تحریر: محمد وجہ القمر مدھے پور ٹیچرس ٹریننگ کالج، مدھے پور، مدھوبنی اسلام دین فطرت ہے۔ یہ ایسا دین ہے جو فطری تقاضوں کے مطابق ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے انسانیت کی بقا اور اسکی سالمیت کے لئے دنیا کی ہر چیز کو مسخر کر دیا تاکہ وہ جو اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے اپنے مقصد وجود کا استعمال کر سکے اور دنیا کی نعمتوں کا صحیح طریقے سے استعمال کر سکے۔انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے عقل و خرد سے نوازا، وہ فہم و فراست عطا کی جس سے وہ دنیا کے اندر امن و امان بحال کر سکے، ایک دوسرے کی غمخواری کر سکے، باہمی تعاون کے جذبے کو فروغ دے سکے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لئے ہر دور اور ہر قبیلے میں ایک پیغمبر بھیجتا رہا تاکہ وہ بندوں کو رشد و ہدایت عطا کرے، خدا کی نا فرمانی سے دور رکھے اور اسکے احکام کی پیروی کا طریقہ بتائے۔
اور یہ سلسلۂ نبوت ہمارے آخری نبی حضرت محمد ۖ پر آکر تمام ہوتا ہے جنہوں نے آج سے چودہ سو سال پہلے سرزمین عرب پر پرچم اسلام کو سر بلند کیا ، جہہاں برائیاں انتہا کو پہنچ چکی تھیں، شراب نوشی عام تھی،زنا کاری کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے میں عار محسوس نہیں کیا جا تا تھا، قبائلی لڑائی پر فخر کیا جاتا تھا، خیانت و بد دیانتی کو ہنر سمجھا جاتا تھا اور قتل و غارت گری عام تھی۔ایسے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپۖ کے ذریعہ دین حنیفی عطا فرمایاجس نے سرزمین عرب ہی سے نہیں بلکہ دنیا کے جس خطے میں بھی اسلام کا بول بالا ہوا ان خطوں سے انسانیت سوز برائیوں کا صفایا کر دیا اور اس سرزمین پر عدل و انصاف کا قیام کیا، چوری و بدکاری کو ختم کیا، زنا و شراب کو حرام کرکے انسانی عقل و خرد کو سالمیت بخشی، بچیوں کو زندہ درگور کرنا شنیع جرم قرار دیا گیا، قتل و غارت گری کو حرام قرار دیا گیا اور انسانی وقار کو سر بلند کر نے کے لئے معاشرہ کے اصول و قوانین مرتب کئے گئے، اخلاقی قدروں کو بحال کیا گیا، عورتوں کو ان کا جائز مقام دیا گیا، انھیں عزت بخشی گئی اور سماج میں با وقار جینے کا حق دیا گیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب جب دنیا کے اندر امن و امان ختم ہوا، سماجی برائیاں پروان چڑھیں، معاشرتی زندگی اجیرن ہو گئی، انسانیت بلکنے لگی تب اسے بحال کر نے کے لئے اسلام آیا اور اسلامی قوانین کے نفاذ نے انسانیت کو اس کا صحیح مقام دیا۔ معاشرتی مسائل ہی نہیں جنگ و جدال تک میں اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلامی قوانین نے اخلاقی اقدار کی پاسداری، امن و امان کی بحالی اور انسانیت کی بقا کے لئے عدل و انصاف، مساوات اور جذبۂ ہمدردی و خیر خواہی کو رواج دیا۔تاریخ کے اوراق اس کی گواہی دیتے ہیں__ فتح مکہ کا دن ہے، مجرمین سکتے میں ہیں کہ نہ جانے آج ہمارے خلاف کیا فیصلہ سنایا جائے گا ، ہر طرف اسلامی لشکر ہے پھر بھی امن و سکون ہے، تمام مجرمین کے لئے عفو درگذر کا عام اعلان کر دیا جا تا ہے__ یہ ہے اسلام، اور جو بھی اس مذہب میں داخل ہیں انھیں ان چیزوں کی پاسداری ضروری ہے۔
اسلامی لشکر کو جنگ کے لئے بھیجا جا رہا ہے اور یہ ہدیت دی جا رہی ہے کہ جنگ کے دوران اور فتح و کامرانی میں بھی ان چیزوں کا خیال رکھنا ہے کہ بچوں ، عورتوں، بوڑھوں اور پیڑ پودوں کو نقصان نہیں پہنچے اور نہ مردوں کا مْثلہ کیا جائے۔ صرف ان لوگوں کے خلاف نبرد آزما ہوا جائے جو مقابلے پر آئیں۔ جنگ کے درمیان بھی جس مذہب میں ان چیزوں کا خیال رکھا جائے کیا وہ غیر جنگی حالات میں انسانیت کا خون کر سکتا ہے؟؟؟؟
