پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی
امریکی سینٹ نے نائن الیون حملوں میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین کو سعودی عرب کے خلاف نقصان کے ازالے کیلئے مقدمہ دائر کرنے کی اجازت دینے کا بل منظور کرلیاہے۔ دہشت گردی سپانسر کرنے والوں کے خلاف انصاف کے نام سے اس ایکٹ کی منظوری کے بعد سعودی عرب کیخلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا جاسکے گاجس کی مالیت یقینی طور پر اربوں ڈالرز میں بنتی ہے۔ جسٹس اگینسٹ سپانسرز آف ٹیررزم نامی ایکٹ اگر ایوان نمائندگان سے بھی منظور ہوگیا اور امریکی صدراوبامہ نے اس پر دستخط کر دئیے تو نیویارک کی فیڈریشن کورٹ میں اس سلسلہ میں مقدمات دائر کئے جا سکیں گے ۔
امریکہ میںنائن الیون کے واقعہ کو تقریبا پندرہ برس گزر چکے ہیں لیکن اس کے اصل حقائق تاحال منظر عام پر نہیں آسکے ۔ بہت سے سوالات اور شکوک و شبہات ایسے ہیں جن کا آج تک جواب نہیں دیاگیا۔ پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کرنے والا نائن الیون کمشن بھی کسی مجرم کا تعین کر سکا اور نہ ہی کسی سازش کا پردہ چاک کر کے شواہد کی کڑیاں ملا سکا۔ امریکی حکومت بھی اس واقعہ کے حوالہ سے بار باراپنا موقف تبدیل کرتی رہی ہے جس پر معروف امریکی صحافی رابرٹ فسک سمیت دیگر ماہرین نے کئی طرح کے سوالات اٹھائے اور کہا کہ پینٹا گون پر حملہ کرنے والے طیارے کے اجزاء مثلا انجن وغیرہ کہاں غائب ہو گئے؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے فولادی بیم پگھلنے کیلئے 1480سینٹی گریڈ درجہ حرارت چاہیے تھا تو پھر چند سیکنڈ میں یہ بیم کیسے پگھل کر ٹوٹ گئے؟۔ جن ہائی جیکرز کو اس واقعہ میں ملوث ٹھہرایا گیا ان میں سے کئی عرب ملکوں میں زندہ نکلے جس کے بعد ایف بی آئی کو بھی شرمندگی اٹھاتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ اسے ہائی جیکرز کی شناخت سے متعلق یقین نہیں ہے اور پھر یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ جہازوں کا کوئی پرزہ حتیٰ کہ کوئی ایک نٹ بولٹ تک صحیح سلامت نہیں ملا لیکن ایک ہائی جیکر کا پاسپورٹ حادثہ سے کچھ فاصلے پر سڑک سے صحیح سلامت مل گیا’ یہ کیسے ممکن ہوا؟۔
اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی پوری عمارت خاکستر ہو گئی مگر ہائی جیکر کے ہاتھ سے لکھا گیا ایک ”نوٹ” امریکیوں کے ہتھے لگ گیا جسے آگ نے چھوا تک نہیں ۔ایسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جو پوری دنیا سمیت خود امریکیوں کے ذہن میں ہیں اور انہی وجوہات کی بنیاد پر وہ سرکاری سطح پر کئے جانے والے دعووں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہی وہ حقائق ہیں کہ جن کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل جب نائن الیون حملوں میں مارے جانے والے بعض افراد اور انشورنس کمپنیوں کی طرف سے امریکہ میں مین ہٹن کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں سعودی حکومت کیخلاف مقدمہ دائر کیا گیا تو امریکی عدالت نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیاکہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے اس حوالہ سے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ بہرحال امریکیوں کی طرف سے نائن الیون حملوں کا الزام القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بعض سعودی شہریوں پر لگایا گیا اورالقاعدہ کی قیادت کے افغانستان میں موجودگی کا دعویٰ کر کے بارود کی بارش برساد ی گئی۔ اس دوران کسی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا اورکسی کو مجرم ثابت نہیں کیا گیا بلکہ خود ہی جج اور خود ہی منصف والا معاملہ کر کے امریکہ نے پوری دنیائے کفر کو ساتھ ملایا اور نہتے افغانوں پر چڑھائی کرکے دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا۔نائن الیون کے بعد جاری نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو بھی بہت زیادہ نقصانات سے دوچار اور ہزاروں شہریوں کو ڈرون حملوں کے ذریعہ شہید کر دیا گیا۔
اسی طرح امریکیوںنے عراق پر حملہ کر کے وہاں بھی لاکھوں مسلمانوںکا خون بہایا۔ عراق دس لاکھ فوج رکھنے والا مسلم دنیا کا ایک اہم ملک تھا جسے پچھلی دہائیوں میں امریکہ و اسرائیل نے پہلے سازش کے تحت عربوں اور ایران سے لڑا یا’اس کی قوت کو کمزور کیا اور پھرایٹمی ہتھیار رکھنے کے الزامات لگا کر اس کی بچی کھچی قوت کو برباد کر دیا گیا۔ اتحادی ممالک نے لیبیا اور شام کی بڑی جنگی قوت کو بھی تباہ کیااور اب سعودی عرب کا گھیرائو کرنے کی مذموم سازشیں کی جارہی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ خود جان بوجھ کر سعودی عرب سے تعلقات خراب کر رہا ہے۔ امریکی صدارتی امیدوارڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام مسلم امہ کے روحانی مرکز سعودی عرب پر حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ صا ف دکھائی دیتا ہے کہ ان کی انتخابی مہم کا مرکزی ایجنڈا ہی سعودی عرب کیخلاف بیان بازی اور اسے نقصان پہنچانا ہے۔ وہ اپنی انتخابی تقریروں کے دوران کسی قسم کے سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھ رہے یہی وجہ ہے کہ اقوا م متحدہ کی طرف سے امن کی سفیر انجلینا جولی بھی یہ کہنے پرمجبور ہو گئی کہ کیا اس ذہنیت کا آدمی امریکہ کا صدارتی الیکشن لڑ رہا ہے؟۔یعنی اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں سخت کشیدگی خود امریکہ کے دوہرے معیاراور منفی پالیسیوں کا نتیجہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
