’’دشتِ وفا‘‘ مولانا عبدالرحمانؒ صاحب کی ایسی ہے تصنیف جو اپنے عنوان، جاذب نظر اور معنویت سے پر، سر ورق کے بغیر ہی قاری کو پہلی نظرمیں متوجہ کرلیتی ہے۔ سرورق پر ایک تخیّل، جو آڑی ترچھی لکیروں سے واضح کیا گیا ہے، اس بات کی دلیل ہے کہ اندرون کتاب کے مضامین بھی اسی ذہنی تخلیق کے شاہکار ہیں۔ دراصل یہ تصنیف ان نظموں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے وقتاً فوقتاً، حالات و واقعات کے اونچ نیچ اور بیشتر ملکی مسائل کا اظہار کرتے ہوئے صفحۂ قرطاس کی زینت بنائی ہیں۔ مثلاً امریکہ بہادر، پابندی، وردی والا زندہ باد، کراچی، حق گوئی، لوڈ شیڈنگ وغیرہ۔
مولانا عبدالرحمانؒ صاحب کی نظموں کی کتاب گزشتہ کئی ہفتوں سے میرے پاس ہے، اور اس میں شامل نظموں کا مطالعہ میں کئی بار کرچکا ہوں۔ ارادہ تھا کہ ایک بار مکمل کتاب پڑھ کر رائے لکھ دوں گا جیسا کہ ہمیشہ کیا کرتا ہوں، مگر اس بار ایسا نہ ہوسکا۔ وجہ ابتدا میں تو خود میری سمجھ میں نہ آئی۔ میرے لیے کسی کی تصنیف پر تبصرہ کرنا کون سا نیا کام تھا؟ ایسا کیوں ہورہا تھا کہ میں چاہنے کے باوجود شروع ہی نہیں کر پارہا تھا۔
بہت غور کیا تو بات کھلی۔ دراصل یہ نظمیں عام ڈگر سے اتنی ہٹی ہوئی ہیں اور ان کا ٹریٹمنٹ اتنا مختلف ہے کہ اس کتاب پر عمومی فارمولے کے تحت تبصرہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کسی تفصیل میں جائے بغیر سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ مولانا مرحوم معاشرے کے سنگین حقائق پر نظمیں لکھتے، مگر ان میں نہ نعرے بازی ہے نہ بلندآہنگ احتجاج۔ نہ وہ ان برائیوں کے خاتمے کےلیے نسخے تجویز کرتے ہیں، نہ ان کی وجوہ کی فلسفیانہ انداز میں نشان دہی کرتے ہیں۔ ایک سیدھا صاف بیانیہ ہوتا ہے جس کی بنیاد ان کے بے پناہ مضبوط اور گہرے مشاہدے پر ہے؛ اور طنز کی ایک ہلکی سی لہر ہوتی ہے جو نظم پڑھنے کے بعد آپ کی روح میں کھب کر رہ جاتی ہے۔ نظم آپ بھول سکتے ہیں مگر اس کی چبھن تادیر آپ کے ساتھ رہتی ہے۔
مولاناؒ نے جو لکھا ہے، اسے زیادہ سجانے بنانے اور سنوارنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ کام ان کےلیے مشکل تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایک اختیاری فیصلہ تھا کہ جو وہ دیکھتے ہیں اسے بغیر فیصلہ ہوئے اپنے قاری تک پہنچا دیتے۔ نہ اس کی تاثیر کو لفظیات کے بناؤ سنگھار سے بڑھانے کی کوشش کرتے، نہ ہی اس کی معنویت کی وضاحت میں بلاضرورت نظم کی طوالت کو بڑھاتے۔ میرے نزدیک نظم کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ایک بھی لائن غیر ضروری نہ ہو۔ کتاب کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے کچھ یوں ہوتا ہے:
’’اے مالکِ بحر و بر خدایا
اے خالقِ خشک و تر خدایا‘‘
اس کے بعد پانچ نعتیں ہیں مگر ان سے پہلے ایک نظم ’’میزابِ رحمت کے سامنے بیٹھ کر‘‘ لکھی ہے جسے پڑھتے ہوئے بے اختیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔
طواف و استلام حجرِ اسود میں بھی کرلیتا
چمٹ کر ملتزم سے داغ عصیاں دھولیا ہوتا
مولانا ؒ کی نظمیں ’’میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں، حاصل، مزدور، کھول آنکھ ، انٹرویو، اورمچھر‘‘ پڑھیں گے تو آپ ان کی ذہانت اور باریک بینی کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ ان میں نہ کسی مظلوم کی فریاد ہے، نہ کسی پیغام کی دعوت۔ ان میں سیدھا، سچا، اور صاف اظہار ہے جو معاشرے کو آئینہ دکھاتا ہے مگر حسِ مزاح بھی خوب دکھائی دیتی ہے۔ اردو ادب میں خوبصورت کام بہت ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ ایسے فن پارے جو آپ کے ذہن کو بیدار ہونے اور سوچنے پر مجبور کریں، کم کم پڑھنے میں آتے ہیں۔ مجھے یقین ہے یہ مجموعہ اپنی انفرادیت، مواد، اور طرزِ اظہار کی بنیاد پر قبولِ عام اور تحسینِ خاص حاصل کرے گا۔