لاہور (ویب ڈیسک) عمران خان کے دورہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس رازکو افشا کرنے کے بعد کہ مودی نے اسے ثالثی کی درخواست کی تھی، یہ اچانک کشمیر کا محاذ اتنا گرم کیسے ہو گیا۔سب سے پہلے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ شروع ہوئی، پھر وادی میں ایک بہت بڑے آپریشن کی تیاری شروع ہوگئی۔
نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تمام لاؤ لشکر اور اسلحہ و بارود پہنچادیا گیا، خوف زدہ کرنے کے لیے کلسٹر بم پھینکے گئے، چاروں جانب دستے مارچ کرنے لگے، سیاحوں کو علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا، ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی، امرناتھ یاترا والوں کو بھی وادی چھوڑنے کا سندیس دے دیا گیا۔ صدارتی حکم نامے سے آرٹیکل 370 ختم کردیا گیا اور اب لوگ سبھا میں امیت شاہ نے وہ بل بھی پیش کردیا ہے جسکے تحت آرٹیکل اے- 35 بھی ختم ہو جائے گا اور کشمیر ایک ایسا خطہ بن جائے گا جس میں ہر کوئی جاکر آباد ہو سکے گا۔
مقصد وہی ہے کہ جس طرح اسرائیل نے یہودیوں کو یروشلم میں آباد کرکے فلسطینیوں کو بے دخل کیاتھا ، ویسا ہی اب کشمیر میں بزور طاقت کیا جائے گا۔ لیکن یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے۔عالمی سطح پراسوقت 1920ء کی عرب دنیا، خلافت عثمانیہ کی ذلت آمیز شکست کے بعد قومی اور قبائلی ریاستوں میں منقسم ہونے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور فرانس کے تسلط میں بھی تھی۔آج 2019 ء کی عالمی سطح بالکل مختلف ہے اور وہ یہ کہ طالبان کی افغانستان میں فتح نے اس خطے کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کی 18سالہ جنگ میں سرمایہ اور ٹیکنالوجی ، دونوں کو شکست ہوئی ہے اور بھارت کی بھی اٹھارہ سالہ افغان حکمت عملی بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ڈوبنے کے ساتھ ساتھ اسے ذلیل و رسوا کرکے کان سے پکڑ کر افغانستان اور اسکے معاملات سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ کہاں 2001ء میں اس نے پورے خطے پر مکمل کنٹرول کا خواب دیکھا تھا اور کہاں اب یہ خطرہ کہ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے فورابعد دنیا بھر کے جہادیوں کا اگلا ٹھکانہ کشمیر ہوگا اور جب یہ لوگ کشمیر میں داخل ہوں گے تو اس شوق اور ولولے کے ساتھ ہونگے کہ وہ ابھی ابھی ایک عالمی طاقت اور اسکے اڑتالیس حواریوں کو افغانستان میں شکست دے کر آئے ہیں۔
دنیا بھر کے جہادی جن احادیث سے اپنے لئے رہنمائی لیتے ہیں وہ کشمیر کی فتح کا ذکر نہیں کرتیں بلکہ جہاد ہند کی بشارتوں والی فتح کے تذکرے سے معمور ہیں۔ کشمیر میں جہادیوں کا داخل ہونا جو بھارت کی سات ہزار پانچ سو سالہ (7,516) کلومیٹر لمبے سمندری ساحل کی موجودگی میں اس قدر آسان ہے کہ طاقتور ترین فوج بھی اسے نہیں روک سکتی۔ اگر یہ وہاں داخل ہوگئے ، تو پھر انکی منزل کشمیر کی آزادی نہیں بلکہ جہاد ہند ہوگی۔ ایسی صورت میں یہ جنگ بھارت کے ہر شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اسرائیل کے اردگرد آباد مصر، سعودی عرب، اردن، شام، لبنان، عراق اور خلیجی ریاستوں میں مسلمانوں کی کل آبادی بیس کروڑ کے قریب ہے جبکہ اکیلے بھارت میں 25 کروڑ مسلمان آباد ہیں اور یہ ایسے مسلمان ہیں جو گذشتہ دہائیوں سے ذلت اور رسوائی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہر جگہ خوف میں زندہ ہیں۔مشرق وسطیٰ کے بیس کروڑ مسلمانوں پر کم از کم دس حکومتیں ہیں جو جہادیوں کے کنٹرول کرنے کیلئے امریکی مفادات پر عمل پیرا ہیں، جبکہ بھارت تو اسوقت اٹھارہ ریاستوں میں خانہ جنگی سے نبرد آزما ہے۔