تحریر : زاہد محمود
اس میں شک نہیں سرمایہ داری کا سکہ معاشی نظام بن کر ایک صدی بھی چل پاتا اگر عالمی سطح پر ذہن سازی کے لئے وسیع ذرائع بروئے کار نہ لایے جاتے۔ دنیا ترقی کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئی کہ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی ایجنڈے کی اَجارہ داری قائم ہو گئی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالیاں جب دنیا بھر میں کشمکش پیدا کرنے لگی توذہن سازی کے لئے” کارپوریٹ میڈیا “کا انتخاب ہوا۔ بے شمار ملٹی نیشنل کمپنیاں بنائی گئیں، جنہیں برانڈ بنا کر مقابلے کی فضا پیدا کرنے کے لئے مارکیٹ میں اتارا گیا۔
فلم وسینما انڈسٹری میں جدت پیدا کرنے کے ساتھ ماڈلنگ میں نئے دور کا آغاز کیا گیا۔ پرتعیش آسائشی سازوسامان کی صنعت کو نمود و نمائش میں ڈھال کر سرمایہ کاری کے لئے اشیاء پیداکی جانے لگیں، اس کا یہ فائدہ ہوا ذہن سازی کا عمل تیزی سے پھیلتا گیا۔ سرمایہ داروں کو زائد منافع کے لالچ نے خصوصاََ متوجہ کیا،جس سے سرمایہ کاری میں تاریخ کے بڑے ریکارڈ قائم ہوئے۔
اس کا کمال یہ ہوا سرمایہ توتیزی سے پیدا ہونے لگا’لیکن اس کی پیداوار اورتقسیم و ترسیل کے جو غیر مساوی نام نہاداصول وضع کیے گئے، اس میں محنت کش کی محنت سے ملنے والے منافع میں جائزمعاوضے کی درجہ بندی کا کوئی قانون مقرر نہیںتھا۔ ستم یہ ہوا سرمایے پر سرمایہ دار بازی لے گئے۔ اس ذہن سازی کے لئے کارپوریٹ میڈیا نے پرکشش و فریب اخلاق باختہ مواد پر مشتمل تفریحی ساز وسامان کے منصوبے شروع کیے۔
عالمی میڈیا کا اثر و رسوخ اسی کی دہائی میں اس وقت خصوصی طور پر بڑھا جب آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے دبائو سے الیکٹرانک میڈیا کو پرائیویٹائز کیا گیا، اس سے پہلے میڈیا قومی تحویل میں ہوتا تھا۔ اس کاکردارآج کے پی ٹی وی کی طرح حکومتی کاسئہ لیسیوںسے نپے تلے پروگراموں کے ذریعے اشرافیہ کے آگے جی حضوری کرنے کی ذہن سازی تک محدود تھا۔لیکن سامراجی طاقتوں کے یرغمال بنائے جانے کے بعد اس کی آہنی گرفت نے ہماری سوچ کو ایسا قابو کیاکہ آج ہمارے گھروں میںپکوان سے لے کر باتھ سوپ تک ہر وہ چیز استعمال ہوتی ہے جس کی ذہن سازی ٹی وی پہ کی جاتی ہے۔ بظاہر تو ہم کوئی ٹاک شو کوئی حالاتِ حاضرہ پہ تبصرہ یا کوئی دلچسپی کا پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں ، یہ ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے ہمیں دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ کہیں وقفہ لے کرکسی ملٹی نیشنل برانڈ کی گھٹیا پراڈکٹ دلکش و رنگین کور میںلپٹی مسحور کن انداز میں ہمارے ذہن کو لبھا تے ہوئے متاثر کرتی گزرجاتی ہے۔