سعودی عرب نے ہمیشہ نائن الیون حملوں سے لاتعلقی کا اعلان کیاہے مگر اس کے باوجوداس کیخلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔میں سمجھتاہوں کہ یہ سب کچھ محض سعودی عرب پر دبائو بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے کیونکہ امریکی پالیسی ساز ادارے واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے برسراقتدار آنے کے بعد سعودی عرب اب پہلے والا ملک نہیں رہا۔اس کی پالیسیوں میں واضح تبدیلی آئی ہے۔دوسری جانب سعودی عرب بھی اس بات کو شدت سے محسوس کر رہا ہے کہ یمن اور شام سمیت خلیج میں اسے جو مسائل درپیش ہیںاس سلسلہ میں امریکیوںنے ان سے وفا نہیں کی۔ شام میں بشار الاسد حکومت روس اور بعض دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر نہتے سنی مسلمانوں کا وحشیانہ انداز میں قتل عام کر رہی ہے جس کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے اور اب خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ داعش جیسے تکفیری گروہوں کو کچلنے کے حوالہ سے بھی امریکہ دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہے۔ داعش کے جہاز سمندروں کے ذریعہ کھلے عام تجارت کر کے بے پناہ سرمایہ حاصل کر رہے اور سعود ی عرب و دیگر مسلمان ملکوں کو کمزور کر ہے ہیں۔ مساجدومدارس اور پبلک مقامات پر حملے کر کے بے گناہوں کو نشانہ بنایا اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی آگ بھڑکائی جارہی ہے مگر امریکہ و یورپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ مسلمان ملک مغربی ممالک کے باجگزار بن کر رہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ سعودی عرب کی موجودہ قیادت نے حالات کو بھانپتے ہوئے اپنی سلامتی و استحکام کیلئے جرأتمندانہ اقدامات اٹھائے اورپاکستان کے ساتھ مل کر مسلمان ملکوں کو باہم متحد کرنے کی کوشش کی ہے جس پر سبھی بیرونی قوتوں کویہ بات کسی طور ہضم نہیں ہو رہی۔سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے 34ملکی اتحاد اوردنیا کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کے انعقاد نے عالم کفر کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ وہ مسلم ملکوں کا رخ مغرب کی طرف سے ہٹتے دیکھ کرانہیں معاشی طور پر تباہی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ نائن الیون حملوں میں مارے جانے والوں کو سعودی عرب کیخلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کی اجازت دینے کا بل منظور کرنا انہی سازشوں کا حصہ ہے۔ اگرچہ امریکی صدر اوبامہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بل کو ویٹو کر دیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حوالہ سے سب کچھ ملی بھگت کے تحت ہو رہا ہے۔
امریکی قانون کے مطابق اوبامہ اس بل کو ویٹو کر سکتے ہیں لیکن اگر کانگریس اراکین دوبارہ اس بل کو زیادہ اکثریت سے پاس کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں توپھر امریکی صدر کے پاس اسے ویٹو کرنے کا بھی اختیا رنہیں ہو گا۔ اس لئے یہ بات طے شدہ ہے کہ امریکہ اس بل کی تلوار سعودی عرب پرلٹکائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ دبائو برقرار رکھ کر وہ اپنے مفادات حاصل کر سکے لیکن سعودی عرب ، پاکستان اور ترکی جس طرح باہم مل کر پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں امریکیوں کے یہ حربے اب ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہو ں گے۔ سعودی قیادت کی جانب سے ضرورت پڑنے پر امریکہ میں موجود 750ارب ڈالر کے اثاثوں کی فروخت اور ویژن 2030ء کے تحت اپنی معیشت کے تیل پر انحصار کی بجائے صنعت و تجارت کو مضبوط کرنے کی پالیسیوں کا اعلان بہت بڑی تبدیلی کا آغاز ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ملک اپنے مشترکہ دفاع کے ساتھ ساتھ مضبوط معاشی پالیسیاں بھی تشکیل دیں تاکہ اغیار کی سازشوں کا متحد ہو کر مقابلہ کیا جاسکے۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکی و دیگر ملک اگر باہم ایک رہتے ہیں تو پندرہ سال بعد نائن الیون حملوں میںسعودی عرب کو ملوث کرنے کی کوششیں ان شاء اللہ ناکام رہیں گی۔ آخر میں میں یہاں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ نائن الیون کا مقدمہ سعودی عرب پرتو نہیں بنتا تاہم اس کی آڑ میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کا مقدمہ امریکیوں پر ضرور بنتا ہے اور وقت آنے پر یہ مقدمات ضرور بنیں گے۔
پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی
برائے رابطہ: 0321-4289005