اسلام آباد (خصوصی رپورٹ .اصغر علی مبارک سے ) کامن ویلتھ گیمزگولڈ کوسٹ آسٹریلیا میں شرکت کیلئے پاکستانی دستہ کی آسٹریلیا کیلئے روانگی گزشتہ رات مکمل ھو گئ ھے کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان سے 90 رکنی دستہ حصہ لے گا، جس میں 32 آفیشلز بھی شامل ہیں۔ آسٹریلیا کی ہائی کمشنر، مارگریٹ ایڈمسن نے آ سٹریلوی ہائی کمشن اسلام آباد پر(ایکس ایکس آئی) کامن ویلتھ گیمزگولڈ کوسٹ آسٹریلیا میں شرکت کرنے والے پاکستانی دستے میں شامل حکام ، کھلاڑیوں) اورور طالب علم سفیروں دیگر کو پر جوش طریقہ سے خدا حافظ کہنے کیلئے الود اعی تقریب کا انعقاد کیاتھا ،
پاکستانی دستہ کے بیشتر ارکان اپنے اپنے شہروں پہلے ہی آسٹریلیا کی جانب محو پرواز ھو چکے تھے تاہم باکسروں ،اتھلیٹس ،سکوائش اور چند دیگر کھیلوں کے پاکستانی کھلاڑی وقت مقررہ پر ہائی کمشنر، مارگریٹ ایڈمسن رہائش گاہ پر پہنچے تو انکو ایک طویل وقت تک اندر نہ جانے دیا گیا پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ، پاکستان سپورٹس بورڈ کےپاکستانی دستے میں شامل حکام ، کھلاڑیوں کو اس وقت سخت ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں یہ کہہ کر روک دیا گیا ھم کو پاکستانی دستے کی دعوت دینے کی کوئی اطلاع نہیں کوئی آیا تو پوچھ کر بتایا جاۓ گا ،اس پر سب مہمان پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ،گرمی کے موسم روڈ کھڑ ی واحد پاکستانی خاتون اولمپئین کے قریب دیگر خواتین کھلاڑی بھی انتظار کر رھی تھیں کہ مزید چند خوا تین وہاں پہنچ گئی ،پاکستان سپورٹس بورڈ کے ایک اعلی افسر سید حبیب شاہ انتظار کرنے والوں کی قطار میں موجود تھے ،اس صورت حال پر راقم الحروف نے ہائی کمشنر، مارگریٹ ایڈمسن رہائش گاہ پر تعینات سیکورٹی عملے سے رابطہ کرکے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر باقاعدہ احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ ہائی کمشن کے زمہ دا روں کو آگاہ کیا جاۓ میرے اس اخلاق سے بھرپور احتجاج پر ایک پاکستانی زبان بولنے والے آفیسر نے شیشے پار سے سپیکر پر بات کی اور بتایا کہ یہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ بیس کروڑ عوام میں سے منتخب ہوکر کامن ویلتھ گیمزگولڈ کوسٹ آسٹریلیا میں شرکت کیلئے جانے والے پاکستانی دستے ارکان ھیں جو ہائی کمشنر، مارگریٹ ایڈمسن کی دعوت پر آے ھیں کم از کم دروازے کے ساتھ ہی پاکستانی خاتون کھلاڑیوں بٹھایا جاۓ جو روڈ پر گزرنے والی کسی گا ڑی سے ٹکرا کر حادثے کا شکار ھو سکتی ھیں ،
