لاہور (ویب ڈیسک) پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے آئی ایس پی آر میں یوتھ انٹرن شپ پروگرام کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوجوان میرٹ اپنائیں‘ قانون کی پابندی کریں اور شارٹ کٹ سے بچیں۔ شارٹ کٹ سے بچنے کا مشورہ نوجوانوں سمیت حکمرانوں اور عوام سبھی کے لیے یکساں مفید ہے۔ نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وطن عزیز میں ”شارٹ کٹ‘‘ کی داستان بہت دلچسپ و عجیب اور اس کا انجام عبرتناک ہے۔ ماضی میں ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لیے ایسا ایسا شارٹ کٹ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس کی تفصیل میں جانے کے لیے کئی کالم بھی ناکافی ہیں۔ کیا عوام‘ کیا حکام اس شارٹ کٹ پر سبھی کا یقین کامل ہے۔ بعض کیسوں میں تو شارٹ کٹ میں بھی ایسے ایسے کٹ لگائے گئے ہیں کہ پورا سسٹم ہی شارٹ ہو چکا ہے اور سسٹم شارٹ ہونے کے نتیجے میں: ؎ایسے ویسے کیسے کیسے ہو گئے ۔۔۔کیسے کیسے ایسے ویسے ہو گئے۔۔۔سسٹم شارٹ ہونے کے بعد اخلاقی و سماجی قدروں سے لے کر نا جانے کیا کیا ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ آئین سے لے کر ٹریفک سگنل تک‘ توڑنے والوں نے کیا کچھ نہیں توڑا۔ قانون توڑا‘ ضابطے ہوا میں اُڑائے‘ سماجی و اخلاقی قدروں کو پامال کیا‘ ہوسِ زَر کے ماروں نے ایسا اندھیر مچایا کہ سب کچھ صاف صاف نظر آرہا ہے۔ اقدار اور اختیار کے زور پر کیسی کیسی ”انجینئرڈ‘‘ واردات نہیں کی گئی۔ شارٹ کٹ میں بھی ایسا کٹ لگایا کہ ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) کھلوانے کے لیے بھی قرض لینے والے جیسے ہی ایوانِ اقدار میں داخل ہوئے تو کیسی ایل سی‘ کیسی کسٹم ڈیوٹی‘ کسٹم حکام کے گلے پہ انگوٹھا رکھ کر برآمد شدہ مال ”باؤنڈڈ ویئر ہاؤس‘‘ (Bounded Warehouse) میں منتقل کروایا جاتا۔ قابلِ ذکر اور تشویشناک بات یہ کہ باؤنڈڈ ویئر ہاؤس بھی اپنی ہی فاؤنڈری میں بنوائے جاتے۔ جس کے بعد انتہائی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے ویئر ہاؤس سے درآمد شدہ مال چوری کیا جاتا اور کھلے عام استعمال کیا جاتا‘ اور مال بنایا جاتا۔ پھر اپنی سہولت آسانی اور مرضی کے مطابق سرکاری ڈیوٹیاں اور بینکوں کی ادائیگیاں کی جاتیں۔ اس ساری واردات میں محکمہ کسٹم سمیت کسی سرکاری ادارے کی اوقات اور مجال ہی کیا جو اِن ”حکمران مرچنٹس‘‘ کو روک سکے۔ اسی طرح شارٹ پہ شارٹ کٹ لگاتے رہے اور اپنی دنیا سنوارتے رہے۔ یہ واردات اس ڈھٹائی سے کی جاتی کہ پوری منڈی ہی غیر متوازن ہو کر رہ گئی۔ مرچنٹ حکمران کا مقابلہ بھلا کون کر سکتا ہے۔ ان حکمرانوں کا سکریپ اور لوہا دیگر سٹیل ملز پر بھاری پڑتا چلا گیا اور اتنا بھاری پڑا کہ اچھی بھلی سٹیل ملز ہلکی ہوتے ہوتے ہوتے ہلکان ہو کر رہ گئیں۔ بینکوں اور سرکاری ڈیوٹیوں پر پلنے والے یہ حکمران اخلاقی قدروں سے لے کر قانون اور ضابطے کو پامال کرنے تک کی ساری حدیں ہی پار کر گئے۔ کئی نسلوں سے فیکٹریاں اور کاروبار چلانے والے نامی گرامی خاندان اور بڑے بزنس گروپس ان سے مسابقت میں کہیں کے کہیں رہ گئے‘ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مرچنٹ حکمران کہاں سے کہاں پہنچتے چلے گئے۔ اس حکمران خاندان کی اس ہوشرُبا ترقی اور طلسماتی واردات کو ”عزم و ہمت کی داستان‘‘ قرار دینے والے شہباز شریف نے تو اسے کتابی شکل بھی دے ڈالی لیکن جلد ہی یہ کتاب مارکیٹ سے چن چن کر اٹھوا لی گئی۔ گمان غالب ہے کہ کسی سیانے نے مشورہ دے دیا ہو گا کہ عزم و ہمت کی یہ داستان اور خاندانی پس منظر‘ موجودہ شان و شوکت کے سامنے تضادات کا مجموعہ لگتے ہیں۔ ان تضادات کے ساتھ وسیع و عریض کاروبار اور لمبے چوڑے اثاثوں‘ ظاہری و پوشیدہ مال و دولت‘ ملکی و غیرملکی جائیدادوں اور ناقابلِ بیان شان و شوکت کو کیسے حلال اور جائز قرار دو گے؟ مشورہ دینے والے سیانے کی بات دل کو لگی اور ”عزم و ہمت کی داستان‘‘ کا اگلا ایڈیشن تو خیر کیا آتا‘ پہلا ایڈیشن ہی گلے پڑتے پڑتے رہ گیا۔ آئندہ کسی کالم میں اس کتاب کے مندرجات ضرور شیئر کروں گا‘ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فرش سے عرش پر پہنچنے والے فرش پر کیسے رہتے تھے اور معمولاتِ زندگی چلانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتے تھے۔ عرش پر جانے کے لیے کس اُڑن کھٹولے کا سہارا لیا گیا۔ اس اُڑن کھٹولے پر بیٹھتے ہی دنیا جہان کی دولت اور آسائشیں ان کے گھر کی باندی بنتی چلی گئیں۔ ان کے منہ سے نکلے الفاظ حکم اور قانون بنتے چلے گئے۔ حکومتی ادارے ان کے در پر دست بستہ اور ریاستی وسائل ان کے باپ دادا کی جاگیر بنتے چلے گئے۔ گویا اِدھر یہ ”اُڑن کھٹولے‘‘ پر بیٹھے‘ اُدھر عوام کی بنیادی ضروریات ”اُڑن چھو‘‘ ہوتی چلی گئیں۔ عوام کو پیٹ بھر روٹی‘ تعلیم‘ صحت اور امن و امان سے لے کر دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی تک سے یہ حکمران بے نیاز ہوتے چلے گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ بچوں کی تعلیم اور صحتِ عامہ سے عاجز عوام کو پیٹ بھر روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں جبکہ اَمن و امان کی صورتحال کا بخوبی اندازہ دو روز قبل لاہور سے جاری ہونے والی ایک فہرست سے لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح قانون کے رکھوالوں نے قانون کو جرائم پیشہ افراد کی ”رَکھیل‘‘ بنا رکھا ہے۔ قانون کی سرپرستی میں جوئے کے اڈّوں سے لے کر منشیات فروشی تک‘ جرائم کی پرورش سے لے کر اس کی سرپرستی تک‘ چوری چکاری سے لے کر قتل و غارت اور ڈاکہ زنی تک سبھی کچھ تو یہ قانون کے رکھوالے دیدہ دلیری اور سفاکی سے کروائے چلے جا رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لے کر دیگر محکموں تک میں قابلِ اعتراض پس منظر اور مشتبہ کردار کے حامل افراد کو غول در غول بھرتی کرنے کا کریڈٹ بھی انہیں ”مرچنٹ حکمرانوں‘‘ کو جاتا ہے۔ جرائم کی سرپرستی کرنے والے قانون کے رکھوالوں کی حالیہ فہرست میں تو نمونے کے کچھ نام ہی سامنے آئے ہیں۔ نا جانے کتنے پردہ نشین ابھی گوشہ نشین ہیں۔ یعنی: ”آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘۔ رہی بات اَمن و امان کی تو استطاعت رکھنے والے ذاتی گارڈ اور سکیورٹی سروسز کی خدمات حاصل کر کے اپنے کاروبار اور گھروں کو محفوط بنانے کی اچھی خاصی قیمت ادا کر رہے ہیں جبکہ روٹی سے عاجز عوام کے جان و مال کی نہ کوئی قیمت ہے اور نہ ہی کوئی وقعت۔ اسی طرح ملکی و غیر ملکی کرنسی نوٹوں کی لانچیں بھر بھر کر نقل و حمل سے لے کر بے نامی اکاؤنٹوں‘ جائیدادوں‘ اونے پونے درجنوں شوگر ملز کے مالک بننے تک کے لیے قلانچیں بھرنے والوں سے کون واقف نہیں؟ بھاری رقوم کی ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ٹیٹیوں) اور اپنے قریبی حواریوں اور دوستوں کے نام پر قائم کی گئی کمپنیوں کے ذریعے بنایا گیا لمبا مال کون جھٹلا سکتا ہے؟ کراچی میں جاری بارشوں سے ہونے والی تباہی اور اموات بھی انہیں حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی کا بد ترین نمونہ ہے۔ ان بارشوں میں ہونے والی بھاری مالی نقصان اور ناحق مرنے والوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ مفاہمت کے بادشاہ سب کچھ کر کے بھی صاف دامن لیے پھر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ کسی طرح وطنِ عزیز کی باگ ڈور اِن کی اولادوں کے ہاتھ لگ جائے۔ ایک صاحب اپنے بیٹے کے لیے جبکہ دوسرے صاحب اپنی بیٹی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ گویا بہت بڑی قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف سمیت تمام نیب اَسیران شارٹ کٹ اور سسٹم شارٹ کرنے کے نتیجے میں آج نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں جبکہ موجودہ حکومت میں بھی اکثر چیمپئنز شارٹ کٹ کے چکر میں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب چکرا کے گرتے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کا ڈراپ سین ہو چکا‘ جو یہ ہے کہ تحریک ناکام ہو گئی ہے۔ ہمارے ہاں خوب کا ناخوب اور ناخوب کا خوب ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ وطن عزیز میں یہ سب چلتا آیا ہے‘ نہیں بدلی توعوام کی حالت۔ یہ مشق ستم یونہی جاری رہے گی۔ حکومت نے روٹی سستی کرنے کا محض اعلان کرکے عوام پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ لاد دیا ہے جبکہ دیگر اشیائے ضروریہ بھی عوام کی قوتِ خرید سے بتدریج باہر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ہمارے بزرگ دوست اور معروف صنعتکار ڈاکٹر ارشد تو کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ خوردنی تیل اور پولٹری فیڈ سمیت دیگر اشیا کے خام مال پر ٹیکسوں سے مہنگائی کا سیلاب ضرور آئے گا۔ اس بار مون سون کے سیلاب کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا سیلاب بھی ملک بھر میں اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ آ چکا ہے۔