تحریر: سعیداللہ سعید
ان کی فیملی اچھی خاصی مذہبی فیملی تھی لیکن جب وطن عزیز میں روشن خیالی کی ہوا :چلائی گئی،، تو ان کی فیملی بھی غیر محسوس طریقے سے روشن خیال کلب میں شامل ہوگئی۔ شروع شروع میں تو روشن خیالی کو ان کے گھر میں جگہ بنانے میں خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس وقت روشن خیالی کو بڑی کامیابی ملی جب خاندان میں ایک شادی کی تقریب اٹینڈ کرنے کے لیے گھر کی عورتوں اور جوان لڑکیوں نے برقعے کی بجائے ہلکے دوپٹوں کا استعمال کیا۔ اس کے بعد مزید تبدیلیاں تیزی سے رونماء ہونے لگی مثلاً: پہلے گھر میں ضرورت کے لیے ایک موبائل فون موجود تھا لیکن اب ہرخاتون کی جستجو تھی کہ ان کے پاس الگ الگ فون موجود ہو۔
چونکہ پیسے کی کوئی کمی نہ تھی اس لیے جلد ہی سب کی مرادیں بر آئیں اور سب لڑکیوں نے مارکیٹ جاکر اپنی اپنی پسند کے موبائل فون خرید لیئے۔ موبائل آنے کے بعد اب دن کے اکثر وقت کزنز وغیرہ سے بات چیت میں گزرنے لگی۔ کبھی ان کو اپنے ہاں کھانے پر بلالیا تو کبھی ان کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر پکنک منانے چلے گئے۔روز روز کے اس بے تکلفی کا یہ نتیجہ نکلا کہ خاندان کے لڑکے ،لڑکیوں میں جو روایتی شرم و حیا تھی وہ جاتی رہی۔ پھر جب ٹیلی کام کمپنیوں نے صارفین کو 3 G سروسز فراہم کرنی شروع کردی ۔ تو انہوں نے بھی اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ہر ایک اپنی دنیا یعنی Facebookکی دنیا میں جابسا ۔
فیس بک پر پہلے پہلے تو صرف اپنے عزیزوں سے رابطے ہوتے رہے لیکن ایک دن خاندان کی ایک جوان لڑکی کو ان کے اکائونٹ پر کسی انجانے لڑکے نے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی۔ پہلے تو لڑکی نےaccept کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس کی لیکن پھر روشن خیالی نے اسے شہ دی کہ بھئی درخواست قبول کرلو کیونکہ یہ اکیسویں صدی ہے کوئی پتھر کا دور تھوڑی ہے۔ کچھ شش و پنج کے بعد اس نے فرینڈ ریکویسٹ قبول کرلی اور علیک سلیک کے بعد اس نے رابطہ منقطع کرلیا۔دوسرے دن دونوں میں پھر رابطہ ہوگیا اور پھر رفتہ رفتہ رابطے بڑھتے بڑھتے ملاقاتوں تک جا پہنچے۔ اس دوران لڑکی اسلامی احکامات اور ثقافتی روایات سے باالکل بے پرواہ ہوکر رہ گئی۔ نماز، تلاوت ،ذکرو اذکار ان کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کرگئے جبکہ انڈین فلمیں اور فیس بک چیٹنگ ان کی زندگی کا مقصد بن گئی۔زندگی گزرتی گئی لڑکی کا کیا کسی کا بھی وہم و گمان میں نہ تھا کہ لڑکی بھرپور جوانی میں موت جیسے تلخ مگر اٹل حقیقیت کا سامنا کرے گی لیکن کوئی تسلیم کرے چاہے نہ کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
کیونکہ قرآن مجید ، فرقان حمیدمیں مالک کل جہان کا فرمان عالی شان ہے ۔جس کا مفہوم ہے ۔کہ جب کسی کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو اس میںپھر سیکنڈبھرآگے یا پیچھے نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی اور بارش برستی رات کوگرم لحاف میںلپٹی اس لڑکی کو موت نے دبوچ لیا اور کسی کو کچھ پتہ نہ چلا۔ صبح جب وقت مقررہ پر لڑکی نے بستر نہ چھوڑا تو گھر والوں نے آواز دے کر اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر ان کی یہ کوشش بے سود رہی۔ پھر جب پلنگ کے پاس جاکر دیکھاتو ان کی لاش بے یارو مددگار پڑا تھا۔ گھر میں جب سب کو تہ چلا تو کہرام مچ گیا، کسی نے بال نوچنے شروع کردیئے تو کسی نے سینہ کوبی کی۔ یہ شور و غوغا جب پڑوس کی گھروں تک جا پہنچی تو وہ بھی میت والے گھر پہنچ گئے اور اہل خانہ کو دلاسہ دینا شروع کردیا۔