جس پر مو صوف نے فرمایا کہ سیکو رٹی اسٹاف کو لسٹ آنے پر ہی ایسا ممکن ھے ،اس پر ان سے پھر مطالبہ دھرایا گیا کہ میزبانی کے آداب کو محلوظ خاطر رکھتے ہووے ہائی کمشن کے زمہ دا روں کو آگاہ کیا جاۓ”ہمارے اصلی ہیرو یہ ہی ھیں جو بیس کروڑ عوام میں سے منتخب ہوکر کامن ویلتھ گیمزگولڈ کوسٹ آسٹریلیا جارھے ھیں ”سفر کے آغاز پر یہ درست اقدام نہیں ،،ذہنی طور پر یہ کیا تاثر لیکر جائیں گے ” آسٹریلیا میں کیا سیکو رٹی کے نام ایسا ھی ھوتا ہوگا ”وغیرہ وغیرہ اس کے راقم الحروف نے ہائی کمشن کے ایک طرف ساۓ میں کھڑا ہونے کیلیے میڈیا کے دوستوں کو جگہ دینے کی درخواست کی جو قبول کر لی گئی ”اس واقعہ کو” سلفی ”میں بھی محفوظ کر لیا گیا تاکہ گوروں کے اخلاقیات کا درس دینے والے دوستوں کو پاکستان کی سرزمین پر پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر باقاعدہ ثبوت کے ساتھ انکو بتا سکیں
”اب ہم پاکستانی ہیں اور آزاد بھی ”کسی گورے ملک کی کالونی نہیں” کم و بیش نصف گھنٹے بعد ایک پاکستانی خاتون نمودار جس انہوں نے آتے ہی کہا سب لوگ ھٹ جائیں جنکا نام لونگی وو ہی اندر جاسکیں گے ”جس پر ان سے درخوا ست کی گئی ”لیڈیز فرسٹ ”کا اصول اپنایا جاۓ ”جس پر تمام خوا تین تشکرانہ انداز میں میرے اس جذبے کو سراہا ،اس کے بعد میری درخوا ست کو شرف قبولیت ملی کہ کامن ویلتھ گیمزگولڈ کوسٹ آسٹریلیا میں شرکت کیلئے جانے والے پاکستانی دستے ارکان کو اندر جانے کے لۓ انتظار کی سولی پر لٹکے ھوۓ انکو جانے دیا جاۓ ، ہائی کمشنرمارگریٹ ایڈمسن رہائش گاہ پر تعینات سیکورٹی کے تین مراحل سے گزرنے کے بعد پاکستانی کلر میں ملبوس کھلاڑیوں کو اندر جانے دیا گیا ،دلچسپ حقیت یہ کامن ویلتھ گیمزگولڈ کوسٹ آسٹریلیا میں شرکت کیلئے جانے والے پاکستانی دستے ارکان کو ویلکم کرنے والا کوئی موجود نہ تھا کچھ دیر ایک پاکستانی نژاد خاتون آئیں جنہوں نے میڈیا کے دوستوں سے بات چیت شروع کی اس دوران پاکستانی دستے ارکان ایک جانب بیٹھ گے .گرمی کی شدت اور منٹوں دھوپ میں انتظار کی وجہ سے سب ہانپ رھے ،ایک ویٹر کو دیکھا تو راقم الحروف نے سب کو پانی کولڈ ڈرنک پیش کرنے کا مطالبہ کیا ،ایسا معلوم ھوتا تھا ،
پاکستانی دستے ارکان کو الودع کرنے کی تقریب عجلت میں کی گئی ورنہ اتنی مس منجمنٹ کبھی اس لیول کی تقریب میں دیکھنےکو کبھی نہی نظر آئ ، تقریب میں مس منجمنٹ کا یہ عالم تھا ،”سموسوں کو لیکر آنے والے ویٹر نے تمام کھلاڑیوں اور آ فیشل کو پہلے ایک ٹشو پیپر دیا اور اس پر سموسہ رکھ کر کیچپ ڈالنے لگا تو سکواش خاتون پلیئر نے اسے سفارتی آداب اور کینگروز کی تہذیب سمجھتے ہووے بدل نخواستہ قبول کر لیا ”سموسہ گرم ہونے پر انہوں نے اسے ٹیبل رکھ دیا ”اس صورت حال پر مجھ سے رھا نہ گیا اور ویٹر کو پاس بلا کے پیار سے پوچھا ”کیا ہائی کمشنر، رہائش گاہ پر مہمانوں کے لیے کوئی پلیٹ بھی نہیں ھے ”یہ کھلاڑی پاکستان کے سفیر ھیں ”جسکے بعد دیگر نے بھی میری تائید کی جس چند چھوٹی پلٹیں آگئی ”اس دوران میں کہلاڑیوں سے کہا ایسا کسی گاؤں میں بھی نہیں ھوتا ”خیر اس مس منجمنٹ کا شکار اگر کوئی اور ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی ”کھلاڑی ملک کے سفیر ہوتے ھیں جو قوموں میں ملک و قوم کا پرچم بلند کرنے کےلئے سر دھڑ بازی لگا دیتے ھیں ،میں سوچ رہا تھا اگر کوئی کرکٹر ہوتا تو اسکا استقبال کرنے ہائی کمشنر مرکزی دروازے پر موجود ہوتی ،میرے ذھن میں آسٹریلوی قوم کا امیج کھیلوں اور کھلاڑیوں سے بھرپور پیار کرنے والی قوم کا تھا ،مگر اب نہیں ھے
