تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
مارچ 2003 کو شام ڈھلے کرس ہیون کار چلاتے ہوئے اپنی بیوی وکی پرائس کے ساتھ گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں ٹریفک لائن کی لال بتی سے گز ر گیا اس ملک میں ہر بڑے چوک چوراہے پر تو کیا عام سڑکوں کے موڑ پر بھی کیمرے ٹریفک قانون توڑنے والے ڈرائیور وں کی تاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ لال بتی سے گزرتے کرس ہیون کی چمکیلی بی ایم ڈبلیو کار کی فوٹو بھی کیمرے میں اتار لی۔ اور کچھ دن بعد پولیس کا نوٹس کار کی تصویرکے ساتھ کرس کے گھر پہنچ گیا۔ کیا آپ ہی اس کار کے مالک ہیں کیا آپ ہی اس وقت یہ کار چلا رہے تھے ؟ ایسی تفشیش Investigation))کرنا یہاں کے ٹریفک قانون کے تحت لازمی ہے۔ تا کہ بعد میں یہ نہ کہا جا سکے کہ کار تو میری ہے ہی نہیں اور اس وقت میں تو اس چلا ہی نہیں رہا تھا۔
نوٹس پاکر کرس ہیون گھبرا گئے۔ ٹریفک کی لال بتی پھلانگنے سے چھوٹی سی غلطی کو قبول کرنے کے بجائے اس نے قانون کو چکمہ دینے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیے اور اپنی محبوبہ سے بھی کہا کہ وہ لکھ کر دے دے کہ کہ اس وقت گاڑی وہ چلا رہی تھی لیکن وہ تیار نہیں ہوئی۔ آخر اس نے اس کا م کے لئے کسی نہ کسی طرح اپنی بیوی وکی پرائس کو رضا مند کر لیا اس نے لکھ کر بھیج دیا کہ گاڑی وہ چلا رہی تھی۔ وکی کو 80پونڈ جرمانہ ہو گیا اور اس کے ڈرائیوننگ لائسنس پر سزا کے طور پر 3پوائنٹس لگ گئے۔ اس ملک میں ڈرائیونگ قانون توڑنے والوں کو سزا کے طور پر 12پوائنٹ تک چلانے کی اجازت ہوتی ہے اس کے بعد لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے۔کرس اگر اپنا جرم قبول کر لیتے تو اسے بھی اتنا ہی جرمانہ اور پوائنٹس لگنے تھے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
کرس ہیون کے لائسنس پر پہلے ہی 9پوائنٹس لگ چکے تھے وہ ڈر گیا کہ 3 پوائنٹس اور لگ گئے تو لائسنس چلا جائے گا۔ اخباروں میں چرچا ہوگا۔ سیاسی طور پر بدنامی ہو گی اس وقت وہ یورپین پارلیمنٹ کے ممبر تھا۔ ڈرائیونگ لائسنس جاتا دیکھ اسے اپنا سیاسی مستقبل خطرہ میں نظر آنے لگا۔ بیوی کی منت سماجت سے اس وقت تو یہ مصیبت ٹل گئی۔ کرس ہیون برٹش پارلیمنٹ کا چنائوجیت گئے اور سینئر وزیر بھی بن گیا۔
کچھ مہینے بعد اتوار کی دوپہر کرس اور اس کی بیوی ٹی وی پر فٹ بال میچ دیکھ رہے تھے کہ کرس ہیون کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ تھوڑی سی بات چیت کے بعد کرس اٹھ کر فون کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلا گیا واپس آیا تو وکی نے پوچھا کون تھا؟ لڑکھڑائی آواز میں بولا۔” اخبار کا کوئی رپورٹر تھا اپنا جواب اتنا ہی رکھتے تو شاید غنیمت ہوتی۔ لیکن گھبراہٹ میں اس کے منہ سے یہ بھی نکل گیا کہ نہ جانے اسے کیسے پتہ چل گیا کہ رات میں کہاں تھا۔ بیوی چونک سی گئی کان کھڑے ہو گئے۔ پہلے ٹال مٹول کی لیکن مجبور ہو کر آخر قبول کرنا پڑا کہ کیرینہ ٹریمنگھم کے گھر تھا۔