گھر میں چونکہ کسی کو معلو م نہ تھا کہ میت کو غسل کیسے دیا جاتا ہے لہٰذا دوسرے محلے سے تبلیغی صاحب کی اہلیہ کے ہاں پیغام بھیجا کہ میت کو غسل دی جائے۔ غسل کے بعد جب جنازہ اٹھانے کا وقت آیا تو قدرت کا کرنا ایسا ہو کہ مطلع باالکل صاف ہوگیااور ٹھنڈک بھی قدرے کم ہوئی۔ موسم صاف کیا ہوئی کہ ہر عورت نے حسب توفیق اس پر تبصرہ کرنا فرض عین سمجھا۔ کسی نے کہا کہ دیکھ لیا ناں میں تو کہتی ہو کہ ہماری یہ بیٹی ڈائرکٹ جنت میں جائے گی کیونکہ اتنی خراب موسم کا اچانک صاف ہونا اس بات کی علامت ہے کہ بی بی بہت نیک تھی۔ دوسرے کونے سے دوسری عورت نے کہا ،کہ بھی مانا کہ نماز روزے میں ان سے سستی ہوئی ہوگی لیکن یہ مہینہ اور یہ موسم اس سے تو صاف لگ رہا ہے کہ بی بی بہت خوش قسمت تھی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ مجھے جب ان سب باتوں کا علم ہوا تو میں نے بھی یہی سوچا کہ اللہ پاک غفورالرحیم ذات ہے ۔
جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں تو ہوگی واقعی بی بی خوش قسمت۔ لیکن دل تھا کہ مطمئن ہونے کا نا ہی نہیں لے رہا تھا ۔کیونکہ علماء کرام اور مفتیان عظام سے ہم نے بارہا اللہ پاک کی ارشادات اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں یہ بات سنی ہے کہ اللہ پاک کے فرمانبردار بندوں کو موت اور بعد از موت کیا کیا اعزازات ملیںگے، تو ساتھ میں ان وعیدوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ سنا ہے کہ قصداً نماز چھوڑنے پر کیا کیا وعیدیں آئی ہے، نامحرم کے ساتھ تعلق جوڑنا آخرت میں کتنی ذلت کا باعث بن سکتا ہے، زندگی قیمتی سرمایہ ہے اسے لہو لعب میں گزاردینے پر کن کن سزائوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔
لہٰذا اس الجھن کو سلجھانے کے لیے میں نے اپنے محلے کے پیش امام جناب اقبال علی صاحب سے رابطہ کیااور ان سے سوال کیا کہ ساری زندگی اللہ و رسول کی نافرمانی میں گزارنے کے بعد کسی آدمی کے جنازے کے وقت موسم صاف ہوجائے، نماز جنازہ کوئی بڑا عالم دین پڑھائے یا قبرستان میں قبر کے لیے کوئی موزوں جگہ مل جائے تو کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ مردہ خوش نصیب ہے اور یہ کہ اس کا بیڑہ پار ہے؟ مولانا صاحب نے تسلی سے بات سننے کے بعد فرمایاکہ موت کے بعد مردے کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہوگا اس بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ جہاں تک بات ہے کہ مردہ خوش قسمت تھا یا بد نصیب یہ سب لوگوں کی قیاس آرائیاں ہے ۔
البتہ اتنا ہے کہ اگر کسی بندے کی ساری زندگی اللہ و رسول کی اطاعت میں گزرجائے اور گناہوں پر توبہ کی توفیق بھی مل جائے تو قرآن و سنت کی روشنی میںہم اس بارے میں امید لگاسکتے ہیں کہ اللہ پاک نے ان کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمایا ہوگا ۔اس کے برعکس اگر کسی مسلمان بندے کو اس حال میں موت آجائے کہ اس کی ساری زندگی رحمن کی نافرمانی میں گزری ہو تو ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلاء ہوجانے کی بجائے اس کے لیے زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے تاکہ اللہ پاک ان سے بھی عفو دردگزر کا معاملہ فرمائے۔
قارئین کرام! کالم میں لوگوں کی قیاس آرائیاں اور اس پر مولانا صاحب کا موقف آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ آخر میں صرف اتنا کہ کسی کو خوش نصیب یا بد نصیب کہنے کی بجائے ہمیں اس زندگی سے ”جو کہ اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے،، فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ اللہ نے یہ زندگی ہمیں کسی مقصد کے لیے دی ہے اور وہ مقصدیہ ہے کہ ہم یہ زندگی اللہ پاک کی احکامات کو نبی آخرالزامان صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہو طریقوں کے مطابق گزاردیں لہٰذا خوش فہمیوں میں بتلاء ہونے کی بجائے ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے تاکہ دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی چین و سکون ہمارا مقدر ٹہرے۔
تحریر: سعیداللہ سعید
cell.03452948722
saeedullah191@yahoo.com