تحریر میاں نصیر احمد
زراعت کا شعبہ کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثت رکھتا ہے اور ہمارے ملک میں یہ ریڑھ کی ہڈی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے اس بات کوہمارے ملک کے ماہرین جانتے ہیں کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کیسے کمزور ہوتی جا رہی ہے ہماری فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے ہماری فی ایکڑ آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے ہماری فصلیں پیچھے کی طرف جا رہی ہیں ہمارا پانی کم ہوتا جا رہا ہے1947کے بعد ہمارے پاس جتنا پانی تھا وہ آدھا رہ چکا ہے باقی پانی بھارت نے ڈیم بنا کر ہم سے چھین لیا ہے یہاں یہ بات بہت غور طلب ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انڈیا میں فارمنگ کا کوئی جدید طریقہ ہے وہ بھی ہمارے طریقے سے ہی کاشتکاری کرتے ہیںفرق اتنا ہے کہ ان کی حکومت انہیں بہت زیادہ مرعات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ہمارے ملک میں صورت حال اس کے بر عکس ہے یہاںحکومت لوکل فارمرز کی مدد کرنے کی بجائے درآمدات پر ترجیح دے رہی ہے جس سے لو کل فارمرزکی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اب مثال ٹماٹر کی ہی لیجیے ٹماٹر خوشنما رنگت اور بہترین ذائقہ کی بدولت انتہائی مفید سبزی ہے جسے دوسری سبزیوں کے ساتھ پکانے کے علاوہ سلاد کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ٹماٹر غذائی اہمیت کے لحاظ سے منفرد حیثیت کی حامل سبزی ہے کیونکہ اس میں حیاتین اے سی ریبوفلیون، تھایامین اور معدنی نمکیات مثلاً آئرن چونا اور فاسفورس کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
ٹماٹر میں ایک خاص قسم کا مادہ لائیکوپین (Lycopen) پایا جاتا ہے جو کہ انسانی جسم سے فاسد مادوں کے اخراج کیلئے مفید ہے ٹماٹر غذائی اہمیت کی وجہ سے مختلف مصنوعات مثلاً پلپ، چٹنی، کیچپ اور پیسٹ جیسی مصنوعات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ٹماٹر کو گھریلو سطح پر بآسانی کاشت کیا جاسکتا ہے جس سے نہ صرف تازہ سبزی بلکہ کیمیائی زہروں اور سپرے کے اثرات سے پاک ٹماٹر حاصل کئے جاسکتے ہیں ہمارے ملک میں ٹماٹر کا استعمال بہت زیادہ ہوتا جارہا ہے لیکن حکومت ٹماٹر کی پیداوار پر کسانوں کو مرعات نہیں دے رہی جس سے ملک میں ٹماٹرکی پیدوار میں کمی آ رہی ہے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہم انڈیا سے ٹماٹر کی درآمد کر رہے ہیں انڈیا سے ٹماٹر کی لگاتار درآمد نے لوکل زمینداروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے انتہائی سستے داموں ٹماٹر کی فروخت دیکھ کر کاشتکارٹماٹر لگانے کی ہمت نہیں کر سکے گا یوں کروڑوں روپے کا زر مبادلہ انڈیا کے پاس زرعی اجناس کی مد میں چلا جائے گا اور اگلے سال یہ رقم صرف ٹماٹر کی مد میں اربوں روپے میں ہو گی حکوت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
حکومت کی جانب سے بھارت سے ٹماٹر در آمد کر نے کے باعث سندھ اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں مقامی ٹماٹر کی ایک بار پھر بے قدری ہو رہی ہے اور مقامی اعلیٰ کوالٹی کے ٹماٹرکے مقابلے میں بھارت کے ہلکی کوالٹی کے ٹماٹرمارکیٹ پر چھا گئے ہیں بھارت سے ٹماٹر کی در آمد کے باعث سندھ اور پنجاب کے سینکڑوں کاشت کار اپنے ٹماٹر فروخت کر نے کے لیے منڈیوں کے دھکے کھانے پر مجبور ہو ہیں جبکہ آڑھتیوں نے اپنے گودام اور دکانیں بھارتی ٹماٹر سے بھر لیے ہیں۔
