راولپنڈی(ویب ڈیسک ) دہشت گردی کےخلاف جنگ میں مانسہرہ کے میجر واصف حسین شاہ کا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا جنہوں نے دتہ خیل میں چار سو دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جام شہادت نوش کیا۔مانسہرہ کے نواحی علاقے شیخ آباد کے رہائشی میجر واصف حسین شاہ 15اکتوبر 2014کو جنوبی وزیرستان کے علاقے
دتہ خیل میں 4 ساتھیوں کے ہمراہ 400 دہشت گردوں سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہوئے ، اُن کی شجاعت پر انہیں ستارہ بسالت سے نوازا گیا۔ ان کے والد ارشاد حسین شاہ کا کہنا ہے کہ بحیثیت انسان اولاد کا دکھ ضرور ہوتا ہےمگر میرے بیٹےنے جو کارنامہ پاکستان کے لئے،اس ملک کے عوام کے لئے اور امن کے لئے سر انجام دیا ہے میں اسےسلیوٹ کرتا ہوں۔میجر واصف کی شجاعت کے اعتراف میں بیدڑہ روڈ کو ان کے نام سے منسوب کردیا گیا ہے۔میجر واصف کی یادوں کو سینے سے لگائے والدہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد شہید بیٹے کی موجودگی کو بار بار محسوس کرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اللہ کے پاس ہےبہت خوش ہے، میری بچی کے خواب میں آیا اور کہا امی جان کو بولیں پریشان نہ ہوں میں انکے پاس ہوں اور میں نے جو کام کیا ہے انکی اور والد کی عزت کے لئے کیا ہے۔میجر واصف اور ان جیسے سیکڑوں جوانوں کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان کے فرزند ارض پاک پر جان قربان کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔پاک فوج کے جوان اپنی بہادری اور صلاحیتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔یہ جذبہ شہادت ہی ہے
جو پاک فوج کو دنیا کی دیگر افواج سے ممتاز بناتا ہے۔یہ بہادر نوجوان ملک کی بقاء کے لئے اپنی زندگیاں دے کر باقی قوم کی زندگی کو یقینی بناتے ہیں۔ شاعر نے بالکل ٹھیک کہا ہے: شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہےانہیں لازوال قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان مجاہدوں کو شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز کرتا ہے۔آئیے آپ کو ایسے نوجوانوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کردیں۔کیپٹن سلمان سرورشہیدلاہور سے تعلق رکھنے والے سلمان سرور نے میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا لیکن انہوں نے پاک فوج میں جانے کو فوقیت دی۔انہوں نے 115 L/Cسے پاس آؤٹ کیا اور بہاولپور میں 42لانسرز آرمرڈ یونٹ کاحصہ رہے۔اپنے لوگوں میں وہ سب سے بہادر اور نڈر آفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے جس کی وجہ سے انہیں چیئرمین ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کا اے ڈی سی لگایا گیا جہاں انہوں نے اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔14مئی 2013ء کو ڈیوٹی کے دوران انہیں سینے پر تین گولیاں لگیں جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے ۔اپنے زخموں کے باوجودا نہوں نے ساتھی فوجیوں کی مدد جاری رکھی۔انہیں آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔
ان کی عمر 27سال تھی۔کیپٹن منان الحسن شہیدانتہائی بہادر اور نڈر نوجوان نے 26سال کی عمر میں شہادت پائی۔انہیں مہسود سکاؤٹس میں 27دسمبر 2011ء کو بطور ’غازی آفیسر‘تعینات کیا گیاتھا ۔اپنی قوم کی عزت اور توقیر کے لئے انہوں نے بہادری کے ساتھ دشمن کا سامنا کیا۔اپنے مختصر سے فوجی کرئیر میں بڑے آپریشنز میں حصہ لیا جن میں میراسراور بیا درغلام شامل ہیں۔انہوں نے ایک جھڑپ کے دوران دوبدو لڑائی میں چھ دہشت گردوں کو جہنم بھی واصل کیا۔مارچ2012ء کو انہیں ایک خصوسی ٹاسک دیا گیاجس میں انہیں دہشت گردوں کی کچھار میں ایکشن کرنا تھا اور انہوں نے شولا بار،علم گودر اور سپن قدر چوک میں کامیابی سے ڈیوٹیاں سرانجام دیں۔