تحریر: عماد ظفر
خواتین کے حوالے سے دو خبریں میڈیا میں زیر بحث رہیں.ایک خبر ایک بچی کے بارے میں تھی کہ ستارہ اکبر بروج نامی بچی نے دنیا کی سب سے کم عمر او لیول طالبہ ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا اور پاکستان کی ایک اچھی تصویر پوری دنیا میں پیش کی کہ ہماری بچیاں بھی دنیا میں صلاحیتوں اور ذہانت کے اعتبار سے کسی سے بھی پیچھے نہیں. ستارہ کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی لیکن اپنے وطن پاکستان میں اسے اس کے مسلک کی بنا پر نظر انداز کر دیا گیا.ستارہ کا تعلق احمدیہ کمیونٹی سے ہے اور ہمارے ہاں احمدیوں کی کامیابی پر خوش ہونا روایتی طور پر گناہ کے زمرے میں آتا ہے. کچھ ایسا ہی سلوک ہم نے نرگس موالوالہ کے ساتھ کیا تھا کہ وہ پارسی فرقے سے تعلق رکھتی تھی اور ڈاکٹر عبدالسلام کی مثال تو سب کے سامنے ہے جنہیں احمدی ہونے کے جرم میں ہماری نصابی تاریخ سے تقریبا باہر ہی کر دیا گیا.
خیر ستارہ نے ثابت کیا کہ علم ذہانت اور قابلیت نہ تو کسی مخصوص فرقے کے محتاج ہوتی ہیں اور نہ ہی جبر یا حبس کی فضا میں قابلیت کا گلا گھونٹا جا سکتا ہے…ستارہ بروج اکبر نے ایک سوال اور بھی کھڑا کیا ہے کہ کیا پاکستان میں بسنے والے لوگ کبھی زات پات مذہب اور فرقے کے تعصب سے ہٹ کر صرف پاکستانیوں کی طرح بھی سوچنے پائیں گے؟ پاکستان میں بچیوں کے حوالے سے ویسے ہی خاصا تعصب پایا جاتا ہے اور ان کی کامیابیاں اکثر و بیشتر “مردانگی” کی شان میں گستاخی تصور کی جاتی ہیں.
اوپر سے احمدیہ فرقہ کی بچی ہونے کے جرم کے پاداش میں ستارہ کی کامیابی پر خادم اعلی پنجاب شہباز شریف نے بھی کوئی نوٹس لینے کی زحمت نہ کی اور نہ ہی کوئی مبارکباد کا پیغام دیا. خیر ستارہ کی یہ کامیابی اور اس پر ہمارا کوئی ردعمل نہ دینا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں کو کتنی اہمیت حاصل ہے. آپ اور میں تو چونکہ سنی یا شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے اس لییے ہمیں اس محنت اور دقت کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا جو بطور احمدی ہونے کے ستارہ اور اس کے والدین نے اٹھائی. قدم قدم پر طنز تحقیر اور نفرتوں کے نشتر سہتے ہوئے اپنی بچی کو یہ اعزاز دلوانے پر ستارہ بروج اکبر کے والدین کو سلام . ستارہ بروج اکبر نے روایتوں اور فرسودہ سوچ کے سامنے ہتھیار پھینکنے کے بجائے علم اور تحقیق کا سہارا لینا پسند کیا اور اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے.