جنوبی افریقه میں بال ٹیمپرنگ تنازعہ نے آسٹریلوی قوم کا امیج خراب کر دیا ھے دنیا کو اخلاقیات کا لیکچر دینے والے اب بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں بال ٹیمپرنگ کی ضرورت عام طور پر گیند کو زیادہ سوئنگ کرانے کے لیے پڑتی ہے اور یہ بحث الزامات اور دفاع میں الجھتے ہوئے کبھی ریورس سوئنگ کے آرٹ پر ختم ہوتی ہے تو کبھی چند چہرے ایسے بھی نظر آجاتے ہیں جو گیند کی شکل تبدیل کرتے ہوئے گرفت میں آجاتے ہیں اور مجرم قرار دیئے جاتے ہیں پاکستانی کرکٹر ز پر سب سے زیادہ بال ٹیمپرنگ کے الزامات لگے جس میں بیشتر سچ ثابت نہ ہوسکے سابق کپتان عمران خان انگریز کرکٹرز ای این بوتھم اور ایلن لیمب کو عدالت میں لے گئے تھے ۔عمران خان نے وہ مقدمہ جیتا تھا لیکن بال ٹمپرنگ تنازعہ کا نقطۂ عروج سال دو ہزار چھ کی سیریز کا اوول ٹیسٹ تھا جس میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر نے پاکستانی ٹیم پر بال ٹیمپرنگ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے گیند تبدیل کردی اور قوانین کے مطابق پنالٹی کے پانچ رنز بھی دے دیئے۔
پاکستانی ٹیم جس کے کپتان انضمام الحق تھے احتجاج کے طور پر وقفے کے بعد میدان میں نہیں آئی اورآسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر نے انگلینڈ کو فاتح قراردے دیا۔بعدازاں بال ٹیمپرنگ تنازعے کی سماعت آئی سی سی چیف میچ ریفری رنجن مدوگالے نے کی اور پاکستانی ٹیم کو بال ٹیمپرنگ کے الزام سے بری کردیا گیا۔اس فیصلے کو پاکستانی کرکٹ کی اخلاقی جیت قرار دیا گیا جان لیور سے شروع ہوئی یہ کہانی آسٹریلوی ٹیم تک آتے آتے بڑی ہنگامہ خیز اور متنازعہ ہے کیونکہ کرکٹ کے قوانین گیند کی شکل تبدیل کرکے سورما بننے کی اجازت نہیں دیتے اور یہ عمل جنٹلمین کھیل کے لیے اتنا ہی ناپسندیدہ ہے جتنا میچ فکسنگ یا پھر ڈوپنگ۔
آسٹریلوی ہائی کمشن میں بھی ڈوپنگ اور بال ٹیمپرنگ کی بازگشت سنائی دی جس پر راقم الحر وف نے دستے کے ہمراہ موجود ڈاکٹر وقار سے بات چیت بھی کی جنکا کہنا تھا ”کھلاڑیوں کو کھیلوں میں ڈوپنگ ٹیسٹ سے آگاہ کر دیا ھے”ھمارے تمام کھلاڑی ملک وقوم کے وقار کو ٹھیس نہیں پچا ئیں گےابھی اس موضو ع پر بات چیت جاری تھی کہ ہائی کمشنرمادام مارگریٹ ایڈمسن جلوہ افروز ہوئیں جنکا روایت سے ھٹ کر پر تپاک انداز میں استقبال مہمانوں نے کیا جس کے بعد بتایا گیا کہ آسٹریلیا میں کامن ویلتھ گیمز کے مقابلے میں گولڈ کوسٹ، آسٹریلیا میں 4 سے 15 اپریل 2018.تک ہونگے آسٹریلیا کی ہائی کمشنر، مارگریٹ ایڈمسن نےدو پاکستانی طالب علموں اور اساتذہ کی ثقافتی واقفیت کے پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے چیک بھی پیش کئے جو گولڈ کوسٹ دولت مشتر کہ کھیلوں کے دوران دولت مشترکہ ممالک کے دیگر طالب علمو ں کے ساتھ موجود ہونگے ،کامن ویلتھ گیمز فیڈریشن نے فیصلہ کیا تھا ہے کہ سنہ 2018 کے دولت مشتر کہ کھیلوں /کامن ویلتھ گمیز آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ میں منعقد ہوں گے۔