کیرینہ ٹریمنگھم کسی وقت کرس کی پریس سیکرٹری رہ چکی تھی۔ وکی پرائس یہ سن کر اشتعال میں آگئی اس نے اسی رپورٹر کو فون کر کے بتا دیا کہ کرس نے ایک اور جھوٹ بھی بول رکھا ہے۔ لال بتی سے گاڑی میں نے نہیں کرس نے گزاری تھی۔ گاڑی میں نہیں چلا رہی تھی کرس نے دھمکا کر مجھ سے نوٹس پر دستخط کروالئے تھے۔اخبار والوں کے ہاتھ بہت بڑا اسکینڈل آگیا ان کے لئے معاملہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ کرس نے رات کہاں کس کے ساتھ گزاری۔ا خبار وں میں اس کا خوب چر چا رہا اور سرخیوں پر سرخیاں لگیں۔ معاملہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون تک پہنچا۔ جب انہوں نے بلا کر کرس سے پوچھا تو اس نے بڑے دم خم سے کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ لیکن پویس نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ کرس کو کیبنٹ سے استعفیٰ دینا پڑا۔
کیس درج ہو گیا وکی بھی قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکی۔ اس کا گناہ بھی اتنا ہی سنگین تھا جتنا کرس کا۔ دونوں کے خلاف مقدمہ چلا شادی ٹوٹ گئی۔ طلاق ہو گئی۔ مقدمہ کی سماعت کے پہلے تین دن تو کرس ڈٹ کر کہتا رہا کہ سب الزام جھوٹے ہیں گاڑی میں نہیں وکی ہی چلارہی تھیں لیکن سچائی اور زیادہ چھپائی نہ جا سکی چوتھے دن وہ عدالت میں پھوٹ کر رو پڑے اس نے جرم قبول کر لیا۔ وکی نے عدالت میں کہا کہ کرس نے اسے ڈرا ڈھمکا کر اس سے زبردستی بیان لکھوا یا لیکن عدالت نے کوئی دلیل نہیں مانی۔ مقدمہ 8مہینے چلتا رہا۔لیکن اب قانون کی گرفت سے نہ بچ سکا قانون نے آخر دبوچ لیا دو نوں کوآخر کار 8ـ8مہینے کی سزائے قید سنائی گئی۔ کچھ دیر کے لئے کرس ہیون کو بھول جائیے ،1864 ء میں انگریزوں نے ریاست کے روساء و امراء کے بچوں کے لیے چیف کالج کے نام سے تعلیمی اداراہ بنایا،جس کا نام بعد ازاں بدل کر ایچی سن کالج رکھ دیا گیا۔آج بھی ایچی سن کالج میں داخلے کا میرٹ بچے کے باپ کی تجوری کا سائز ہے۔پچھلے ہفتے ہمارے صحافی بھائی خبر نکال کر لائے ہیں کہ ایچی سن کالج لاہور میں اشرافیہ اور سیاستدانوں کے بچے داخل نہ کرنے پر بورڈ آف گورنر نے پرنسپل کا کنٹریکٹ منسوخ کردیا ہے۔ جس میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، صنعت کار میاں منشائ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ، سردار ذوالفقار علی کھوسہ کے پوتوں سمیت بڑے خاندانوں کے بچوں کے داخلے میرٹ پر پورا نہ اترنے پر منسوخ کردیے گئے تھے۔
