میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں پر مسلسل ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے بنگلہ دیش ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد پونے چار لاکھ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ آنگ سان سوچی میانمار کی فوجی آمریت کے ہاتھوں کئی دہائیوں تک ظلم و ستم کا شکار رہیں، انھیں طویل عرصہ نظربند اور قید میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ انھیں اپنے شوہر سے بھی ملنے نہ دیا گیا۔ اس ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی پامالی نے پوری دنیا کی ہمدردیاں سوچی کے ساتھ کر دیں۔ سوچی ظلم و انسانی آزادی کے حوالے سے ایک استعارہ بن گئیں۔ انھوں نے برمی فوجی آمریت سے مصالحت نہیں کی۔ برمی عوام کے حقوق اور جمہوریت کے لیے اپنی تمام زندگی صرف کردی۔ آخر کار دنیا نے ان کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں نوبل انعام سے نوازا۔ برما میں آج بھی مکمل جمہوریت نہیں ہے۔ زیادہ تر اختیارات فوجی جنتا کے پاس ہیں۔ جمہوری ڈھانچہ نمائشی ہے۔ میانمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شامل ہے جب کہ وہ انتہائی قدرتی قیمتی وسائل کا مالک ہے۔ یہ قدرتی وسائل ہی برمی عوام کی بدقسمتی کا باعث بن گئے ہیں۔ چین اگر برما کا ہمسایہ ملک ہے تو امریکا ہر اس ملک کا ہمسایہ ہے جہاں قیمتی معدنیات اور اس کے مفادات ہیں۔ جب سے برما کو 1962ء سے آزادی ملی ہے وہاں فوجی حکمران طبقہ بالادست ہے۔
آزادی ملنے کے بعد سے برما کی راکھین ریاست کے روہنگیا مسلمانوں کو برمی فوج نے باغی قرار دے کر ان پر ظلم و ستم شروع کردیا۔ الزام روہنگیا مسلمانوں پر یہ ہے کہ انھوں نے برما پر قبضے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے جب پاکستان بننے والا تھا ان روہنگیا مسلمانوں نے پاکستان میں شمولیت کے لیے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں شامل ہونے کے لیے تحریک بھی چلائی۔ ایک وقت آیا کہ روہنگیا مسلمانوں نے برمی فوج کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے مسلح تحریک بھی چلائی۔ یہ تھا ایک مختصر سا تاریخی پس منظر۔ اس کے ساتھ طالبان نے ایک بہت بڑا ظلم روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ یہ کیا کہ جب وہ کابل میں برسراقتدار آئے تو انھوں نے ہزاروں سال قدیم مہاتما بدھ کے مجسمے کو جو بدھ مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک انتہائی مقدس حیثیت رکھتا ہے ڈائنامائیٹ سے اڑا کر نہ صرف پوری دنیا میں بدھ مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی جذبات کو شدید طور پر مجروح کیا بلکہ دنیا کے انسانوں کے دل بھی اس عظیم نایاب تاریخی ورثے کی تباہی سے ٹوٹ کر رہ گئے۔ تعصب تو پہلے سے تھا روہنگیا مسلمانوں کے خلاف، میانمار کے عوام اور حکومت کا مہاتما بدھ کے مجسمے کی پامالی نے اونٹ کی کمر پر تنکے کا کام کیا جو ان پر مزید ظلم و ستم پر اضافے کی شکل میں نکلا۔
اب طرفہ تماشہ یہ ہے کہ نوبل امن انعام یافتہ سوچی روہنگیا مسلمانوں پر ظلم سے انکاری ہیں اور اسے جھوٹ اور پروپیگنڈا قرار دیتی ہیں اور اس ظلم کی کسی بھی قسم کی مذمت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں سوچی کی اس بے حسی پر نوحہ کناں ہیں چنانچہ سوچی نے اس شدید تنقید سے گھبرا کر اقوام متحدہ کے سالانہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت منسوخ کردی ہے۔ اب تو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے علاوہ اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو ان کی نسلی صفائی قرار دیا ہے۔ فرانس اور یورپی یونین نے بھی اس افسوسناک صورتحال پر قرارداد منظور کی ہے۔ جس میں سختی سے میانمار کی ملٹری اور سیکیورٹی فورسز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل، عورتوں کی بے حرمتی اور ان کے گھروں کو آگ لگانے کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے۔ جب کہ روہنگیا مسلمانوں کی مسلح تنظیم نے جو میانمار فوج کے ظلم و ستم کے خلاف بنائی گئی ہے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ان کے رابطے کسی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ سے ہیں۔ انھوں نے میانمار کی ہمسایہ ریاستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ہزاروں مسلح مذہبی انتہا پسندوں کو روکیں جن کا تعلق القاعدہ داعش وغیرہ سے ہے اور وہ ان ریاستوں سے میانمار میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ان عالمی جہادی گروپوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان جہادی گروپوں کی مداخلت موجودہ صورت حال کو بد سے بدترین میں بدلتے ہوئے انھیں عالمی برادری کی حمایت سے محروم کردے گی۔
یاد رہے کہ یہ دہشت گرد گروہ جو ہزاروں کی تعداد میں ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ وغیرہ میں ہیں یہ صرف برما تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ ہمسایہ ملک چین کا رخ کریں گے جہاں چین کی مسلمان ریاست میں شورش برپا ہے تاکہ چین کو عدم استحکام کا شکار کرتے ہوئے چین کی مسلمان ریاست اور میانمار کی ریاست راکھین میں مذہبی انتہا پسندوں کی بالادستی قائم کرتے ہوئے امریکی ایجنڈے کو پورا کیا جائے۔ اس صورت میں سی پیک منصوبہ بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ اس طرح امریکا جہادی گروہوں کو استعمال کرتے ہوئے ہینگ لگے نہ پھٹکری کے مصداق چین اور ’’سی پیک‘‘ معاشی منصوبے کو شدید نقصان پہنچاسکتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اگلے کچھ وقت کے لیے قارئین سے رابطہ نہ رہے اس لیے ضروری ہے کہ نواز شریف کے حوالے سے کچھ باتیں کرلی جائیں جس میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نظرثانی اپیل خارج کرتے ہوئے نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے جو ریمارکس دیے وہ قابل توجہ ہیں۔ مثلاً نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ آپ نے تو بچوں پر بھی ریفرنس کا حکم دیا۔ جواب میں جج صاحب نے کہا کہ بچہ کوئی نہیں وہ سب بچوں والے ہیں۔ بچے چاہے بوڑھے ہوجائیں والدین کے نزدیک بچے ہی رہتے ہیں لیکن قانون اور شریعت کی نظر میں نہیں۔ اثاثے 90 گنا بڑھ جائیں تو کیا ہم آنکھیں بند کرلیں۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار عدالت کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کی قیادت کررہے ہیں۔ قانون اندھا ہوسکتا ہے جج نہیں۔ جہاں تک حلقہ 120 کے الیکشن کا تعلق ہے وہاں اپوزیشن کا ریاستی قوت سے مقابلہ رہا۔ ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومت کے وسائل اور پس پردہ سپورٹ دوسری طرف خالی ہاتھ سیاسی جماعتیں۔ ۔ بیس سال پہلے کی بات ہے مجھے آج بھی نہیں بھولتی کہ ایک ان پڑھ ردی والا سائیکل سوار نے مجھے سمجھایا کہ نواز شریف کو اس لیے ووٹ دینا چاہیے کہ ان کا تعلق ہم سے ہے۔
… نواز شریف ستمبر کے آخر سے اکتوبر کے درمیان مزید آزمائشی وقت میں داخل ہوجائیں گے۔ … فاٹا اصلاحات کے حوالے سے فروری، مارچ 2018ء تاریخ ساز وقت ہے جس کا آغاز اس سال نومبر دسمبر سے شروع ہوجائے گا۔