پاکستان کے مقامی اعلی ذائقے کے حامل ٹماٹر کے مقابلے میں کم ذائقے کے حامل بھارتی ٹماٹر کی خریدوفروخت سے بعض بڑے تاجروں اور آڑھتیوں کو بہت منافع ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مقامی ٹماٹر کی بے قدری کر کے بھارتی ٹماٹر کو فوقیت دی جارہی ہے اور بڑے آڑھتی چھوٹے تاجروں پر دباؤڈال کر بھارتی ٹماٹر فروخت کروا رہے ہیں ،سندھ اورپنجاب کی دیگر منڈیوں میں مقامی ٹماٹر کا 18 کلو کا بیگ200روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ ٹماٹر کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ کھیت میں چنائی سے لے کرمنڈی تک ٹماٹر پہنچانے کے لیے فی بیگ پر 120 س روپے کا خرچ آتا ہے ،اس طرح بیگ پر کاشت کار کو 80 روپے ملتے ہیں جبکہ ٹماٹر کی تیاری پر آنے والی لاگت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس طرح کاشت کاروں کو فی بیگ پر 150 تا 200 روپے نقصان ہو رہا ہے بھارت سے ٹماٹر در آمد کر نے سے قبل کاشت کاروں کو اتنے نرخ مل رہے تھے کہ انہیں نقصان نہیں ہو رہا تھا جب کہ عوام کو بھی اعلیٰ کوالٹی کے ٹماٹر کھانے کو مل رہے تھے مگر وفاقی حکومت نے چند افراد کے مفاد کی خاطر ملکی زراعت کو نقصان پہنچا یا ہے اگر وفاقی حکومت نے پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو ملکی زراعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی رواں سال میں بھی کاشتکار بے شمار حکومتی بے مروتیوں زرعی مداخل کی عدم دستیابی اور مہنگے داموں دستیابی، جعلی کھادوں اور زہروں کی پریشانیوں اور روز افزوں آسمان کو چھوتی مہنگائی پیٹرول بجلی ڈیزل کے باوجودبھی ہر وقت جہد مسلسل میں جتا ہوا ہے۔اور اپنے ملک کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کو مسلسل سہارا دیے ہوئے ہے اگر حکومت نے پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو ملکی زراعت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی ہماری گورنمنٹ کے فیصلے بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے یک دم بیٹھے بیٹھے کابینہ نے فیصلہ کیا کہ انڈیا ہر ٹریڈ میںہمارا سب سے بہترین کاروباری ساتھی ہو گااسی طرح یورپی یونین فیصلہ کرئے یا ہماری گورنمنٹ یہ فیصلہ کر لے کہ ہم نے یورپی یونین کو جو سبزیاں سپلائی کرنی ہیں اس میں ہم ہر جگہ فارمر کو سہولت دیں گے۔
اس کے لیے گورنمنٹ کارگو پلین دے گی یا کارگو کے ریٹ بہت کم کر دے گی ہمارے ملک میں لوکل ضرورت کے لیے جتنی سبزی پیدا کی جا رہی ہے وہ کافی ہے ہمیں گورنمنٹ اور اس کے ادارے رسائی فراہم نہیں کر رہے ہیں اگر وہ ہمیں یورپ تک سبزیوں کی فراہمی کی رسائی دے دیں ٹیکس اٹھا دیں اور صرف ہماری پالیسیوں کو نرم کر دیں۔تو اتنا بڑا سیکٹر کھل جائے گا جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہے۔ہم جتنے پیسوں کا باہر سے پیٹرول اور چیزیں درآمد کرتے ہیں ان سے کئی گنا زرعی اجناس برآمف کر کے زرمبادلہ کما سکتے ہیںکوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس کی برآمدات اس کی درآمدات سے زیادہ نہ ہوجائے جس سے اس ملک کی زر کی قدر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور بیرونی وصیولیوں کا حجم بڑھتا جاتا ہے ملک ترقی کی رہ پر کامزن ہوجاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت ملک میں زرعی شعبہ کی ترقی کے لیے فارمرز کو مرعات دے اور زرعی اجناس کی بر آمدپر ٹیکس چھوٹ اور نرم پالیساں مرتب دے جس سے چھوٹے بڑے تمام فارمرز مستفید ہوںاور باقی ملکوں کی طرح ہمارا ملک بھی ترقی کی رہ پر کامزن ہو۔
تحریر میاں نصیر احمد