مارچ 2015میں نئے سال کے آغاز سے قبل داخلوں کے دوران پرنسپل ایچی سن کالج آغا غضنفر نے میرٹ پر پورا نہ اترنے والے مذکورہ شخصیات کے بچوں کو ایچی سن کالج میں داخل کرنے سے نہ صرف انکار کردیا تھا بلکہ ان کے بچوں کے فائنل نمبروں پر دستخط کرکے لسٹ ویب سائیٹ پر جاری کردی تھی جس پر اشرافیہ نے شور مچایا اور انہیں پرنسپل شپ سے فارغ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ کل 477طلبہ نے داخلہ ٹیسٹ میںحصہ لیا جس میں سے140بچوں کو میرٹ پر نمبروں کے لحاظ سے سلیکٹ کرنا تھا۔ اشرافیہ کے جن بچوں کو داخل نہیں کیا گیا ان میں ایچی سن کی لسٹ کے مطابق سیریل نمبر102 میں کے تھری سردار محمد مبارک علی خان کھوسہ ولد سردار دوست محمد کھوسہ( سردار ذوالفقار علی کھوسہ کا پوتا)200نمبروں میں سے انگریزی میں20نمبر، اردو میں21.5، ریاضی میں9، منطق میں18نمبر حاصل کئے اس طرح مجموعی طور پر بچے نے34.25فیصد نمبر حاصل کئے۔ کلاس کے ٹو میںسیریل نمبر136 کے مطابق سلطان سعید سہگل ولد سعید طارق( میپل لیف سیمنٹ اور کوہ نور اندسٹری کا مالک ہے)225نمبروں میں سے حاصل انگریزی میں16.25،اردو22.5، ریاضی22.75، منطق 27.5، زبانی میں16 نمبر لیکر46.47فیصد نمبر حاصل کئے۔ اسی طرح سیریل نمبر198 میںمیراں مصطفےٰ گیلانی ولد سید عبدالقادر گیلانی( سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا پوتا ) نے انگریزی میں12، اردو25.5، ریاضی12، منطق 27، زبانی14نمبر لیکر40.22فیصد نمبر حاصل کئے۔سیریل نمبر324میںمحمد بلاول ما نیکا ولد میاں ندیم احمد مانیکا نے انگریزی میں8.25، اردو18، ریاضی12.25، منطق16.5، زبانی میں7نمبر لیکر27.56فیصد نمبر حاصل کئے۔سیریل نمبر368 میں مخدوم محمد عبداللہ ولد مخدوم شیراز احمد( شاید سابق گورنر مخدوم محمود کا پوتا) نے انگریزی میں7.25، اردو میں13.5، ریاضی8.75، منطق15، زبانی8نمبر لیکر23.33فیصد نمبر حاصل کئے۔
سیریل نمبر390 میں خازین حسن منشاء ولد حسن منشائ( میاں منشاء ایم سی بی والے کا پوتا) نے انگریزی میں5.75، اردو0.75، ریاضی9.25، منطق17، زبانی میں11نمبر لیکر19.44فیصد نمبر حاصل کئے۔ سیریل نمبر396میں سردار ایان علی صادق ولد ڈاکٹر سردار ایم علی ایاز صادق( سپیکر قومی اسمبلی کا پوتا ہے اور بچے کا باپ بورڈ آف گورنرز کا ممبر بھی ہے) نے انگریزی2.75، اردو3.75، راضی10.75، منطق14 اور زبانی میں11نمبر حاصل کرکے18.78فیصد نمبر حاصل کئے ہیں۔ مذکورہ داخلوں کاغصہ نکالنے کے لئے اشرافیہ کی ڈیمانڈ پر گزشتہ روز ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس بلایا گیا جس میں پرنسپل کا چار سالہ کنٹریکٹ ختم کردیا گیا ۔یہ دو تصویریں ہیں آپ انہیں ملا کر دیکھنے کی کوشش کریں تو آپ کو ہماری پستی کی جھلک صاف نظر آّئے گی ایک طرف قانون کی پاسداری کا یہ عالم ہے کہ جو اس کی خلاف ورزی میں ملوث ہو کڑی سزا مقدر بنتی ہے یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے جو میرٹ کی بات کرتا ہم اسے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔آپ پاکستان کا آئین پڑھیں ،ارکان اسمبلی کے بیانات سنیں اور ان کے اعمال دیکھیں آپ کو اوپر سے نیچے تک کھلا تضاد نظر آئے گا۔
تحریر: فرخ شہباز وڑائچ