ سارا دن سوچتی ہوں کہ جانے اُن بچوں کی مائیں کیا کرتی ہوں گی، جی جی کر مرتی ہوں گی اور مر مر کر جیتی ہوں گی۔ سکول جاتے بچوں کو دیکھ کر روتی ہوں گی اور جب رو رو کر چُپ کر جاتی ہوں گی تو ہنستے ہوئے رو پڑتی ہوں گی۔ اُن کے کھلونے، کتابیں، جوتے، کپڑے اور اُن کی تصویریں دیکھ دیکھ کر کیسے تڑپتی ہوں گی، کوئی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔۔۔ یقین مانیے کوئی اندازہ کر ہی نہیں سکتا سوائے اُن کے جو ان بچوں کو جنم دیتی ہیں یعنی مائیں۔۔۔ ان کے ساتھ جاگتی ہیں ان کے ساتھ سوتی ہیں، جو ان کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں، نو ماہ ساتھ سانس لینے والے، کھانے پینے جاگنے والے، ماؤں کے ساتھ جڑے یہ جسم تمام عمر جدا ہو کر بھی ماں سے الگ نہیں ہوتے۔ صرف ماں ہی محسوس کر سکتی ہے کہ بچے کی بھوک پیاس کیا ہے، تکلیف کیا ہے، بچوں کے سکول جانے سے واپس آنے تک مائیں صرف انتظار کرتی ہیں، پسند کا کھانا بناتی ہیں، دروازوں پر نگاہیں ہوتی ہیں کہ کب اُن کے لخت جگر گھر آئیں۔ سلام ہیں اُن ماؤں کو جن کے بچوں کے سینوں میں ان گنت گولیاں پیوست ہوئیں مگر وہ آج بھی زندہ ہیں نام کو ہی سہی۔۔۔ میں قطعی طور پر یہ قصہ نہیں چھیڑنا چاہتی تھی مگر کیا کروں کہ اس سانحے نے ہر شخص کو اور خاص کر کے ماؤں کو دو لخت کر دیا ہے۔ ایک ماں سنہ اکہتر میں دو لخت ہوئی جو ہماری سرزمین تھی اور ایک ماں سنہ دو ہزار چودہ میں، دونوں کا الزام کسی کے سر نہیں۔ دونوں کے ملزمان نامعلوم ہیں، دونوں انصاف کی طلب گار ہیں مگر منصف کو سوائے اس کے سب نظر آ رہا ہے۔ انھیں انصاف کون دے گا، انھیں سکون کب ملے گا؟ دھرتی ماں آج بھی خطروں سے دو چار ہے مگر ارباب اختیار شاید نظرانداز کر رہے ہیں یا شاید آنکھیں موند رکھی ہیں۔ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخواہ، بلوچستان کہاں کہاں سے آوازیں نہیں اُٹھ رہی ہیں مگر پرانے کھیل اور نئے کھلاڑی اپنی مرضی کی گیم سجائے بیٹھے ہیں۔ پنجاب کی مقبول جماعت کے رہنما سویلین بالادستی کا نعرہ لگا کر سائیڈ پر ہو گئے اور اب سندھ سے زرداری صاحب اسلام آباد کو بار بار للکار رہے ہیں۔ دونوں کے الفاظ اور انداز ایک ہی ہیں مگر وقت الگ الگ، یہ آوازیں شاید ففتھ جنریشن وار فیئر کا الزام سہہ لیں مگر ان کے ساتھ کھڑے ووٹر اس الزام میں شریک ہو گئے تو مشکل ہو گی۔ تاریخ سے سبق نہ لینے والے بھی مجرم ہوتے ہیں۔ زرداری اور نواز شریف جیل گئے تو مریم اور بلاول عوام میں ہوں گے۔ ان نوجوانوں کے لہجے بھی تلخ ہیں اور انداز بھی۔ محترم زرداری صاحب کی گھن گرج اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی ہے۔ پہلے صرف اُنہوں نے جملے کہے تھے مگر اب لہجہ خطرناک ہے۔ مجھے ان سیاست دانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کے موجودہ رہنماؤں نے کمپرومائز کیے ہیں، موقع پرستی کو سیاست کا نام دیا ہے تاہم میرا خوف ہے کہ یہ آوازیں عوام کا نقارہ نہ بن جائیں۔ جو کچھ زرداری صاحب کہہ رہے ہیں یہ سب ماضی کے حوالے سے نواز شریف کہہ چکے ہیں البتہ موجودہ اداروں کی قیادت کو ہدف تنقید بنا کر شاید آصف زرداری ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ اس بار انہیں نقصان کا اندازہ ہے مگر لگتا ہے کہ وہ ہر طرح کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ اُن کا صاحبزادہ باگ ڈور سنبھال چکا ہے، منظور پشتین کے سندھ داخلے کی پابندی کے احکامات واپس لے کر بلاول نے پیغام دے دیا ہے کہ کوئی کمپرومائز منظور نہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست زور نہ پکڑ جائے کیونکہ سامنے کھڑی حکومت کہہ چکی ہے کہ فوج اُن کے منشور کے پیچھے ہے۔ خدا نہ کرے ہم نفرتوں کے راستے پر جائیں، کیونکہ اب یہ دھرتی ماں نہ فساد برداشت کر سکتی ہے اور نہ ہی نفاق