لاہور (ویب ڈیسک) میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر۔۔۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔۔۔ یہ شعر عمران خان کی سیاست پر پوری طرح سے صادق آتا ہے۔عمران خان کی سیاست میں بہت سے نشیب و فراز آئے انہوں نے بڑے اونچ نیچ دیکھے۔مایوسی کی اس سے زیادہ کیا انتہاء ہو سکتی ہے کہ
نامور کالم نگار اور معروف ستارہ شناس محمد یاسین وٹو اپنی تازہ ترین تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔انیس سو ستانوے کے الیکشن میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکے۔ 2002 میں انتخابات ہوئے تو پورے پاکستان سے صرف ایک سیٹ ملی۔ مگر انہوں نے مایوسی کو گناہ سمجھا اور اپنا سفر جاری رکھا۔ پارٹی میں بڑے بڑے لوگ آئے اور کئی مایوس ہو کے چلے بھی گئے۔ لوگ آتے رہے اور جاتے رہے کچھ مستقل ساتھی بن گئے۔ اس پارٹی کی منزل ایک رہی اور میرِ کارواں بھی ایک رہا۔ پارٹی کا اول و آخر مشن ،کاز اور مقصد ملک اور معاشرے میں انصاف کی اس کی روح کے مطابق کارفرمائی رہا ہے۔ انصاف کا دور دورہ اور بول بالا ہو تو ظلم و جبر کے سائے چھٹ جاتے ہیں۔ انصاف کی عملداری ہی سے ملک اور معاشرے میں مساوات کی راہ نکلتی ہے،ظلم مٹ جاتا ہے اور ترقی و خوشحالی کے دروازے وا ہونے لگتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں تنہا عمران کیا کریگا۔اکیلا عمران ہی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ انہیں ٹیم میں مرضی کی مل جائے۔ بلاشبہ ان کے ساتھ آج وہ لوگ کھڑے ہیں وہ ان کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی تکمیل کیلئے ان کو عمران خان بننا پڑیگا۔
تحریک انصاف کی حکومت کو بڑے چیلنجزکا سامناہے۔ ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایک بہترین اور کمٹڈ ٹیم کی بھی ضرورت ہے ۔ اس ٹیم کا انتخاب خود عمران خان نے کرنا ہے۔ دستیاب لاٹ میں سے وہ بہترین لوگوں کو سامنے بھی لا رہے ہیں۔مسائل کا ہمالیہ عمران خان سامنے بھی کھڑا ہے۔ خان نے کو پتہ ہے کہ کون کس عہدے کیلئے موزوں اورمناسب ہے۔ مسائل کے حل کیلئے کوئی دیدہ ور جینئس اور اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حامل لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے لوگ چاہئیں جو ایماندار اورمعاملات کو سمجھتے ہوں اور کچھ تجربہ رکھنے والے ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے۔ تاہم تجربہ کوئی اولین شرط نہیں، ایمانداری اولین شرط ہے۔ عمران خان نے اچھے لوگوں کو سامنے لانے کی کوشش کی یقینا وہ ان کے اعتماد پر پورا اتریں گے۔ انہوں نے وفاقی وزیر بنائے کچھ وزیر مملکت بنائے اور کئی کو مشیر بنایا۔ کچھ رہنمائوں نے ناک بھوں چڑھانا شروع کر دی۔ سندھ سے ایک بڑے سیاستدان نے کہا کہ وہ وزیرمملکت نہیں بنیں گے۔ کراچی کے ایک سے سیماب پا طبیعت رکھنے والے سیاستدان نے خود کو بھی بڑی وزارت کیلئے پیش کیا۔ آپ لوگ ایک مشن کی خاطر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے عہدے لینے کیلئے نہیں۔
عہدوں کی بندر بانٹ پر نظر رہی تو انصاف کی عملداری اور ظلم کے ضابطے مٹانے کی کمٹمنٹ پوری نہیں ہو سکے گی۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے بہترین دورکا آغاز کر دیا ہے۔ احتساب کے محض نعرے ہی نہیں لگے احتساب ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ بڑے بڑے ایشوز کے پر تحریک انصاف کی حکومت اورادارے خصوصی طورپر پر فوج بالکل ایک پیج پر ہے۔ یہ اس حکومت کی خوش قسمتی اور ہمارے ملک کی خوش بختی ہے کہ عدلیہ پوری طرح سے فعال ہے اور اتفاق سے حکومت اور عدلیہ کا ایجنڈا بھی ایک سا ہے۔ وہ ہے کڑا احتساب، بے لاگ اوردو ٹوک احتساب۔ قومی خانے سے لوٹی گئی پائی پائی واپس خانے میں لانے کا عزم ۔عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ہم بے لاگ اور کڑا احتساب کریں گے ۔ جن کا احتساب ہوگا وہ انتقام انتقام پکاریں گے، ان کی چیخیں نکلیں گی لیکن ہمارا سفر جاری رہے گا اور واقعی ایسا ہی نظر آرہا ہے۔گزشتہ روز انہوں نے کچھ لوگوں کو لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران خبردار کیا کہ کان کھول کر سن لوکسی کرپٹ کو چھوڑیں گے نہ این آر او ہوگا۔ جس کا احتساب کیا جاتاہے وہ انتقام انتقام کا واویلا کرتا ہے۔ ایسے میں ایک دھول سی چھا جاتی ہےجس سے اصل حقیقت تک پہنچنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ احتساب ہونے دیا جائے۔شہباز شریف کے کارناموں کو دیکھا جائے تو ایک طویل فہرست اس حوالے سے پیش کی جاسکتی ہے جب آپ بہت بڑے بہت بڑے بڑے کام کرینگے تو ان میں کچھ لغزش سے ہو سکتی ہیں، غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ غلط فہمیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ان پر بڑے بڑے چارجز لگ رہے ہیں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کے الزامات لگ رہے ہیں۔آشیانہ ہائوسنگ ، شفاف پانی کے معاملات کی بات ہورہی ہے۔ سستی روٹی سکینڈل کسی وقت سامنے آسکتا ہے۔لیپ سکیم کا آڈٹ ہو سکتا ہے۔ ایسے الزامات سے کسی بڑے سیاست دان کا کلیئر ہونا لازم ہے۔ ان کا کیس نیب میں ہے نیب تفتیش کر رہی ہے اگر شہباز شریف نے کچھ نہیں کیا ہوگا، کوئی بے ضابطگی نہیں کی ہوگی۔ وہ بالکل کلیئر ہو کر نیب سے یا عدالتوں سے باہر آئینگے۔ جس پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں سب کااسی طریقے سے احتساب ہونا چاہیے، یہ حکومت کی اپنی ساکھ کیلئے بھی بہتر ہے تاکہ انصاف کے اوپر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔شہباز شریف کی سب سے بڑی آزمائش ماڈل ٹا ؤن قتل کیس ہے۔ ہمارے ہاں روایت مضبوط ہوچکی ہے کہ بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا جائے تو انتقام کا غوغا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، غریب ناجائز پکڑا جائے تو اس کے حق میںکوئی آواز نہیں اُٹھتی۔