28جون کو جب فوجی دستہ ایک ٹارگٹ کو اٹھانے کے لئے جمرود کی طرف مشن پر روانہ ہوا توراستے میں ایک ڈیوائس کی مدد سے دھماکہ کیا گیا جس میں کیپٹن منان اور ان کے سات ساتھی شہید ہوگئے۔کیپٹن سلمان فاروق لودھی شہیدگریجویشن کے بعد کیپٹن سلمان کو آرمی ائیر ڈیفنس میں تعینات کیا گیالیکن اپنی مہم جوطبیعت کی وجہ سے انہوں نے 2003ء میں ایس ایس جی جوائن کرلی۔انہیں اپنی بہادری کی بدولت پہلا ایوارڈجنوبی وزیرستان میں کامیابی سے ڈیوٹی دیتے ہوئے ملا۔انہیں ’قرار حیدری‘ میں تعینات کیا گیا اور ’المیزان آپریشن‘میں کامیابی کی بدولت انہیں 2004ء میں ’تمغہ بسالت‘دیا گیا۔
انہوں نے لال مسجد آپریشن میں ڈیوٹی کے دوران 10جولائی 2007ء کو شہادت پائی۔شہادت کے وقت ان کی عمر30سال تھی جبکہ ان کا پہلا بیٹا ان کی شہادت کے چار ماہ بعدپیدا ہوا۔عظیم ہے وہ ماں جس نے ایسے بہادر بیٹے کو جنم دیا۔کیپٹن نوید خان وزیرشہیدیہ 25سال کی عمرمیں 8اپریل2013ء کو اورکزئی ایجنسی میں ڈیوٹی دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ان کا تعلق پنجاب رجمنٹ سے تھا۔اپنی شہادت سے دوروز قبل وہ میجر کے امتحان میں کامیاب ہوئے تھے۔وادی تیراہ میںآپریشن کے دوران انہیں گولی لگی جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوئے اور14مارچ کو انہیں سی ایم ایچ پشاور میں داخل کیا گیا۔ان کا پہلا آپریشن کامیاب رہا لیکن دوسرے آپریشن میں انہیں ہوش نہ آیا اور8اپریل کو وہ شہید ہوگئے۔اپنی شہادت سے قبل جب انہوں نے اپنے گھر کا وزٹ کیا تو ان کے عزیزوں کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہورہا تھا جیسے یہ ان کا آخری دورہ ہے اور ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔کیپٹن طارق جمال شہید14اگست 2012ء کو اورکزئی ایجنسی میں آپریشن کے دوران کیپٹن طارق شدید زخمی ہوئے اور انہیں سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیاجہاں وہ دو ہفتے زیر علاج رہنے کے بعد 29اگست 2012ء کو شہید ہوئے۔انہیں ملتان میں دفن کیا گیا۔کیپٹن بلال ظفر شہیدانہوں نے اپنے آباء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 2001ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔
انہوں نے 2003ء میں بلوچ رجمنٹ جوائن کی اور17مئی 2009ء کو 27سال کی عمر میں سوات میں شہادت پائی۔انہوں نے سوات آپریشن میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور ایک اہم شاہراہ پچھور روڈ کو دہشت گردوں کے کنٹرول سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔اسی روڈ کی وجہ سے پاک فوج کے لئے سوات آپریشن کا راستہ ہموار ہوا۔اپنی شہادت سے قبل انہوں نے اپنے دوست کیپٹن راحیل کوکہا تھا کہ اگر وہ شہید ہوجائیں تو انہیں پاکستانی پرچم میں دفنایا جائے۔وہ اقوام متحدہ کے امن دستے میں بھی شامل رہے۔لیفٹیننٹ سید یاسر عباس 1986ء میں پیداہوئے اور پاک نیوی میں وہ ائیروناٹیکل انجینیئر تھے ۔ 22مئی 2011ء کو مہران بیس حملے کے وقت وہ آفیسر آن ڈیوٹی تھے اور مہران بیس حملہ میں نیوی کے پہلے شہید تھے۔شہادت کے وقت ان کی عمر24سال تھی۔حملے کے وقت انہوں نے بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیااور دشمن کے عزائم ناکام بناتے ہوئے سینے پر تین گولیاں کھائیں لیکن بہادری سے لڑتے رہے۔بیس پر موجود قیمتی قومی اثاثوں (طیاروں)کی حفاظت انہوں نے یقینی بنائی ۔دہشت گردوں نے ان پر گولیاں برسا دیں اور ایک گولی ان کے سینے پر لگی لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہ کی اور ایک دہشت گرد کو جہنم واصل کیا،دہشت گردوں نے پھر ان پر گولیاں چلائیں اور انہیں دوسری گولی بھی سینے میں لگی۔ایسے وقت میں اکثر لوگوں کاحوصلہ جواب دے جاتا ہے لیکن بہادر یاسر نے ایسا کوئی ردعمل نہ دیا اور بے جگری سے لڑتے رہے اور بالآخر انہیں تیسری گولی بھی سینے پر لگی جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر گئے اور شہادت حاصل کی۔