تحریر: سجاد علی شاکر
آصف ،عمران کے پاس گیا اور کہا کہ یار ہماری بھی کبھی بات کرواں بھابھی سے ،کیا ہم تمہارے کچھ نہیں لگتے جو تم نے اپنی محبت بارے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا، ایسے ہی ڈائیلاگ طارق نے بھی بولے ، عمران کو دوستوں نے احساس ڈلوایا کہ ہم تمہارے دوست ہے۔
عمران پہلے ہی پریشان تھا اور سوچ میں مگن تھا کہ میں کل کیا کروں گا، دوستوں نے پریشانی کا سبب پوچھا تو جناب نے سب کچھ کھل کر بتا دیا، ساری باتیں سن کر ہم سب دوستوں کو ہنسی بھی آئے اور دکھ بھی کیوں کہ ہمیں نظر آگیا تھا کہ یہ عشق اب ختم ہونے والا ہے۔
سب دوستوں نے مشورہ دیا ٹھیک ہے تم کل جائو ۔مل کر آئو پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ،عمران صاحب نے ایک کار بک کروائی ہوئی تھی ، جسے طارق کے کہنے پر کینسل کر دیا گیا ،اور فیصلہ یہ ہوا کہ ہم بائیک پر بالکل سادہ جائے گے ،اگلے دن ٹھیک 12;pmپر طارق اور عمران ٹوٹی ہوئی بائیک ، جس کا والیم بہت اونچا تھا پر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئے،90منٹ کی مساوت کے بعد ہم رابعہ کی گلی میں پہنچے،ایڈریس کے مطابق ر ابعہ کے گھر کے باہر شریف ہاوس لکھا ہوا نظر آیا ہم پہنچان چکے تھے ، کہ یہی اس کا گھر ہے کیوں کہ رابعہ کے پاپا جی کا نام شریف تھا اور وہ پاس ہی جلو پارک میں چئیرمین تھا،ساری صورتحال دیکھ کرطارق نے اسی وقت سرمظہر کو فون کیا اور سب کچھ بتایا اور کہا کہ آپ تیار رہیے گا آج اس دیوانے کا دل پھر ٹوٹنے والا ہے۔
عمران اور طارق گلی میں داخل ہوئے ، رابعہ کے گھر کی بیٹھک کا دروازہ لائٹ آف ہونے کی وجہ سے کھلا ہو اتھا ، سامنے ہی رابعہ ء تھوڑے سے بچوں کے ہمراہ بیٹھی تھی ، اس نے اسی وقت ان دونوں کو دیکھ لیا ،طارق او عمران نے بھی سے دیکھ لیا ،رابعہ کو دیکھ کر عمران پھولے نا سمایا ، کیوں کہ وہ بہت خوب صورت تھی، 4 منٹ گلی میں رکنے کے بعد جوتوں کے ڈر کی وجہ سے وہاں سے نکلنا ہی غنیمت جانا ابھی بی آر بی نہر کے پاس ہی پہنچے تھے کہ رابعہ کا فون آگیا عمران نے کال رسیو کی اور بات کی ، رابعہ نے پوچھا کہ کیا جو گلی میں کھڑے تھے وہ تم تھے؟
عمران بہت خوش تھا ،وہ رابعہ کہ حسن کی تعریف کرنا چاہتا تھا ،مگر یہ رابعہ کو ایک سادہ شخصیت کامالک ہونے کی بنا پر ایک آنکھ بھی نہیں بھایا تھا ،جیسے ہی عمران نے ہاںبولا ،رابعہ نے کال بند کر کے اپنا نمبر آف کر دیا۔ عمران کی خوشی کو ایک پل میں ہی نظر لگ گئی تھی،اس کے آنسو نظر نہیں آرہے تھے مگر محسوس کئیے جا سکتے تھے، بڑا دھماکہ تو رات 11:21pm پر ہوا جب عمران سب دوستوں کے ہمراہ بازار میں تھا ، اوربار باررابعہ ء کا نمبر ڈائل کر رہا تھا، جیسے ہی نمبر آن ہوارابعہ نے کال اْٹھائی اور کہا آج ہمارے گھر میری آنٹی آئی اور ابو کے سامنے اپنی چادر اتار کر پائوں میں پھینک دی اور کہا بھائی اپنی بیٹی کا رشتہ مجھے دے دوں ،اور ابو نے ہاں کر دی ہے لہذا آج کے بعد ہماری بات نہیں ہو گی ، اتنی بات کر کے را بعہ نے فون بند کر کے نمبر آف کر دیا۔ جو کہ آج تک بند ہے۔
عمران بہت بھولا نکلا نہیں سمجھا کہ رابعہ نے ایسا کیوں کیا ؟ آنکھوں میں آنسو لیے گھر چلا گیا ، اگلے روز بازار نہ آیا ،سر مظہر نے کال کر کے بلایا اور دو کلو آم میٹھے والے ,اور 4 سیب لیے اور عمران کو بولا اسے اچھے سے دھو کر لائو اور برف بھی آموں میں ڈال کر لا ئو، پھر دونوں ٹوٹی پھوٹی بائیک پر بیٹھے ، سر مظہر نے عمران کو نہر کنارے جانے کو بولا ، نہر پر پہنچنے کے بعد وہی لیکچر جو سر ہر دفعہ عشق سے نکام ہونے پر دیتے تھے وہ دیا ،یہ لیکچر لے کر عمران آدھا ٹھیک ہو جاتا تھا ، اسی لیے رابعہ کے ٹھکرا دینے کے بعد بھی عمران کچھ حد تک نارمل ہو گیا تھا، مگر اس نے اب دیواروں سے باتیں کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اب دھیرے دھیرے دیواروں سے باتیں کرنے لگ گیا تھا۔
سب دوست اس کے پاس آتے اسے وقت دیتے ، سمجھاتے ، بہلاتے لیکن بے سود، اب عمران کچھ نہیں سننا چاہتا تھا وہ بس اب صرف اور صرف تنہا رہنا چاہتا تھا۔ایک دن عمران پاس والی دیوار سے کچھ یوں بات کر رہا تھا ، کہ آج کے بعد میں کسی کو اپنے دل میں جگہ نہیں دوں گا کبھی پیا ر نہیں کروں گا ، مگر افسوس عمران کا دل بہت بڑا ہونے کی وجہ سے پھر کسی نے اپنی جگہ جلدی بنا لی مگر اب کی باررابعہ کی جگہ ماہی کوملی۔
تحریر :سجاد علی شاکر
فنانس سیکرٹری پنجاب (کالمسٹ کونسل آ ف پاکستان)لاہور
sajjadalishakir@gmail.com 03226390480