ایک بزرگ مسجد میں بیٹھے ذکر اذکار میں مصروف تھے، دوسری طرف میں 2018 کے الیکشن کے حوالے سے پریشان بیٹھا تھا کہ اسی اثنا میں مجھے اپنے کندھے پر کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی بزرگ میرے پاس کھڑے تھے، پہلے تو میری طرف دیکھ کر مسکرائے، پھر فرمانے لگے: ”شاید تم کسی بات پر پریشان ہو؟“ میں نے جواب دیا: ”جی بالکل! میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ الیکشن آ رہے ہیں۔ “ انہوں نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: ”تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ “ میں نے کہا: ”مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ووٹ کاسٹ کروں یا نا کروں، اور اگر منتخب کروں تو کسے کروں؟“ انہوں نے فرمایا: ”بیٹا ووٹ ضرور کاسٹ کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ”جس نے اپنے بھائی سے مشورہ کیا، اور اس نے اسے کوئی ایسا مشورہ دیا جس کے علاوہ میں وہ کامیابی سمجھتا ہو، تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔“ (مسند احمد: 8776) اس حدیث پر غور کرو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات پر زور دیا کہ مشورہ ضرور دیا جائے اور وہ بھی درست، یعنی اگر تم کسی ایسے شخص کو ووٹ دیتے ہو جو اس کا اہل نہیں ہے، تو گویا تم نے خیانت کی ہے۔“
میں نے کہا: ”میرا ایک مسئلہ تو حل ہو گیا، اب میں ووٹ ضرور کاسٹ کروں گا، مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ منتخب کروں تو کسے کروں، یعنی میرے ووٹ کا اہل کون ہے؟“ انہوں نے فرمایا: ”بیٹا قرآن مجید کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی جواب دیا ہے۔“ میں چونکا کہ میں خود دین کا طالب علم ہوں اور مجھے اس بات کا علم ہی نہیں، لہٰذا میں نے ان سے عرض کیا: ”محترم آپ ذرا اس مسئلے کی مزید وضاحت فرما سکتے ہیں؟“ وہ فرمانے لگے: ”اللہ تعالیٰ نے سورۂ فتح کی آخری آیت میں اپنے بنی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں اور مشیروں کی کچھ خوبیاں بیان فرمائی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ ”کافروں سے ان کا رویہ بڑا ہی سخت ہوتا ہے۔“ (سورۂ فتح:29) میں فوراً بولا: ”بزرگوار! آپ 1400 سال پرانی باتیں کر رہے ہیں، اُس دور میں حالات اور تھے اور آج حالات اور ہیں، آج تو ساری دنیا کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، تمام مذاہب کے ماننے والوں سے مل جل کر رہنا پڑتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ کیا موجودہ مفکرین میں سے بھی کوئی آپ کا ہم خیال ہے؟“ انہوں نے فرمایا: ”تو بیٹا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ تعلقات سے کب منع فرمایا ہے، بات تو صرف اتنی سی ہے کہ اللہ نے اس دنیا میں مسلمانوں کو جو عزت عطا فرمائی ہے وہ مجروح نہ ہو۔ اور جہاں تک موجودہ مفکروں کی بات ہے تو علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کا صرف ایک شعر ذرا غور سے سن لو:
آ تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر
اور قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کا دو قومی نظریہ تو تمہیں معلوم ہی ہو گا۔“ ”مجھے آپ کی بات سمجھ آ گئی ہے۔“ میں نے جواب دیا۔
بزرگ پھر گویا ہوئے کہ ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ”آپس میں بڑے ہی نرم خو ہوتے ہیں“ (سورۂ فتح: 29) یعنی وہ جس قدر کافروں پر سخت ہوتے ہیں اسی قدر اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے نرم دل ہوتے ہیں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں، اور ان کے لیے وہی کچھ پسند کرتے ہیں جو اپنےلیے پسند کرتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ خود تو وہ بڑے بڑے بنگلوں اورعالی شان محلات میں رہیں اور عوام بیچاری چھت تک کو ترس رہی ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ کا وہ فرمان تو تم نے سنا ہی ہوگا کہ ”اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ ) سے اس بارے میں پوچھ ہو گی۔“
” آج ہماری عوام کا جو حال ہے، اس کی وہ خود بھی ذمہ دار ہے۔“ انہوں نے فرمایا۔ میں ان کی یہ بات سن کر حیران ہی رہ گیا، اور وجہ پوچھی تو فرمانے لگے: ”اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تم پر ایک وہ دور نہیں تھا کہ تم میں سے ایک ادنیٰ سا آدمی بھی خلیفہ سے پوچھ لیتا تھا کہ ”جی ہمیں جو چادریں ملی ہیں ان سے تو سوٹ نہیں بن سکا، تو پھر آپ نے کیسے پورا سوٹ بنا لیا؟“ مگر آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم حکمرانوں کی کرپشن کا جواز کچھ ان الفاظ میں دیتے ہیں کہ ”جی اگر انہوں نے کھایا ہے تو لگایا بھی تو ہے۔“ میں ان کی بات سن کر ”آپ کی بات بالکل درست ہے“ کے سوا کچھ نا کہہ سکا۔
خیر میں نے کہا کہ ”مسلمان قائدین کی تیسری خوبی کیا ہوتی ہے؟“ انہوں نے فرمایا: ”تو انہیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں۔“ (سورۂ فتح:29) یعنی وہ نماز قائم کرنے والے ہوتے ہیں، اور اپنی رعایا و عوام کے حق میں دعائیں کرتے ہیں۔“
اور ان کی چوتھی خوبی کو اللہ تعالیٰ نے ان کی نشانی بھی قرار دیا ہے، فرمایا: ”ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔“ (سورۂ فتح:29) یعنی ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان ہوتے ہیں، نا کہ ان کی شہرت کسی نامور اشتہاری مجرم کے طور پر ہوتی ہے۔“
میں نے اس بزرگ کا شکریہ ادا کیا اور اس حال میں مسجد سے باہر آ یاکہ میں بالکل مطمئن تھا۔