تحریر : طارق حسین بٹ
٢٣ اپریل کو کراچی کا انتخاب اس لحاظ سے بڑا اہم ہے کہ اس میں ایم کیو ایم کو بے شمار الزامات کے بعد پہلی باعوامی عدالت میں جانے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔نائن زیرو پر فوجی یلغار اور مقدمہ قتل میں ملوث کئی کا رکنوں کی حراست کے بعداسے عوام کے پاس جانا سخت مشکلات کا عندیہ دے رہا کیونکہ عوامی سطح پر اسے سخت مزاحمت در پیش ہے۔کراچی میں فوجی اپریشن سے اس کی جمہوری سوچ اور انداز ِ سیاست پر کاری ضرب لگی ہے لہذا اسے عوام کو اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ اس کے خلاف فوجی اپریشن کا واحد مقصد ایم کیو یام کو کچلنا ہے حا لانکہ ایم کیو ایم پر امن جماعت ہے۔ایم کیو ایم کی کمزور سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت اسلامی بھی اس انتخاب میں کود پڑی ہے۔
اس کی نظر اب بھی کئی عشرے قبل والی اپنی پرانی مقبولیت پر ہے جو کہ کہیں بھی اپنا وجود نہیں رکھتی ۔وہ اپنے تئیں یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ اب بھی کراچی کی مقبول جماعت ہے اور اپنے مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے زور پر ایم کیو ایم پر بر تری حاصل کر سکتی ہے اور ساری انتخابی بساط الٹ سکتی ہے۔اسے کہتے ہیں خوا بوں میں زندہ رہنا۔یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ تحریکِ انصاف اس وقت کراچی کی مقبول جماعت ہے اور الیکشن ٢٠١٣ میں اس نے بدترین حالات میں بھی آٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ جماعت اسلامی عین وقت پر میدان چھوڑ کر بھاگ گئی تھی ۔ اگر٢٠١٣ میں تحریکِ انصاف اکتیس ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکتی ہے تو اب جبکہ ایم کیو ایم دبائو کا شکار ہے اور اس کے سارے ٹھپے باز فرار ہیں تو اس کیلئے یہ انتخاب جیتنا زیادہ آسان ہے لیکن جماعت اسلامی نے انتخاب میں اپنا لچ تل کر اس کیلئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
اگر اس نازک وقت میں جماعت اسلامی تحریکِ انصاف کی پیٹھ ٹھو نکتی تو اس کیلئے اس انتخاب کو جیتناآسان ہو جاتا۔جماعت اسلامی کا المیہ یہی ہے کہ یہ اس زعم سے باہر نہیں نکل سکی کہ اس کا تنظیمی ڈھانچہ کمال کا ہے اور یہ انتہائی منظم جماعت ہے۔منظم جماعت ہونے سے کوئی انتخاب تھوڑا جیت سکتا ہے۔عوامی مقبولیت رکھنا ایک کمال ہوتا ہے جبکہ منظم ہونا دوسرا کمال ہوتا ہے۔پی پی پی کبھی بھی ایک منظم جماعت نہیں رہی لیکن ذولفقار علی بھٹو نے اسے فاتح جماعت بنا دیا لہذا سیاست میں منظم ہونے سے زیادہ عوامی ہونا زیادہ اہم ہو تا ہے۔تحریکِ انصاف بھی کوئی منظم جماعت نہیں ہے لیکن یہ عوامی جماعت ہے اور اس کا یہی عوامی پن اس کی فتح کی بنیاد بن رہا ہے۔
جماعت اسلامی کو بدلتے حالات کا ادراک کر لینا چائیے کہ وہ جس کراچی میں ستر کی دہائی میںسیاست کرتی تھی وہ قصہِ ماضی بن چکا ہے۔اب نہ وہ کراچی ہے نہ وہ جماعت اسلامی ہے اور نہ ہی جماعت کی وہ لیدر شپ ۔بدلتے موسموں میں نئے فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جماعت اسلامی کرنے سے قاصر ہے ۔وہ اب بھی ماضی کے سہانے خوابوں میں زندہ ہے اور اس سے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں ہے۔اسے لاکھ سمجھایا جائے کہ وقت بدل چکا ہے ۔ ایک نئی جماعت نے کراچی میں اپنے پائوں پھیلا لئے ہیںلیکن وہ اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔وہ اپنی شکست کو تو برداشت کر سکتی ہے لیکن خوابوں سے باہرنکلنا اسے گوارا نہیں ۔خوابوں کے ساتھ یہی مشکل ہے کہ انھیں دیکھنا چھوڑا نہیں جا سکتا۔،۔
جماعت اسلامی حلقہ این اے ٢٤٦ میں اپنا علیحدہ ڈنڈا ٹھائے کھڑی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شائد یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ جماعت جس کا جھنڈا کسی زمانے میں کراچی شہر پر لہرایا کرتا تھا کیا فوجی نگرانی میں ہونے والے انتخاب میں کوئی معجزہ سر انجام دے سکتی ہے؟وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اس کی اصلی قوت کتنی ہے؟ وہ اس بات کوبھی پرکھنا چاہتی ہے کہ جماعت کراچی میں کتنی مقبولیت رکھتی ہے؟ اس بات کاجماعت اسلامی کو بھی ادراک ہے کہ جماعت اسلامی اس انتخاب کو نہیں جیت سکتی لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے تو اس کی وجوہات وہی ہیں جھنیں میں نے کالم کے آغاز میں بیان کر دیا ہے ۔کیا اپنی مقبولیت جانچنے کا یہی وقت تھا؟اسے کہتے ہیں غلط وقت پر غلط فیصلہ اور ایسی ہی پھرتیوں نے جماعت اسلامی کو یہ دن دکھائے ہیں۔سوال یہ نہیں کہ کون فاتح ہو گا اور کون مفتوح ہو گا
