تحریر : رانا اعجاز حسین
مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو اپنا مرکزی نکتہ بنایا۔ وزیراعظم نوازشریف اپنے جلسوں میں عوام سے ہاتھ اٹھوا کر پوچھتے کہ کتنے گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے’ جواب میں لوگ 18,18 گھنٹے پکارنے لگتے۔ میاں نواز شریف پھر پوچھتے کہ کیا آپ لوگ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں’ جواب میں لوگ ہاں ہاں کی گردان شروع کردیتے اور میاں صاحب انہیں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کا یقین دلاتے جس پر جلسے کے شرکاء کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کا جلسوں میں اعلان کرتے رہے ہیں۔ باقی قائدین بھی عوام کی دکھتی رگ ”لوڈشیڈنگ” ہی کو چھیڑتے۔ میاں نوازشریف عوام کو یہ بھی یقین دلاتے کہ انکے پاس اہل اور قابل لوگوں کی ٹیم موجود ہے’ تمام مسائل اقتدار میں آتے ہی حل کرنا شروع کر دینگے اور قوم جلد ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائیگی۔ مصائب و مشکلات میں گھرے عوام نے مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے دعوئوں’ وعدوں اور اعلانات پر اعتبار کیا۔ اس پارٹی سے اپنے مسائل کے حل کی امیدیں وابستہ کیں اور مئی 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن ) کا دامن ووٹوں سے بھر دیا۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی’ آج یہ جماعت اپنے اقتدار کا ایک تہائی سے زیادہ عرصہ گزار چکی ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ اپنی جگہ بدستور موجود ہے، ناقص حکمت عملی کے باعث اس میں مزید اضافے کا خدشہ بھی منڈلا رہا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں کئی پراجیکٹس کا آغاز ہوا’ مگر اب تک کوئی ایک بھی سرے سے نہ چڑھ سکا۔
کچھ دن پہلے تک وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ 2018 ء بجلی لوڈشیڈنگ کا آخری سال ہوگا ۔لیکن اب وفاقی وزارتِ پانی و بجلی کی طرف سے قومی اسمبلی کو تحریری طور پر اس امر سے آگاہ کیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بجلی کی رسد اور طلب کے درمیان سات ہزار 656 میگاواٹ کا فرق رہے گا’ حکومت نیشنل گرڈ میں 18 ہزار 34 میگاواٹ بجلی داخل کرسکے گی جبکہ طلب 25 ہزار 7 سو میگاواٹ ہوگی۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا کہ حکومت کی جانب سے 2018ء تک بجلی بحران پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا۔ انکے بقول حکومت نے بجلی کے بلوں میں چھ مختلف ٹیکس عائد کر دیئے ہیں جبکہ کوئی بھی خودمختار کمپنی سو فیصد بجلی پیدا نہیں کررہی۔ اس وقت شہری علاقوں میں چھ گھنٹے اور دیہی علاقوں میں آٹھ گھنٹے روزانہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ صنعتی علاقے لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ21 منصوبے پچاس فیصد سے کم پیداوار دے رہے ہیں اس لئے یہ بالکل ناممکن نظر آرہا ہے کہ حکومت 2018 ء تک بجلی بحران پر قابو پالے گی۔ انکے بقول 2018ء میں بجلی کی طلب 25 ہزار 790 میگاواٹ اور پیداوار 18 ہزار 34 میگاواٹ ہوگی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ موجودہ حکومت کے دور میں صرف 18 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں داخل کی گئی ہے جبکہ بجلی کے 43 میں سے 14 پراجیکٹ بند پڑے ہیں۔ مستقبل کے توانائی منصوبوں کی تفصیل بھی قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی ہے جن میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ توانائی منصوبوں کے ماسٹر پلان میں 18ویں نمبر پر ہے۔ وزارت پانی و بجلی کے ترجمان نے اگرچہ بجلی کی پیداوار اور طلب سے متعلق میڈیا رپورٹس کو بے بنیاد قرار دیا ہے جن کے بقول وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف کا تحریری جواب سیاق سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔
تاہم قومی اسمبلی کے روبرو 2018ء تک بجلی کی طلب اور پیداوار کے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں انکی بنیاد پر ہی بجلی کی طلب اور رسد کے درمیان سات ہزار 656 میگاواٹ کا فرق ظاہر ہوا ہے جبکہ خواجہ آصف کے بیان میں اس امر کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت اب تک صرف 18 میگاواٹ اضافی نیشنل گرڈ میں شامل کرپائی ہے۔ انہوں نے بجلی پیدا کرنیوالی نجی کمپنیوں کے حوالے سے جو تفصیلات اپنے تحریری بیان میں پیش کی ہیں اسکی روشنی میں 2018ء تک مزید 18 ہزار 34 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہونا ایک خواب ہی نظر آتا ہے۔ اس طرح وزارت پانی و بجلی کی جاری کردہ وضاحت اصل حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ وزیر پانی و بجلی اپنے تحریری بیان میں 2018ء تک نیشنل گرڈ میں ممکنہ طور پر داخل ہونیوالی مجموعی بجلی 25 ہزار 790 میگاواٹ بتارہے ہیں۔