ان کھیلوں کی میزبانی کے لیے سری لنکا کے شہر ہمبنٹوٹا اور گولڈ کوسٹ اہم دعویدار تھے۔گولڈ کوسٹ آسٹریلیا کی ریاست کوئنزلینڈ کا اہم شہر ہے۔میزبانی سونپنے کے اجلاس میں شریک ممالک میں سے تینتالیس نےگولڈ کوسٹ کو جبکہ ستائیس نے ہمبنٹوٹا سرلنکا کو ووٹ دیا تھا ۔کامن ویلتھ گیمز کی اسّی برس کی تاریخ میں آسٹریلیا چار بار ان کھیلوں کی میزبانی کرچکاھے .۔کامن ویلتھ گیمز 4 سے 15 اپریل تک آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ میں منعقد ہوں گے
کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی 90 رکنی دستہ میں بیڈمنٹن ٹیم 2 لڑکیوں اور 2 لڑکوں پر مشتمل ھے جس میں ماہ حور شہزاد، پلوشہ بشیر، حافظ عرفان اور مراد علی انفرادی اور ٹیم ایونٹ میں حصہ لیں گے۔ پاکستان ویٹ لفٹنگ کےکھلاڑیوں میں محمد نوح 105 کلو گرام ،ابو سفیان 69 کلوگرام،طلحہ طالب 62 کلوگرام ،عثمان امجد راٹھور 94 کلوگرام اور عبداللہ غفور 56 کلوگرام کیٹگری میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ کامن ویلتھ گیمز کے ٹیبل ٹینس ایونٹ کیلئے ٹیم میں رمیض ، خواجہ فہد ، کلثوم اور فاطمہ کو منتخب کیا گیا ہےکامن ویلتھ گیمز میں 6پہلوان پاکستان کی نمائندگی کریں گے جس میں محمدبلال، محمدانعام، عبدالوہاب، محمداسد، محمدعمیر اور طیب رضا شامل ہیں۔کامن ویلتھ گیمز میں اب تک پاکستانی پہلوان 20 گولڈ سمیت 39 میڈلز جیت چکے ہیں۔ کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کیلئے پاکستان ہاکی ٹیم ہیڈ کوچ رویلمنٹ اولٹمنس ,اسسٹنٹ کوچ محمد ثقلین کھلاڑیوں میں کپتان رضوان سینئر,وائس کپتان عماد شکیل بٹ,توثیق ارشد,تصور عباس,ابوبکر محمود,محمد عرفان جونیئر,شفقت رسول,دلبر,عتیق ارشد,علی شان,ارسلان قادر اور رانا سہیل شامل ہیں پاکستان اپنا پہلا میچ ویلز کے خلاف پانچ اپریل کو کھیلے گا. آسٹریلیا میں شیڈول کامن ویلتھ گیمز میں90رکنی قومی دستہ ملک کی نمائندگی کررہا ھے جس میں 10خواتین سمیت 58کھلاڑی میڈلز کی دوڑ میں حصہ لیں گے جبکہ دستے کے ساتھ 32آفیشلز بھی کینگروز کے دیس جاچکے ھیں ۔سب سے بڑی ٹیم ہاکی کی ہے، جس کی تعداد 24 ہے۔ بیڈمنٹن میں چار کھلاڑی اور دو آفیشلز، دوڑ کے مقابلوں میں 2 اتھلیٹس اور ایک آفیشل، 6 رکنی باکسنگ ٹیم میں 4 کھلاڑی اور دو آفیشلز، 9 رکنی شوٹنگ ٹیم میں دو آفیشلز 4 مرد اور 2 خواتین کھلاڑی شامل ہیں۔2 مرد اور 2 خواتین اور 2 ہی آفیشلز پر مشتمل 6 رکنی دستہ سکواش کے محاذ پر ہنر آزمائے گا۔ 3 رکنی سوئمنگ ٹیم ایک آفیشل کے ہمراہ جبکہ 4 رکنی ٹیم، 2 آفیشلز کے ہمراہ ٹیبل ٹینس کے مقابلوں میں شرکت کرے گی۔ 7 کھلاڑی اور 2 آفیشلز ویٹ لفٹنگ ٹیم میں شامل ہیں۔ 6 پہلوان اور 2 آفیشلز ریسلنگ ٹیم میں شامل ھیں ،