28 جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد شیخ رشید نے کہا کہ چالیس سے پچاس ارکانِ اسمبلی نواز لیگ کو خیرباد کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ شیخ رشید کی پیشین گوئی نہیں بلکہ اندازہ تھا کیونکہ تقریباََ اتنے لوگ ہی ہواؤں کا رُخ پہچان کر پرویز مشرف کی قاف لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے نوازلیگ میں شامل ہوئے تھے۔ یہ وہ ضمیر فروش ہیں جن کی سیاسی جماعت کا ایک ہی نام ہے یعنی ”بَرسرِ اقتدار پارٹی”۔ اِن لوگوں کو اُجرتی سیاستدان ، لوٹے، ضمیرفروش، فصلی بٹیرے ، چڑھتے سورج کے پجاری اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہا جاتا ہے لیکن اُن کے ضمیر کی خلش اُنہیں کبھی بے چین نہیں کرتی۔ 28 جولائی کے بعد جب میاں نوازشریف کا بیانیہ مقبول ہونے لگا تو یہ” لوٹے” وقتی طور پر رُک گئے۔ اب جب کہ نوازلیگ زیرِعتاب ہے اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نوازلیگ کو اقتدار میں آنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی تو اِن فصلی بٹیروں نے اُڑان بھری۔ ویسے اِنہیں فصلی بٹیرے نہیں کہنا چاہیے کہ بٹیرا تو بیچارہ معصوم پرندہ ہے جو اپنی جان گنوا کر ہماری لذتِ کام ودہن کا سامان مہیا کرتا ہے۔ وہ حلال پرندہ ہے جب کہ اِن ضمیر فروشوں کے مُنہ کو تو حرام لگ چکا۔ اِنہیں مُردار خور ”گِدھ” کہنا چاہیے جو اپنی لمبی چونچوں کے ساتھ ہر اُس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے اُن کی حرام خوری کو تسکین مِل سکے۔ اِنہیں لوٹا بھی نہیں کہا جا سکتاکیونکہ لوٹا بیچارہ تو غلاظتیں صاف کرنے کے کام آتا ہے لیکن یہ پورے معاشرے میں غلاظتیں پھیلاتے رہتے ہیں جن سے تعفن بھی اُٹھتا رہتا ہے۔
اِنہیں کہا جا سکتا ہے تو صرف ضمیرفروش یا پھر نرم ترین الفاظ میں اُجرتی سیاستدان۔ یہ اُجرتی سیاستدان ہر سیاسی جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں (نوازلیگ، تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی) پر ہمہ وقت اِن کی نظریں ہوتی ہیںاور جہاں کہیں سے اِنہیں ذاتی مفاد کی بھنک ملے، یہ وہیں براجمان ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پیپلزپارٹی کے بہت سے لوگ قطار اندر قطار تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے تو ہم نے لکھا کہ اب تحریکِ انصاف کو اپنا نام بدل کر پاکستان پیپلزتحریک رکھ لینا چاہیے کیونکہ تحریکِ انصاف میں اب غالب اکثریت پیپلز پارٹی کی ہی ہے۔ نوازلیگ میں آج بھی کئی ایسے سیاستدان براجمان ہیں جو کبھی پرویز مشرف کے دست وبازو ہوا کرتے تھے۔ تحریکِ انصاف کا یہ عالم ہے کہ اُس میں کئی گروپ بَن چکے ہیںاور اُس پر کھُلی تنقید بھی ہو رہی ہے۔ البتہ پیپلزپارٹی کی طرف یہ رجحان کم کم ہی دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اب سُکڑ سمٹ کر دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور ضمیر فروشوں کو وہاں ”کَکھ” نظر نہیں آتا۔حیرت ہے کہ جب یہ لوٹے ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دوسری جماعت اُن کے لیے اپنے دَر وا کر دیتی ہے اور پھر جب وہ ”اُڈاری” مار جاتے ہیں تو اُن پر تبرّہ بھیجنے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ ایسا عشروں سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور جونہی عام انتخابات کا ڈول ڈالا جاتا ہے تو سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ بھی نظر آنے لگتی ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو کر یہ فیصلہ نہیں کر لیتیں کہ ایسے ضمیر فروشوں کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ الیکشن اصلاحات 2017ء میں یہ شِق بھی ڈال دینی چاہیے تھی کہ کوئی بھی شخص بطور آزاد اُمیدوار الیکشن میں حصّہ نہیں لے سکتا کیونکہ سب سے زیادہ ”گَند” تو یہ آزاد اُمیدوار ہی ڈالتے ہیںجو انتخاب جیتنے کے بعد اپنی بولی لگواتے ہیں۔