ستارہ شروع ہی سے سوال کرتی تھی ہر بات پر سوال.یعنی تجسس اور علم کی جستجو اور یہ وہ نکتہ ہے جو کامیابی اور ناکامی کے درمیان واضح لکیر کھینچتا ہے. اور یہ وطن کی تمام بچیوں کیلئے ایک سبق بھی ہے کہ اگر ستارہ بروج اکبر اپنے خلاف نفرتوں اور تعصبانہ رویوں کے باوجود کامیابی حاصل کر سکتی ہے تو باقی پاکستانی بچیاں بھی ایسا کر سکتی ہیں.رہی بات ستارہ کو وطن عزیز میں کامیابی کا کریڈٹ نہ ملنے کی تو کم سے کم مجھے اس پر کوئی حیرانگی نہیں.اگر ڈاکٹر عبدالسلام جیسی شخصیت کو ہم آج تک ان کے فرقہ کی وجہ سے اون نہیں کر سکے تو ستارہ تو پھر ایک بچی ہے. دوسری خبر جو خواتین کے حوالے سے گردش میں رہی وہ لیہ میں ایک نا بینا خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی . حسب عادت ہم سب نے اس واقعے پر لعن طعن کی ، چندمذمتی بیانات اور ارباب اختیار کی جانب سے اس واقعے کا نوٹس بھی لیا گیا.یہ خاتون چار بچوں کی ماہ تھی اور کئی برس پہلے اس کو تیزاب گردی کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا. اس خاتون کے ساتھ زیادتی نے اس کو خاندان سمیت اس بے رحم اور منافقانہ معاشرے میں زندہ درگور کر ڈالا ہے.
کیونکہ ہمارے ہاں زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کو بجائے ہمدردی کے طنز و تحقیر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے. اس واقعے کے بعد تحفظ حقوق نسواں بل کے خلاف چیختے چلاتے مذہبی گدھ اور ان کے چیلوں کی جانب سے کمال ڈھٹائی سے مکمل خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا.تحفظ نسواں بل کے حوالے سے کچھ عرصے قبل تمام مذہبی چورن فروشوں نے واویلا مچا دیا تھا کہ یہ بل کفار اور اہل مغرب کی سازش ہے اور وہ عورت کو تحفظ اور آزادی دلوا کر ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں.یوں یہ تحفظ نسواں بل بھی دیگر کئی قوانین جو کہ خواتین کے حوالے سے ہیں ان کی طرح ردی کے انبار میں چھپ گیا. یقینا مزہبی چورن فروش لیہ میں ہونے والی اس حیوانیت کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل گھڑ لیں گے. ویسے بھی بطور معاشرہ ہم نے آج تک تاویلیں گھڑنے کے علاوہ کیا ہی کیا ہے؟ ہر واقعے پر ایک نئی تاویل ایک نیا بہانہ کہ دیکھئے مہذب دنیا میں جنسی زیادتی کا شکار بننے والی خواتین زیادہ ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں.اس دلیل کو سچ ثابت کرنے کیلئے من گھڑت اور جھوٹے اعداد و شمار بھی پیش کیئے جاتے ہیں. حالانکہ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے بعد خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے اور ہر ایک گھنٹے بعد ایک خاتون اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے اور قریب 80 فیصد خواتین کسی نہ کسی طور گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں.
لیکن ہم کمال ڈھٹائی سے دوسرے ممالک کی مثالیں پیش کرنے میں مگن رہتے ہیں. یعنی یہ مثال ایسی ہی ہے کہ میرے گھر میں میری بچی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو اور میں اس کو روکنے کے بجائے اس بات پر خوش ہوتا رہوں کہ آس پاس کے گھروں میں بھی تو زیادتی ہوتی ہے. عجیب تضاد اور منافقانہ رویہ ہے ہمارا. شرمین عبید چنائے یا عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات اگر خواتین کیلئے آواز اٹھائیں تو وہ کفار کی ایجنٹ ملک اور مذہب دشمن لیکن لیہ میں نابینا خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے والا درندہ ہو یا ایبٹ آباد میں بچی کو جلانے والا جرگہ یہ لوگ تو جیسے ہمارا نام خوب روشن کرتے ہیں. خیر ان دونوں خبروں کا تقابلہ یہاں پیش کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ لیہ میں خاتون کے ساتھ جسمانی جنسی زیادتی کی گئی اور ستارہ اکبر بروج کی کامیابی کو اون نہ کر کے اس کے ساتھ اخلاقی اور تعصب پر مبنی زیادتی. اب زیادتی چاہے جنسی ہو اخلاقی یا پھر تعصب پر مبنی کہلاتی تو زیادتی ہی ہے.