جبکہ وزارت پانی و بجلی کی وضاحت میں 2018ء تک کی مجموعی بجلی 30 ہزار میگاواٹ ظاہر کی جارہی ہے۔ اگر خواجہ آصف کے بقول بجلی کے 43 میں سے 14 پراجیکٹ مکمل بند پڑے ہیں اور کام کرنیوالے 21 پراجیکٹس کی پیداوار پچاس فیصد سے بھی کم ہے تو پھر کوئی معجزہ ہی ترجمان وزارت پانی و بجلی کا 2018ء کیلئے بیان کردہ 30 ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کا دعویٰ پورا کر پائے گا۔ بجائے اسکے کہ توانائی بحران حل کے معاملہ میں حکومتی دعوئوں کی بنیاد پر قوم کو مزید بے وقوف بنایا جائے’ بہتر یہی ہے کہ اصل حقائق من و عن قوم کے سامنے رکھ دیئے جائیں اور وہ مجبوریاں بھی بتا دی جائیں جن کے باعث توانائی کے بحران کو حل کرنے کا قوم سے کیا گیا وعدہ اب تک حکومت پورا نہیں کرسکی۔
کیا اس حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے توانائی کے گھمبیر بحران پر ہی سیاست کی تھی اور وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف مینار پاکستان کی گرائونڈ میں ایک ماہ تک ٹینٹ لگا کر بیٹھے رہے تھے جو وہیں پر سرکاری اجلاسوں میں دستی پنکھا جھلتے پیپلزپارٹی کی حکومت کو کوسنے دیتے رہے تھے جبکہ بطور اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف بھی بجلی بحران کیخلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج بنے عوام کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
لوڈ شیڈنگ سے عاجز قوم نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے دعوئوں اور وعدوں پر اعتبار کیا اور 2013ء کے انتخابات میں انہیں مینڈیٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ اس وقت میاں نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے بھی پہلے ملک میں اقتصادی دھماکہ کرنے کا اعلان کیا اور اس مقصد کیلئے توانائی کا بحران اپنی حکومت کی ترجیح اول بنایا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے چین کا دورہ کرکے وہاں ایٹمی بجلی’ شمسی توانائی اور تھرمل پاور پلانٹس کے متعدد معاہدوں اور ایم اویوز پر دستخط کئے اور ملک واپس آکر قوم کو یہ مڑدہ سنایا کہ توانائی کے ان معاہدوں اور ملک میں موجود توانائی کے وسائل بشمول تھرکول اور ہائیڈل پراجیکٹس کے ذریعہ ہم پچاس ہزار میگاواٹ سے بھی زیادہ بجلی پیدا کرکے پاکستان کو بجلی برآمد کرنیوالے ممالک کی صف میں شامل کردینگے۔
میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اب تک چین کے علاوہ ترکی’ فرانس’ قطر’ کویت اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی توانائی کے حصول کے متعدد معاہدے اور ایم او یوز کرچکے ہیں مگر قوم کو بجلی کی لوڈشیڈنگ سے خلاصی کیاملنی تھی’ اب گیس کی لوڈشیڈنگ بھی بھگتنا پڑ رہی ہے ۔ اور اب کالاباغ ڈیم توانائی کے مجوزہ نئے منصوبوں کا پھر سے حصہ بنادیا گیا ہے جس سے بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ حکومت اپنے اقتدار کی مدت ختم ہونے تک اب قوم کو کالاباغ ڈیم پر سیاست میں پھر الجھائے رکھنا چاہتی ہے جس کی تعمیر کی ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت پھر مخالفت ہو گی تو حکومت توانائی کا بحران ختم نہ کر پانے کا یہ جواز پیش کردیگی کہ ہمارے مخالفین نے ہمیں کالاباغ ڈیم تعمیر ہی نہیں کرنے دیا۔
ورنہ اب تک قوم کو توانائی کے بحران سے نجات مل جاتی۔ مسلم لیگ ( ن) کی موجودہ حکومت کی اس سے بڑی نا اہلی کیا ہوگی کہ درجنوں نئے میگا پراجیکٹس کے آغاز کے باوجود موجودہ حکومت اب تک صرف 18 میگاواٹ اضافی نیشنل گرڈ میں شامل کرپائی ہے ، یہی موجودہ حکومت کی قابل ٹیم کی کارکردگی ہے۔ موجودہ حکومت کو آگاہ ہوجانا چاہئے کہ قوم اب محض طفل تسلی کی سیاست پر مطمئن نہیں ہو سکتی، خدارا عوام پاکستان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے، ملکی دیرینہ مسائل پر سیاست نہ کی جائے۔ یہ صدائے وقت ہے کہ حکومت کو اپنی تمام تر توجہ اور صلاحتیں انرجی بحران کے حل کی جانب مرکوز کرے ، تاکہ لوڈشیڈنگ سے عاجز قوم کو انرجی بحران کے عذاب سے نجات میسر آسکے۔
تحریر: رانا اعجاز حسین
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com
رابطہ نمبر:03009230033