سب کچھ موسم کا محتاج ہوتا ہے خصوصاً ہم کالم لکھنے والوں کے لیے جنھیں پہلے تو اخبار پڑھنا پڑتا ہے اور اس کی ان گنت خبروں میں سے کسی ایسی خبر کی تلاش کرنا ہوتا ہے جو کالم کا موضوع بن سکے اور کالم بھی ایسا جس کا موضوع قارئین کو قابل قبول ہو۔ میں کئی دنوں سے غیرحاضر ہوں اور اس کی وجوہات کچھ اور ہیں کالم کا موضوع نہیں ہے، کالم تو سالن میں نمک مرچ کم یا زیادہ ہونے پر بھی لکھا جا سکتا ہے اور کسی بھی دوسرے موضوع پر جس پر شبہ ہو کہ قارئین دلچسپی لیں نہ لیں اسے ایک نظر دیکھ ضرور لیں گے۔
جب قارئین میں کچھ نے کالم دیکھ لیا تو لکھنے والے کا مقصد پورا ہو گیا، جہانتک حکمرانوں کا تعلق ہے وہ دیکھیں یا نہ دیکھیں ہماری بلا سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی دلچسپی کے موضوعات دوسرے ہوتے ہیں جو ان کے ذہنوں میں کلبلاتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ یہ کالم جب صرف کسی کی خواہش بن جاتے ہیں تو ذہنوں کو پریشان کرتے ہیں اور ذہن پریشان ہوں تو کالم کیسے لکھا جائے اور پڑھا جائے، اس لیے کالم محض ایک سفید کاغذ اور پھر اسے داغدار کرنے کا نام نہیں ہے اس میں قارئین کو مصروف کرنے کا سامان بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ یہ محسوس نہ کریں کہ ان کے پیسے اور ان کا وقت ضایع ہوا ہے۔
بہرکیف قارئین کا وقت ضایع ہو یا لکھنے والے کا دونوں کو اپنی اپنی ملامت ضرور کرنی چاہیے کہ انھوں نے کاغذ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اپنا وقت ضایع کیا ہے اور اب قارئین کے وقت کو بھی ضایع کر رہے ہیں۔ جہانتک لکھنے والے کے وقت کا تعلق ہے تو وہ تو اسے ضایع یا صرف کرنا ہی ہوتا ہے کہ یہی اس کی مزدوری ہے اور اسی کا ’کھٹا‘ وہ کھاتا ہے۔ ذرا آگے چلیں تو پہلا کام لکھنے کا کام کرنے والے کا ہے جو لکھتا ہے تو یہ سارا سلسلہ چلتا ہے لیکن کئی دفعہ یہ سوچا کہ اخبار نویسی یا کالم نویسی کا کس کو کیا فائدہ ہے۔
سب سے پہلے تو سیاستدانوں کو لیجیے جو اخبار کے پروف ریڈر سے بھی پہلے اخبار پڑھتے ہیں یعنی ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ اخبار تیار ہونے سے پہلے ان کی نظر سے گزر جائے، پسند کی بات ہو تو رات آرام سے گزر جائے ورنہ نرم گرم بستر کے باوجود رات بھر پہلو بدلتے رہیں اور سوچتے رہیں کہ لکھنے والے کا کیا بندوبست کیا جا سکتا ہے چنانچہ صبح سویرے کسی قاری کا نہیں کسی سیاستدان کا فون آتا ہے کہ آپ نے یہ کیا کر دیا ہے اصل بات یہ نہیں تھی بلکہ یہ تھی لیکن یہ اصل بات سیاستدان کے ذہن میں ہی ہوتی ہے کیونکہ سیاستدان کا مفاد کسی سیاستدان کو ہی معلوم ہوتا ہے۔
اخبار نویس کو نہیں اخبار نویس تو سیاست کا جائزہ لے کر کسی سیاستدان کے حالات کا جائزہ لیتا ہے اور پھر اپنے اندازے یا تجربے کے مطابق سیاستدان کی حالت بیان کرتا ہے جس کی توقع سیاستدان کو نہیں ہوتی لیکن سیاستدانوں اور ان کی سیاسی توقعات ایک اخبار نویس سے دور ہی رہتی ہیں کیونکہ اخبار نویس بیرونی حالت دیکھتا ہے جب کہ سیاستدان اپنے اندر کے حالات میں گم رہتا ہے۔ اندر اور باہر کا یہ فرق پوری سیاست میں چلتا ہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا کہ سیاست دان مستقل طور پر کسی لکھنے والے سے مطمئن ہو کیونکہ صحافت اور حکومت میں ایک مستقل اختلاف یا ’دشمنی‘ بھی رہتی ہے۔
ایک اخبار نویس اخبار کے دفتر سے باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے اور عوام کے حالات کو محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ ایک تو عوام کے قریب ترین رہتا ہے دوسرے وہ خود بھی اپنی عوام کا حصہ ہوتا ہے وہ خود اور اس کے اہل و عیال سب عوام میں سے ہوتے ہیں سیاستدان نہیں ہوتے اس لیے وہ کسی سیاستدان کی سیاست کو کسی اخبار نویس سے زیادہ جانتے اور محسوس کرتے ہیں جو لکھنے والے عوام سے قریبی رابطہ نہیں رکھتے وہ کبھی اچھے صحافی نہیں بن سکتے۔ مثلاً فیض صاحب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ میں لاہور میں اکیلا رہتا ہوں میری فیملی لاہور سے باہر گاؤں میں ہے اس لیے وہ بطور ایڈیٹر جب مشورہ دیتے تو کہتے کہ گھر والوں سے رابطہ رکھو کہ یہاں لون تیل کا بھاؤ کیا ہے اور سبزی کس بھاؤ بکتی ہے۔
فیض صاحب میرے ایڈیٹر تھے اور مجھے صحیح سوچ پر رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔ اس لیے مجھے نصیحت کرتے رہتے تھے۔ وہ تو فیض صاحب کو ایک دن ہمارے دوسرے اخبار کے ایڈیٹر جناب احمد ندیم قاسمی نے بتایا کہ میں ان کے قریب کے گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ اس کے بعد فیض صاحب مجھے کاشتکاروں کے مسائل پر بھی عمومی نوعیت کے مشورے دیتے تھے جو میرے شہری ساتھیوں کے سر سے گزر جاتے تھے مثلاً حسن عابدی اور نصیر انور کو دیہات کی زندگی کا کیا علم لیکن فیض صاحب پیدائشی کاشتکار اور دیہاتی تھے اور ان کی معلومات میں دیہات کی زندگی بھی موجود تھی۔
مرحوم فیض صاحب کی ادارت میں میرا خاصا وقت گزرا اور میں نے اس عظیم شاعر اور نظریاتی ادیب سے بہت کچھ سیکھا بھی لیکن زبان کی حد تک اس سے آگے میں بے کار تھا ایک غیر شاعر۔