فرق صرف یہ ہے کہ لیہ میں ایک زمیندار نے جسمانی ہوس کو بجھانے کیلئے یہ کام کیا جبکہ ہم سب اپنی اپنی کھوکھلی روایات اور تعصب پر مبنی سوچ اور انا کی تسکین کیلئے ستارہ جیسی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں. لیکن فرق یہ ہے کہ ستارہ جیسی بچیاں علم و منطق کے سہارے کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر فرسودہ رسوم و رواج اور تعصب کو شکست دے دیتی ہیں .لیہ میں ہونے والے انسانیت سوز واقعے کے مجرموں کو دہشت گردی کی عدالت میں بطور ملزم پیش کر کے مقدمہ چلا کر متاثرہ خاتون کو انصاف دینے کی ضرورت ہے اور اس کے بچوں کو ستارہ اکبر بروج کی مثال دینے کی ضرورت ہے کہ اس بچی نے بھی ظلم و جبر دیکھے لیکن پیچھے نہیں ہٹی ستارہ کے والد کو 1999 میں گرفتار بھی کیا گیا تھا اور الزام کی نوعیت وہی تھی جو اکثر ہمارے ہاں احمدیوں پر لگتی ہے.لیکن ستارہ ڈٹی رہی اور آج سب نفرتوں اور تعصب کرنے والے افراد کے سینوں پر مونگ تل رہی ہے. یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن خواتین اور بچیوں دوارے ہماری دوہری سوچ کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں.
اگر تو ہمیں اقلیتوں اور خواتین کے بارے میں رویے ایسے ہی رکھنے ہیں تو بہتر ہے ہم اقلیتوں کو پاکستان سے باہر ہی نکال دیں کہ کم سے کم انہیں کسی اور جگہ سکون کے کچھ لمحات تو میسر آ جائیں گے یا پھر ملک میں بسنے والی خواتین کو اقلیت قرار دیکر جھنڈے میں موجود سفید رنگ کو خواتین اور بچیوں سے منسوب کر دینا چاہیے. کیونکہ تعصب نفرت اور فرسودہ رسوم و رواج کا لبادہ تو ہم اتارنے کو تیار نہیں نظر آتے اور نہ ہی مزہبی چورن فروشوں سے اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں. ویسے یہ اور بات ہے کہ اگر بات ہماری اپنی بیٹی کی ہو تو ہمیں اخلاقیات اور قوانین فورا یاد آ جاتے ہیں.اگر نیویارک میں ہماری کسی سنی یا شیعہ بچی نے ٹاپ کیا ہوتا اور وہاں اسے سرکاری طور پر مبارکباد نہ دی جاتی تو ابھی تک ہم امریکیوں کے ڈبل سٹینڈرڈز اور تعصب کے خلاف بھرپور غم و غصہ کا اظہار کر چکے ہوتے اسی طرح اگر لیہ جیسا واقعہ نیو یارک میں کسی پاکستانی بچی کے ساتھ پیش آتا تو ہم اب تک غیب و غصہ کا شکار ہو کر ملک بھر میں جلسے جلوس کر کے قاتلوں کی سزا کا فوری مطالبہ کر رہے ہوتے.کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہم سب اس دوغلے پن کے باعث اپنی ہی بچیوں کو زمانہ جاہلیت یا پتھر کے دور کے انسان کی طرح جیتے جی دفن کیئے ہی جا رہے ہیں.
اگر میں آور آپ ستارہ کو صرف احمدی ہونے کی بنا پر مبارکباد نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں تعصب کا لفظ اپنی لغت سے نکال دینا چاہیے اگر میں اور آپ لیہ میں ایک نابینا خواتین کے ساتھ کی گئی زیادتی پر اس کے ملزموں کی گرفتاری تک احتجاج بھی نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں کشمیر اور فلسطین کی بچیوں کے بارے میں بھی کوئی احتجاج کرنے کا حق نہیں اور لفظ احتجاج کو بھی اپنی لغت سے نکالنے کی ضرورت ہے.ان کھوکھلے تعصب زدہ رویوں کے خلاف مذمت نہیں عمل کی ضرورت ہے.
تحریر: عماد ظفر