یہ آسائش و دلچسپیاں سرمایے کے معیار پر پرکھنے سے رشتوں میں بے حسی کا عنصرپیدا ہوا۔ خدمت ِخلق، اخلاقیات و احساسات کے فقدان سے نسلیں تباہ ہو نے لگیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی اور نت نئی ایجادات نے ذہن سازی کے لئے بہت سارے نئے کھلونے متعارف کرایے، لیکن بیسویں صدی کے اواخر میںکمیونیکشن کی دنیا میںجو انقلاب برپا ہوئے اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو عروج کی انتہا بلندیوںپر پہنچا دیا۔ اس سے پہلے کوئی معاشی نظام ایسا معجزہ نہ دکھا سکا، جس نے اس تیزی سے کثیر تعداد میں سرمایہ پیدا کیاہو۔ ہوش تو اس وقت اڑنے لگتے ہیں جب سرمایے کی تقسیم کے اعداد و شمارپر نظر جاتی ہے۔ دنیا کی تقریباََساڑھے سات ارب آبادی کاٹوٹل سرمایہ کچھ کمپنیوں اور چند لاکھ لوگوںکے اکائونٹس میں منتقل ہو چکا ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں دیکھیں تو حیرانی اور بڑھ جاتی ہے۔ یہاں کی لگ بھگ بیس کروڑ آبادی کے سرمایے پر چندہزار لوگ جو کہ گنے چُنے خاندان بنتے ہیں، وہ مالک ہیں۔
ایسا ذہن سازی کے بغیر کسی طور ممکن نہ تھا۔ سب سے جو خطرناک بات ہے کہ آج کی جدید ریسرچ بھی اس نظام کا متبادل کوئی معاشی نظام ابھی تک پیش نہیں کر سکی۔ گو کہ اشتراکی نظام (سوشلزم) میں مزدور اپنے حقوق تک رسائی حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر لیتے ہیں، مگر اسلام جو”اسلامی معاشی نظام”کا تصور پیش کرتا ہے اس میں زائد منافع کا کوئی اصول موجود نہیں ہے۔ یہ بات قائد اعظم بخوبی جانتے تھے، ان کی قائدانہ بصیرت نے انہیں عالمی اقتصادی صورت ِحال سرمایہ و اشیاء کی”غیر طبقاتی تقسیم”کے خطرات سے بہت پہلے آگاہ کر دیا تھا۔ پاکستان میں وہ اسلامی معاشی نظام کو لے کر تجربہ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے تھے ، جس کا اظہار بھی وہ گاہے بگاہے کرتے تھے۔ اس نظام کو کامیاب بنا کر وہ دنیا کو سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالیوں سے پاک ایک متعدل،متبادل کامیاب معاشی نظام کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔
قدرت کو شائد ابھی مزدوروں کے مزید امتحان درکار ہیں۔ بالخصوص پاکستان کی غالب محنت پیشہ اکثریت کوجن محرومیوں کا سامنا کرنا پڑا اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ قائد کے گزر جانے کے بعد اس ملک پر سیاسی سرمایہ دار جبرِ مسلسل کی طرح مسلط ہوئے۔ آج تقریباَ انہتر سال بعد بھی یہاں پرسرمایہ دار حکمران پوری دیانت داری سے اداروں کی لوٹ کھسوٹ اور سیاسی بندر بانٹ میں مگن ہیں۔ جبکہ اس ملک کے عوام غربت ،فاقہ کشی کا شکار ہو کر جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے سے بھی قاصر ہو تے جا رہے ہیں۔
آج ہمارے ملکی میڈیا میں جس طرح سے سامراجی برانڈ کی پراڈکٹ بیچنے کے لئے ذہن سازی کا عمل جاری ہے اس پر ہمارے عمائدین، مبصرین ،مدبرین اور دیگر اہلِ دانش منظم طریقے سے ہونے والی اس ذہن سازی کے خلاف بات کرتے نظر آئے ہوں؟ کبھی ملٹی نیشنل ٹیلی کمپنیز کے انعامی سکیم فراڈ کے خلاف کوئی قرارداد منظور ہوتے دیکھی گئی ہو؟ ہر ہر منٹ ان فوڈ کمپنیز کے مُضرِ صحت مشروبات و دیگر ملاوٹ ذدہ اشیاء کے نقصانات کو فوائدمیں گنواتے ٹی وی ایڈ ذہن سازی میں مصروف ہوتے ہیں۔ کیا ایسی کسی کمپنی کے خلاف کوئی کیس دیکھنے کو ملا ہو؟ دراصل ذہن سازی کے لئے یہی کمپنیاںسرمایہ لگا رہی ہوتی ہیں۔ ہمارے میڈیا کی”ریڈیمیڈ قد کاٹھ شخصیات”کو انہی سے توریٹنگ ملتی ہے۔
پاکستان میں میڈیا کا خصوصی کردار اس صدی کے آغاز میں دیکھنے کو ملا،جب یہاں چینلوں کی بہتات یکایک بڑھی۔ دیکھتے دیکھتے تین چار سال کے اندرکافی تعداد میں چینلز اورسیکنڑوں نئے پرانے چہروںکی بھرمار ہوچکی تھی،جو کہ اب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہاں سے پاکستانی عوام کی ذہن سازی کا باقاعدہ عمل شروع ہوا۔ جسے دیکھو وہ اپنے نظریات پیش کرتا نظر آنے لگا۔ دین و دانش میں ایسے نئے”ارکان و افعال”دیکھنے سننے کو ملے اس سے قبل وہ پتا نہیں کہاں اور کیوںچھپائے ہوئے تھے۔ پاکستانی عوام چونکہ میڈیا سے نئے نئے متعارف ہورہے تھے، ان کی مثبت ذہن سازی کوئی مشکل کام نہ تھا۔ گلوبل ویلج انقلاب کے بعدسوشل میڈیا ذہن سازی کے لئے سب سے بڑا پلیٹ فارم توثابت ہوا، لیکن اب یہاں پر بھی اشرافیہ کے خلاف لکھنے یا بولنے کے لئے سنسرشپ کا نفاذ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ہمارا الیکٹرانک میڈیاہے جو دو طرح سے عوام کی ذہن سازی کر رہا ہے۔ پہلے یہ انڈیا سے کلچر سازی کا مواد لے کرپاکستانی عوام کومختلف پروگرام اور ڈراموں کے ذریعے دلچسپ طریقوں سے کھلاتا ہے،اس کے بعد بین الاقوامی میڈیا اپنا سرمایہ داری کا چورن پاکستانی میڈیا کو بھیجتا ہے جسے ہمارے دیسی ناقدین، مبصرین مختلف ٹاک شوزمیں واویلا مچا کربیچتے ہیں۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ اور الیکٹرانک میڈیا اس کے سب سے بڑے ستون کا کردار ادا کر رہا ہے۔
کیا ہمارے پاس دیکھانے کو ایسا کچھ بھی نہیں بچاجس سے معاشر ے کی اخلاقی ذہن سازی ہوسکے؟ کیا حقیقی معنوںمیں آزادی کے مقصد کو سمجھنے کے لئے ذہن سازی نہیں کی جاسکتی؟ قائد کے اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی خاطر ذہن سازی کرنا میڈیا کے لئے بہت آسان ہے۔ لیکن ریٹنگ کا بھوکا میڈیا بریکنگ نیوز کی دوڑ میں آ گے نکلنے کے لئے ایسا کبھی نہیں کرے گا،کیونکہ اس نظام کی آبیاری سے ان کے اپنے گھراورخاندان بھی سیراب ہوتے ہیں۔ مگر سوچنے کے لئے اتناکافی ہے کہ کیا یہ میرے قائد کی دی ہوئی آزادی ہے؟ کیا میرے قائد کا جو نظریہ تھا یہ وہ آزادی ہے؟ قائد کے نظریے میںآزادی نظام کی تبدیلی تھی۔ معاشی و مذہبی آزادی کا خواب تھا ،جس میں قانون سب کے لئے برابر اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا سنہرا اصول تھا۔ جب تک ہم اس غلامانہ ذہن سازی کے خول سے باہر نہیںآئیں گے’ جب تک قائد کے نظریے کی پاسداری اور معاشی آزادی کے خواب کی تکمیل کے لئے ذہن سازی نہیں کی جاتی معاف کیجیے تب تک ہم حقیقی معنوں میںآزادی سے کوسوں دور ہیں۔
تحریر : زاہد محمود