تحریر: شاہ فیصل نعیم
برائن ٹریسی لکھتا ہے “زندگی ایک کمبینیشن لاک کی طرح ہے جسے کھولنے کے لیے آپ کو ٹھیک نمبر اور ٹھیک ترتیب کا معلوم ہونا ضروری ہے”۔ اگر میں اس جملے کے پیچھے پنہاں کہانی کو بیان کروں تو زندگی کے پوشیدہ رازوں سے پردہ وہی اُٹھا سکتا ہے جو اپنی زندگی خود جی رہا ہے جس نے خود کو پہچان لیا ہے اوراپنی ذات میں چھپی صلاحیتوں کو جان لیا ہے ۔
وہی ہے وہ آدم زاد جس نے سچ کر دکھایا اپنی تخلیق کے مقصد کو، وہی ہے و ہ جس نے اقرار کیا ہے اس بات کا کہ میں باقی دنیا سے جدا ہوں ، وہی ہے وہ جس نے کہاہے کہ میں وہ کرنے آیا ہوں جسے پہلے سے موجود انسان کرنے سے قاصر ہیںاور اُس نے کہا ہے کہ میں وہ ہوں جس کے ہونے کی زمانہ گواہی دے گا ۔ میں ایک ایسی زندگی جینے جا رہا ہوں جس کا تالا میں نے خود کھولا ہے۔ میں نے اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھا ہے جو کسی اور کے بتائے ہوئے نمبروں سے اپنی زندگیوں کے راز کھولنے پہ لگے ہوئے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جن کو نمبروں کا تو علم ہے مگر ترتیب معلوم نہیں ۔ دونوں صورتوں میںہی زندگی مشکل ہے۔
جنہیں خودی کاعلم نہیں اُن کی مثال سمندر میں موجود اُس ملاح کی ہے جس کے ارد گرد پانی رستوں کی صورت میں موجود ہے مگر اُس نے یہ تعین ہی نہیں کیا کہ اُسے کس کنارے تک پہنچنا ہے ۔ اُس کی منزل ہے کہاں؟ اُس کا ٹھکانہ ہے کہاں؟طوفاں سے نکل کر اُسے جانا ہے کہاں؟کن رستوں سے گزر کر اُسے جانا ہے وہاں؟
جب تک کوئی ملاح ا ن سوالوں کے جواب تلاش نہیں کر لیتا اُسے کنارے نصیب نہیں ہوتے اُس کی کشتی موجوں کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ انسان کی زندگی بھی ایسے ہی ہے جس نے منزل کا تعین کیا کامیابی نے اُسی کے قدم چومے۔ رستے بدل سکتے ہیں کوئی انسان لمبا راستہ پکڑ لیتا ہے اور کوئی چھوٹا یہ منزل پر پہنچنے کے بعد ہی معلوم پڑتا ہے کہ کس کا انتخاب اچھا تھا ۔ راستوں کے تعین میں وقت کی اہمیت اپنی جگہ مگر سب سے اہم یہ ہے کہ اُن رستوں پہ چلا جائے جوسوئے منزل لے جائیں۔ کہیں ایسا نا ہو کہ آپ منزل پانے کی بجائے گردِ راہ بن کر رہ جائیں۔
رستوں کی بات کرتے ہوئے مجھے فرقوں میں بٹا غریب الوطن اسلام یاد آتا ہے آپ نہیں غور کر تے کہ جتنے بھی فرقے ہیں جب منبع ِ اسلام کی طرف جاتے ہیں تو سب سفید چادر میں ملبوس اپنی جبینِ نیاز خانہ کعبہ کی چوکھٹ پر جھکا دیتے ہیں۔سب محسن ِ انسانیتۖ کے در پر سر جھکا کر نہیں چلتے ؟اُن کے پیشِ نظر یہ نہیں ہوتا ؟
لے سانس بھی آہستہ کہ در نبیۖ ہے یہ اسلام کے ٹھیکیداروں سے زیادہ اُن کے پیروکاروں کو سوچنا چاہیے کہ اُن کی منزل تو ایک ہے پھر ہم رستوں پہ کیوں لڑ رہے ہیں سب نے جانا توایک ہی رب کے حضور ہے ۔ جب تک ایک عام مسلمان مولوی کو اپنا خدا ماننے سے باز نہیں آئے گا یہ مذہب کا کاروبار ہوتا رہے گا۔ بات ہو رہی تھی رستوں کی درمیان میں مذہب کا ذکر بھی ہو گیا ۔ تو قارئین ! کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ ساری زندگی گزارنے کے بعد غلط مقام پر پہنچ کر غلط لوگوں سے شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ آج وہ اپنے آپ کو پہچانے ، آج وہ صیح منزل
کا انتخاب کرے او ر ٹھیک راستوں پر چلتے ہوئے اُس پا لے۔
جس طرح عمارت کے لیے بنیاد بہت اہم ہوتی ہے اُسی طرح زندگی کی عمارت کو کھڑا کرنے کے لیے انسان کو اپنے آپ کو پہچاننا بہت ضروری ہے یہی زندگی کی بنیا د ہے ۔ باقی منزل اور راستے تو بعد کی باتیں ہیں۔
سلطان باھو فرماتے ہیں:
چودہ طبق دلے دے اندر تنبو وانگوں تانے ہو اے انسان! زندگی کی ساری حقیقتیں تیرے اندر دفن ہیں اپنے اندر جھانکتا جا راز تجھ پر آشکار ہوتے جائیں گے۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم