تحریر : راؤ اسامہ
“ٹرن ، ٹرن ،ٹرن” رات کے ساڑھے تین بجے فون کی گھنٹی کی آواز سن کر نعیم جاگ گیا اور “یا اللہ خیر” کہتے ہوۓ فون اٹھا لیا۔ “نعیم صاحب مارکیٹ میں بجلی کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگ گئ ہے اور بہت سے لوگوں یی دوکانیں جل کر خاکستر ہو چکی ہیں ، آپ جتنی جلدی ہوسکے یہاں تشریف لائیں اور آکر اپنی دوکان سنبھالیں” دوسری طرف سے اس کا ایک جاننے والا یہ خبر سنا رہا تھا۔ “اوہ ، اللہ مہربانی فرماۓ ، اب نماز کا وقت ہونے والا ہے میں نماز کے بعد آجاؤں گا۔
نعیم نے جواب دیا۔ “حد ہوگئ یار ، ابھی تک اگر کچھ بچ بھی گیا ہوا تو آپ کے نماز پڑھنے تک بھسم ہو جاۓ گا” جواب ملا۔ “کوئ بات نہیں اللہ مالک ہے” یہ کہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ اطمینان سے نماز ادا کی ، اپنے رب سے دعا مانگی اور گاڑی نکال کر مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ مارکیٹ کے اردگرد کی فضا آگ اور دھویں کے بادلوں سے گھری ہوئ تھی اور لوگ اپنے سامان کا نقصان ہونے پہ دکھ بھری آہیں لے رہے تھے۔
کچھ گورنمنٹ کو کوس رہے تھے ، کچھ مقامی انتظامیہ کو اور کچھ اپنے رب سے شکوے کرنے میں مصروف تھے۔ نعیم کے علاوہ ہر کوئ اپنی دوکان کھول کر دیکھ چکا تھا ، اور لوگوں کا تقریباً پورا کا پورا مال جل کر خاکستر ہوچکا تھا۔ اس نے سب کے سامنےاللہ کانام لے کر اپنی دوکان کھولی تو لوگوں کی آنکھیں حیرانی سے کھلی کی کھلی رہ گئیں جب انہوں نے دیکھا کہ اس کا سارا مال سلامت تھا۔
لیکن نعیم کی نظریں بے چینی سے کپڑوں کے ایک تھان کی طرف دیکھ رہی تھیں جس کو آگ نے ایک سائیڈ سے معمولی سا جلا دیا تھا ، لوگوں نے حیرانی سے کہا کہ تمہارا سارا مال بچ گیا ہے اور تم ایک تھان کے ہلکا سا جل جانے پہ پریشان ہو؟؟ اس نے جواب دیا کہ میں زکوٰۃ پوری اور باقاعدگی سے ادا کرتا ہوں ، اور کبھی کسی کو غلط یا دونمبر مال نہیں دیتا پھر بھی یہ جل گیاہے ، کوئ گربڑ ضرور ہے۔ حسابات نکال کر دلجمعی اور احتیاط سے حساب کرنے پہ معلوم ہوا کہ اس دفعہ زکوٰۃ کا مال ادا کرتے ہوۓ غلطی سے کچھ کمی ہوگئ تھی ، اس پہ اللہ نے اپنے بندے کو یاددہانی کرائ تھی۔
س نے فوری طور پہ وہ مال ادا کیا اور اپنا مال بچ جانے پہ بے اختیار اللہ کا شکر ادا کیا۔ ایمانداری سے کماۓ گۓ حلال مال کی اللہ حفاظت کرتا ہے اوراللہ پاک کا حکم ہے کہ زکوٰۃ ادا کرو۔ اس طرح کی کئ مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں بس ان سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر : راؤ اسامہ