تعلیم کیا ہے؟ تعلیم ایک ایسا شوق، ایک ایسا نشہ ہے جو اگر کسی انسان کو لگ جائے تو بس پھر وہ کائنات کے رازوں کو جاننے میں لگ جاتا ہے۔ تعلیم کو ہمارے مذہب میں بھی بہت اہمیت دی گئی ہے، یہ تعلیم ہی ہے جس نے ہمیں اسلام جیسا دین پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق بخشی۔ علم دینی ہو یا دنیاوی، انسان کو اپنے رب سے قریب کردیتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
یہ تو وہ باتیں ہیں جو ہم اکثر سنتے رہتے ہیں، لیکن بعض وہ باتيں بھی ہیں جنہیں سن کر ہم ان سنی کر دیتے ہیں، دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں یا شاید دیکھنا اور سننا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارے اردگرد بہت سی کہانیاں بکھری پڑی ہیں جن پر توجہ دیں تو زندگی گزارنے کا سلیقہ آجائے۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ لڑکیاں جونہی میٹرک کا امتحان پاس کرتی ہیں، والدین کو فوراً ان کی شادی کی فکر لگ جاتی ہے۔ یہ فکر کرنا والدین کےلیے بجا ہے مگر کیا بچیوں کو تعلیم سے محروم کردینا ان کے بنیادی حق پر ڈاکا نہیں؟ ہم اس پہلو سے کیوں نہیں سوچتے کہ اس کے نصیب میں آگے کیا کچھ ہوسکتا ہے؟ ہم اسے کم از کم اس قابل تو بنائیں کہ وہ زمانے کی سختی، دھوپ اور مشکلات کا سامنا کرسکے، معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے، اس کی اپنی بھی کوئی پہچان ہو۔ یہ معاملہ صرف لڑکیوں تک محدود نہیں، ہمارے معاشرے میں تعلیم کا مسئلہ لڑکوں کے ساتھ بھی درپیش ہے۔ یہ تعلیم سے دوری ہی کا نتیجہ ہے کہ جرائم کی شرح میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
میرے اس بلاگ کا مقصد آپ کو تعلیم کے فوائد پر لیکچر دینا نہیں بلکہ آج میں آپ کا تعارف ایک ایسی خاتون سے کروانا چاہتی ہوں جن سے میں ذاتی طور پر بہت متاثر ہوئی ہوں۔ میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی طالبہ ہوں۔ جب میں اپنی پہلی کلاس میں حاضر ہوئی تو وہاں نئے نئے چہرے نظر آئے، انہی میں ایک چہرہ تحسین فاطمہ کا تھا جو ہم نوجوانوں کے مقابلے میں خاصی بڑی تھیں، اس کے باوجود ان کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ یا ملال کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ وہ بہت اطمینان اور اعتماد کے ساتھ بیٹھی تھیں۔
ایک پل کےلیے میرے دماغ میں اسی دقیانوسی سوچ نے جنم لیا کہ اس عمر میں تعلیم؟ کیا یہ ہمارے ساتھ گھل مل پائیں گی؟ شاید یہ زمانے کی جدت اور نئے تقاضوں سے بھی آشنا نہ ہوں۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا، مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ ہم سب میں سب سے زیادہ پڑھنے کی شوقین ہیں۔ انہیں اردو زبان پرعبور حاصل ہے۔ میرے دماغ میں روایتی سوچ کی بنائی ہوئی تصویر کے رنگ پھیکے پڑنے لگے اور ایک پرعزم خاتون کی باوقار تصویر اس کی جگہ لینے لگی۔ عمروں میں اتنا فرق ہونے کے باوجود انہوں نے نہ صرف ہمارے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کیا بلکہ اساتذہ کے سامنے بھی خود کو منوایا۔
دوستی مضبوط ہونے کے بعد دھیرے دھیرے اس چہرے کے پیچھے چھپے درد اور جدوجہد کی حقیقت ہمارے سامنے آنے لگی جس کے باعث میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ یہ کہانی لوگوں تک پہنچائی جائے تاکہ نہ صرف عورتوں بلکہ معاشرے کے مردوں کو بھی اس بات کا حوصلہ ملے کہ جتنا ہوسکے اپنے بچوں کو مضبوط بنائیں اوران میں تعلیم کی اہمیت کا احساس پیدا کریں تاکہ وہ ہرطرح کے حالات کا بہادری سے سامنا کرسکیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ تحسین فاطمہ نے شادی کے چوتھے سال ہی اپنے شوہر کو کھودیا، مگر انہوں نے غم کے اس پہاڑ کو اپنے لیے ہمت اور طاقت کا ذریعہ بنا لیا۔ وہ کہتی ہیں کہ دکھ کو خود پر سوار کرنے سے حاصل کیا ہوتا؟ اگر موت حقیقت ہے تو زندگی خوب صورت۔ یوں انہوں نے دو بیٹوں کے ساتھ سر اٹھا کر جینے کی جدوجہد شروع کردی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ شوہر کے جانے کے چند ماہ بعد انہوں نے ایک اور پیاری سی بچی کو جنم دیا، اس طرح ذمے داری مزید بڑھ گئی۔ اس معاشرے میں عورت کے اکیلے رہنے کا مطلب صرف عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔
لیکن ذرا ٹھہریئے! میری طرح آپ بھی یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ تحسین فاطمہ کی تعلیم ادھوری رہ گئی ہوگی اور انہوں نے شاید سلائی کڑھائی کرکے بچوں کو پالا پوسا ہوگا۔
نہیں جناب! تحسین فاطمہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ وہ شادی سے پہلے ایم اے کرچکی تھیں مگر شوہر کے انتقال کے بعد تنہا رہ گئیں۔ پھر انہوں نے ایک مشکل اور حیران کن فیصلہ کیا کہ وہ کسی کی بھی مدد کے بغیر اپنے بچوں کو خود پالیں گی تاکہ ان کے بچوں کی خودداری اور اعتماد مجروح نہ ہو؛ وہ مستقبل میں خودمختار اور اپنی ذات پر یقین رکھنے والے ہوں۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے سے خوشی کا لطیف احساس لینا شروع کردیا۔
انہوں نے اپنی زندگی کے ضابطے بنائے اور ان پر چلنے لگیں۔ سخت محنت، رات دن جدوجہد، بغیر کسی کی مدد کے بچوں کی عمروں کے ساتھ اپنی جاب کو ایڈجسٹ کیا۔ پہلے پارٹ ٹائم کام کیا اور جب بچے پرائمری اسکول میں آگئے تو فل ٹائم جاب کی۔ وہ اپنی ہمت کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار اور ساتھی قرار دیتی ہیں۔ وہ تنہا تھیں، جوان تھیں اورعورت تھیں… ہمارے معاشرے میں کسی خاتون کےلیے یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں۔ مگراب ان کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو رہا تھا۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایک ایف ایم چینل سے آفر آگئی۔
اب دنیا بالکل بدل چکی تھی۔ تحسین فاطمہ کی آواز سامعین کے دلوں میں اترتی چلی گئی اور وہ شہرت کی کئی سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگ گئیں۔ وہ ریڈیو پر شستہ و شائستہ لب و لہجے کی مثال بن گئیں۔ ان کے موضوعات نے لاکھوں سامعین کی توجہ کھینچی۔ پھر اچانک آٹھ سال بعد انہیں ریڈیو چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے گھر چلانے کےلیے نئی راہیں تلاش کرنا شروع کردیں۔ ساتھ ساتھ اپنے علم اور صلاحیتوں کو مزید بڑھانے کی کوشش بھی جاری رکھی؛ اور یہی خواہش انہیں بائیس سال بعد پھر کراچی یونیورسٹی لے آئی۔
اب وقت تھا اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کا۔ جب دوسرے بیٹے نے ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو تحسین نے بھی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں داخلہ لے لیا۔ انہیں شروع سے ہی ابلاغ عامہ پڑھنے کا شوق تھا جو وہ کچھ رکاوٹوں اور کچھ قسمت کی ستم ظریفی کی وجہ سے پورا نہیں کر پائی تھیں۔ مگر زندگی کے اس موڑ پر جہاں بہت سے لوگ سوچیں گے کہ اب پڑھنے کا کیا فائدہ؛ اب تو عمر نکل گئی ہے؛ تو بہتر ہے وہ یہ جان لیں کہ انسان ہر کام فائدے یا نقصان کےلیے نہیں کرتا۔ علم حاصل کرنے کےلیے عمر کی کوئی قید بھی نہیں۔
تحسین فاطمہ اپنی زندگی کے ہر لمحے سے کچھ نہ کچھ سیکھتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ پڑھنے کا شوق ہی تھا جو آج ان کے کام آرہا ہے۔ تحسین فاطمہ کی کہانی، ان کا اللہ کی ذات پر بھروسا، مشکل سے مشکل وقت میں بھی ہمت اور حوصلے سے کام لینا اور ان کی باوقار شخصیت ہم سب کےلیے لائقِ تقلید ہے۔ علم حاصل کرنے کےلیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ زندگی جب اور جس وقت موقع دے، علم حاصل کرکے اسے آگے بڑھانا چاہیے تاکہ معاشرہ مستحکم ہوسکے۔ اسی طرح اپنی بیٹیوں کو بھی اتنا ہی مضبوط بنائیے جتنا بیٹوں کو بناتے ہیں۔