بلکہ اصلی سوال یہ ہے کہ کراچی کو دھشت گردی سے کون نجات دلوائے گا؟اس وقت کراچی لسانی اورنسلی خانوں میں تقسیم ہو چکا ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے دانشوروں کی متفقہ راہے کہ جب قومیں نظریات کی بجائے فروعی نعروں میں الجھ جاتی ہیں تو پھر انھیں ابتری اور جنگ و جدل سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ہونا تو یہ چائیے تھا عوام کے بے پناہ اعتماد کے بعد ایم کیو ایم عو ام کی خدمت کو اپنا شعار بناتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے اس نے عوام کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے شروع کر دئے۔بوری بند لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ ایک معمول بن گیا جس میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا۔معظم علی ،صولت مرزا ،اجمل پہا ڑی اور عامر خان کے الزامات نے ایم کیو ایم کی شہرت کو داغدار کر کے رکھ دیا ہے۔ایسے وقت میں این اے ٢٤٦ کا انتخاب ایم کیو ایم کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔جماعت اسلامی نے اس نازک موقعہ پر جسطرح اپنا امیدوار میدان میں اتارا ہے میں تو اسے اپنے ہی اتحادی کی پیٹھ میں خنجر گھوپنے سے تعبیر کروں گا۔
یہ سنہری موقع تھا کہ جماعت اسلامی تحریکِ انصاف کے ساتھ دستِ تعا ون بڑھا کر دھشت گردی کی حامل جماعت کی شکست میں اپنا کردار ادا کرتی لیکن اس نے ایسا کرنے کی بجائے اپنا امیدوار کھڑ ا کر کے ایم کیو ایم کو جیتنے کا موقع فراہم کر دیا ہے ۔جماعت اسلامی کو تو جیتنا نہیں لیکن اس نے جس طرح تحریکِ انصاف کی فتح کو شکست میں بدلنے کا تہیہ کر رکھا ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے ۔جماعت اسلامی کو اس نازک وقت پر سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرکے ایک مشترکہ امیدوار سے ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنا چائیے ۔اسے یاد رکھنا چائیے کہ ایم کیو ایم کی شکست دھشت گردی کی شکست ہے اور ایم کیو ایم کی جیت دھشت گردی کی جیت ہے۔ اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑا ہونا چا ہتی ہے۔،۔
کہاوت ہے دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے لہذا جماعت اسلامی کو اسی مفروضے پر عمل کرنا ہو گا۔اگر ایم کیو ایم یہ انتخاب جیت گئی تو وہ شیر ہو جائیگی کہ فوجی اپریشن بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔اسکی جیت سے فوج، رینجرز اور حکومتی ادارے اپنی ساکھ کھو دیں گئے اور یوں کراچی کے امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔کراچی کے امن کیلئے ضروری ہے کہ ایم کو ایم کو کراچی میں شکست سے دوچار کیا جائے تا کہ وہ اس شکست کے بعد اپنا محاسبہ کر کے خود کو پر امن سیاسی جماعت بنا لے ۔معظم علی شاہ کی گرفتاری اور اس کے انکشافات ایم کیو ایم کیلئے ٹائم بم سے کم نہیں ہیں ۔ہر روز کوئی ایسا واقعہ ہو جاتاہے جس میں ایم کیو ایم مزید دبائو کا شکار ہو جاتی ہے۔اگر ایک طرف لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو پانچ گھنٹوں تک منی لانڈرنگ کیس میں سوال و جواب کیلئے رکھا جاتاہے تودوسری طرف اس کے سینئر راہنما انور علی کو بھی کئی گھنٹوں تک منی لانڈرنگ کیس میں تھانے بلایا جاتا ہے۔اب دونوں راہنمائوں کو ایک دفعہ پھر جولائی میں پولیس کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی دینی ہو گی ۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ایم کیو ایم کے قائد تھانے میں کسی دولہا کے روپ میں نہیں بلکہ ایک ملزم کی حیثیت میں پیش ہوئے تھے جو ایم کیو ایم کیلئے باعثِ خفت ہونا چائیے تھا لیکن وہ الٹا اپنے قائد کی ضمانت میں توسیع پر بغلیں بجا رہی ہے۔
اسے کہتے ہیں اندھی عقیدت ۔اندھی عقیدت کا کمال یہی ہوتا ہے کہ اس میں برائی برائی نہیں رہتی بلکہ وصف بن جاتی ہے ۔ایم کیو ایم کو سوچنا ہو گا کہ دوسری جماعتوں کے قائدین کی بجائے یہ اعزا ز صرف قائدِ تحریک کے حصے میں ہی کیوں آرہا ہے؟ایسا لندن میں ہو رہا ہے جوکہ حکومتِ پاکستان کے زیرِ اثر نہیں پاکستان میں تو ایم کیو ایم اپنے خلاف ہونیو الے اپریشن کوا نتقام کا نام دے کر خود کو بری الزمہ قرار دے لیتی ہے لیکن لندن میں پکڑ دھکڑ کے بعد پھر ایم کیو ایم کو سوچنا پڑیگا کہ وہ دھشت گردی کی بجائے اپنا جمہوری تشخص کیسے قائم کرے تا کہ اسے ان سارے جھمیلوں سے نہ چھٹکارا مل جائے ۔یہی وہ وقت ہے جب جماعت اسلامی کو بھی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ وہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا کر تحریکِ انصاف کی کوششوں کو سبو تاج نہ کرے بلکہ دبائو کی شکار ایم کیو ایم کو مزید دبائو میں لا کر اسے سیاسی میدان میں بے اثر کرے۔،۔