انسانی فطرت ہمیشہ امن و امان، عدل و انصاف، بھائی چارہ کی عادی ہے اس لئے جب بھی یہ چیزیں ناپید ہوتی ہیں انسانیت بلک اٹھتی ہے۔اس کی تازہ مثال مودی حکومت کے قیام کے بعد عوام الناس کی کسمپرسی نے دہلی اور بہار میں سیکولر حکومت کے قیام میں اتحاد کا مظاہرہ کیا۔امریکہ جو انسانی اقدار کی پاسداری اور اس کے تحفظ کا اعلان کرتا ہے۔کیا اس نے اس کی آڑ میں انسانیت کا خون نہیں بہایا؟ افغانستان، عراق و لیبیا کے معصوموں کی جانیں ضائع نہیں کیں؟؟؟ پھر بھی آج اسے انسانیت کا محافظ قرار دیا جا تا ہے حالانکہ وہ انسانی اقدار کو کھوکھلا کر رہا ہے۔اگر انسانی فطرت میں شدت پسندی ہوتی تو امریکہ کی ان کارروائیوں کے خلاف احتجاجی جلوس نہیں نکلتے اور نہ اس کے خلاف نعرے لگتے۔صرف یہی نہیں بلکہ امریکہ نے انسانیت کو معذور کرنے میں ہمیشہ شنیع کارنامہ انجام دیا ہے خواہ وہ ہیروشیما پر بمباری کرنی ہو یا افغانستان، عراق اور لیبیا کو تباہ کرنا ہو یا پھر مصر کی جمہوریت پامال کرنی ہو۔
ان تمام میں اس کی پشت پناہی ہمیشہ رہی ہے۔اسرائیل بھی اس میں پیچھے نہیں رہا اور اس نے بھی اپنا سکہ منوانے کے لئے چیچینیا، بوسنیا اور فلسطین کا قلع قمع کرنے میں کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔شام پر موجودہ ناٹو حملے بھی انسانیت کا خون بہا رہے ہیں ۔دراصل ان حملوں میں ان عام باشندوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں جن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلم ممالک کے باشندہ ہیں__کیا یہ مذہب کے پیروکار نہیں یا ان کا مذہب ہی اس کی اجازت دیتا ہے __ شاید کوئی مذہب اسکی اجازت نہیں دیتا لیکن اپنی سرداری کو بر قرار رکھنے اور حکومت کی بقا کے لئے یہ اندھے سر براہان عام لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے اور بے دریغ انسانیت کا خون کرتے ہیں۔ ان کو اپنی کرسی بچانے کے لئے ہر چیز بھلی لگتی ہے اور وہ فتنہ و فساد برپا کرنے میں، لوگوں کا قتل عام کرنے میں اہم کارنامہ انجام دیتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہلاکو، چنگیز خاں اور تیمور لنگ کی مثال بھی کچھ اسی طرح کی ملتی ہے جنہوں نے اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے بستی کی بستی تباہ کر ڈالی، انھیں قلعہ میں محصور کر کے زندہ جلا دیا اور قتل عام کیا۔حکمرانی قائم کرنے اور کرسی کی بقا کے لئے آج بھی وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور طرح طرح کے فتنے برپا کئے جا رہے ہیں، جگہ جگہ بم دھماکے کئے جا رہے ہیں اور معصوم و بے گناہ لوگوں کو اسکی سزا دی جارہی ہے __گجرات فساد ہویا مہاراشٹر کا فساد ہو، بھاگلپور فساد ہو یا اڑیسہ کا فساد ہو، سکھوں کا قتل عام ہو یا عیسائیوں کا قتل عام، کانپور بم دھماکہ ہو یا مکہ مسجد بم دھماکہ، مظفر نگر فساد ہو یا دادری سانحہ__ یہ سب ایک ہی ہار کی وہ لڑیاں معلوم پڑتی ہیں جو الگ الگ جگہوں پر، الگ الگ مواقع پر انجام دی گئیں اور فتنہ و فساد کی آگ میں انسانیت کو جھلسا دیا گیا۔
ہندوستان جو جمہوریت کا پاسدار ہے، جہاں ہر شخص جینے کا حق رکھتا ہے اور ہر مذہب کے عقیدت مند اپنے طرز و انداز سے زندگی گذارنے کا حق رکھتے ہیں وہاں بھی چند دہائیوں سے شر پسند عناصر نے اپنا سکہ جما نے کے لئے طرح طرح کے فتنہ و فساد برپا کئے اور انسانی اقدار کو پامال کرنے میں عار محسوس نہیں کیا۔ اسلام دشمن طاقتوں نے مکر و فریب کا جال بچھا یا اور دہشت گردی کی آڑ میں نہ صرف خون آشام ہولیاں کھیلیں گئیں بلکہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال کر ان کی زندگیاں تباہ کردی گئیںاور بستی کی بستی اجاڑ دی گئیں۔کبھی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا تو کبھی قبرستان کے مسئلے کو لیکر مسلم اقلیتی علاقوں کو زد میں لیا گیا۔
مندروں کے انہدام کی سازش کر کے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی گئی، گئو کشی، لو جہاد اور گھر واپسی کی آگ میں انسانیت کو جھلسانے کی ناپاک سازش کی گئی اور پیغمبر اسلامۖ پر چھینٹا کشی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی بارہا ناکام کوششیں کی گئیں۔ مزید یہ کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو غدار اور ملک دشمن کہنے میں عار محسوس نہیں کیا گیا۔گویا مکر و فریب پر مبنی وہ تمام تدبیریں کی گئیں جو عوام کو بے وقوف بنا کر حکومت سازی میں مددگار ہوں خواہ اس کے لئے بیشتر انسانی جانوں کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے اور اس کا الزام ایسے مذہب کے ماننے والوں پر تھوپا جاتا ہے __جہاں انسانیت کی قدروقیمت ہے، انسانی اقدار کی پاسداری ہے، اخلاقی قدروں کو بحال کیا جا تا ہے،
امن و امان کو ایمان کا بنیادی عنصر قرار دیا جاتا ہے، جہاں نسل کشی سے باز رکھا جاتا ہے، عورتوں کو انکا سچا حق فراہم کیا جاتا ہے، جہاں قتل و غارت گری کو جرم قرار دیا جاتا ہے، نشہ خوری و زنا کاری کو حرام قرار دیا جاتا ہے اور چوری و بدکاری کو گناہ سمجھا جاتا ہے، معاشرتی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے اور سماج کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے والے قوانین نافذ کئے جاتے ہیں__ بجائے اس کے کہ ان امور پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور غیر جانبداری کے ساتھ اس کی تحقیق کی جائے، انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے ایک جھوٹ کو تسلسل کے ساتھ بولا جاتا ہے، حکومتی سطح پر اس جھوٹ کی سرپرستی کی جاتی ہے، عوام کو گمراہ کرنے کے لئے عملی اقدامات کئے جاتے ہیں اور انہیں ایک ڈرامے کی شکل دے کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے
اب تو صیاد نے، بلبل نے، قفس نے سمجھا
فتنہ گر جس طرح چاہے ہمیں میزان کرے
دین اسلام میں انسانیت کی قدر کو اولیت بخشی جاتی ہے کیوں کہ وہی اشرف المخلوقات ہے اور دنیا کی ہر شئے اسی کے لئے وجود میں لائی گئی ہے تاکہ اس کی بقا کا انتظام ہو سکے۔ اسلام انسانیت کو زندگی میں ہی وقار نہیں بخشتا بلکہ اسکی وفات کے بعد بھی اسکے جسد خاکی کو عزت و تکریم کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیتا ہے۔ انہیں جس طرح زندگی میں جلانا گوارہ نہیں کیا جاتا محض اس لئے کہ انسانی روح کو تکلیف پہونچے گی اسی طرح اس کی وفات کے بعد بھی اسے جلانے، کاٹنے اور مُثلہ کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔جس مذہب میں انسانی وقار کو یہ مرتبہ دیا جائے، زندگی ہی نہیں موت کو بھی عظمت کی معراج عطا کی جائے__ کیا اس مذہب میں فتنہ و فساد، قتل و غارت گری، انسانیت کا خونی کھیل کھیلنے کی گنجائش بھی باقی ہوگی؟؟؟ نہیں____ ہر گز نہیں
اپنے مردے بھی جو جلاتے نہیں
زندہ لوگوں کو کیا جلائیں گے
تحریر: محمد وجہ القمر
wqamar2007@gmail.com