جنوبی پنجاب صوبے کا بہانہ بنا کر نوازلیگ کے 6 قومی اور2صوبائی اسمبلی کے ارکان نے نوازلیگ سے علیحدگی اختیار کرکے اپنا نیا گروپ تشکیل دے دیا ہے۔ اِن میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جس نے تین، چار پارٹیاں نہ بدلی ہوں۔ یہ پونے پانچ سال تک تو حکومت کے مزے لوٹتے رہے لیکن اب اچانک اِن کے دلوں میں صوبہ جنوبی پنجاب کا درد جاگ اُٹھا حالانکہ اِن پونے پانچ سالوں میں اِن کی زبانوں پر کبھی جنوبی پنجاب کا نام تک نہیں آیا۔ میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے بھی ہمارے ساتھ نہیں تھے اور اِنہوں نے اُن کے صدارتی انتخاب میں بھی اُن کو ووٹ نہیں دیا تھا۔سوال مگر یہ ہے کہ جب میاں صاحب اِن کے بارے میں خوب جانتے تھے تو پھر اِنہیں اپنی جماعت میں شامل ہی کیوں کیا؟۔ 2013ء کے انتخابات میںنوازلیگ تو اتنی اکثریت حاصل کر چکی تھی کہ اُسے ایسے ضمیر فروشوں کی سِرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔ پھر ایسی بدنامی مول لینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟۔ انہی لوگوں کی وجہ سے اب اپوزیشن ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر کہہ رہی ہے کہ نوازلیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی۔ اپوزیشن کی اِن بڑھکوں سے یقیناََ نوازلیگ کے ووٹرز میں بھی بَددلی پھیل رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اِس بَددلی کا سبب خود میاں نوازشریف ہیں جنہوں نے ایسے بے ضمیروں کے لیے اپنی جماعت کے دروازے کھول دیئے۔
اُدھر تحریکِ انصاف اِن لوگوں کو سینے سے لگانے کے لیے بے چین وبیقرار ہے۔ اپنی دولت کے بَل پر ووٹ خرید کر سینیٹر بننے والے چودھری سرور نے کہا کہ اگر یہ لوگ تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں تو ہم اُن کو یہ لکھ کر دینے کو تیار ہیں کہ ایک مخصوص مدت کے دوران جنوبی پنجاب کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے گا۔ چودھری سرور خوب جانتے ہیں کہ اِن لوگوں کے دلوں میں جنوبی پنجاب کا درد ہرگز نہیں۔ یہ خود تو لاہور میں عالیشان کوٹھیوں میں براجمان ہیں اور بات کرتے ہیں جنوبی پنجاب کے مجبورومقہور عوام کی ۔یہ ملمع کاری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب تک سیاسی جماعتوں کا اِن لوٹوں کے بارے میں یہ رویہ رہے گا، اِن لوگوں کی چاندی ہی رہے گی۔
نوازلیگ کی ٹوٹ پھوٹ میں ”خفیہ ہاتھوں” کو بھی نظرانداز” نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے بلوچستان میں یہ کھیل کھیلا گیا اور نوازلیگ کی حکومت کو ختم کرکے ایک ایسے شخص کو وزیرِاعلیٰ بنا دیا گیا جس نے عام انتخابات میں پانچ سو سے بھی کم ووٹ لیے تھے پھر سینیٹ کے انتخاب میں چھ آزاد اُمیدوار منتخب کروائے گئے اور اُسی آزاد گروپ میں سے ایک غیرمعروف شخص کو چیئرمین سینیٹ بنا دیا گیا جس کو موجودہ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی چیئرمین سینیٹ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ اب جنوبی پنجاب میں بھی ایک ایسا ہی آزاد گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ منصوبہ ساز ایک ایسی ”ہَنگ پارلیمنٹ” وجود میں لانا چاہتے ہوں جس کا کمزور وزیرِاعظم اُن کے احکامات سے سَرِمو انحراف نہ کر سکے۔ منصوبہ ساز ایسا کام صرف اُنہی لوگوں سے لے سکتے ہیں جن کے ضمیرمُردہ ہو چکے ہوں، پاکستان میں ایسے بے ضمیروں کی تعداد بہت۔