تحریر : شفقت اللہ خاں سیال
میں صبح کے ٹائم تقریبا دس بجے کے قریب یوٹیلٹی سٹور کے سامنے سے گزار رہا تھا۔ کہ کیا دیکھتا ہوں۔ ایک مردوں کی لمبی قطار اور دوسری طرف عورتوں کی لمبی قطار لگی ہوئی دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اسی قطار کے ایک شخص سے پوچھتا ہوں بھائی خیر تو ہے۔ اتنی لمبی لمبی قطار یں کس لیے لگی ہوئی ہے۔وہ بولا کہ بھائی کیا بتائو۔چینی آٹا لینے کے لیے کھڑے ہیں۔ دو گھنٹے ہو گئے ہیں لیکن نمبر نہیں آ رہا۔ اسی دوران ایک شخص چینی کی بوری لے کر اندر سے باہر بھیڑ کو چیرتا ہوا آ رہا تھا۔میں یوٹیلٹی سٹور کے انچارج سے جا کر پوچھا۔کہ جناب یہ شخص کون ہے۔کہ یہاں غریب آدمیوں اور عورتوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔اور آپ اس شخص کو پوری بوری چینی دی ہے۔کیا بات ہے۔تو اس نے کہا کے یہ ایک سیاسی ورکر ہے۔بھائی ہم نے نوکری کرنی ہے۔
اگر نہیں دینگے ۔تو ہم کو نوکری کون کرنے دے گا۔میں نے اس کو کہا کہ آپ اتنی عوام کو تنگ کر رہے ہوکیا آپ کو اللہ پاک سے خوف نہیں آتاہے۔اگر اس کے بندوں کوتنگ کروگے۔تو کیا ہوگا۔میری بات سن کر وہ خاموش ہوگیا۔میں آپ کی اس بات سے متفق ہو۔جو شخص حق اور سچ کی بات نہیںکرسکتا جوشخص انسان کی بھلائی نہیں کرسکتا ہے۔وہ کبھی کسی کے ساتھ بھی اچھاسلوک نہیں کرسکتا ۔اس کا ضمیر مردہ ہوچکا ہوتاہے۔وہ کبھی کسی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرئے گا۔میرے باربار کہنے پر لوگوں نے پوچھا کہ یہ ضمیر ہے کیا۔اس سے کیا مرادہے۔اگر ضمیر مردہ ہوجائے میں ان تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے۔جس کا ضمیر مرداہو جائے گا۔اس کو منافق کہتے ہیں۔جس کی کوئی بخشش نہیں۔اس کی کوئی معافی نہیں۔زندہ ضمیر رکھنے والے کبھی کرپشن نہیں کرتے ۔اپنے فائدے کے لیے کسی کا حق نہیں کھاتے۔جس کا ضمیر زندہ ہو وہ کبھی کسی کا نقصان نہ کریگا اور نہ ہی ہونے دے گا۔
بادشاہ ہویا کھیت میں ہل چلانے والا اس کے مکمل ہونے سے مرادہے۔کہ اس کا ضمیر زندہ ہے۔کبھی نہ عوام اور نہ ہی کوئی غریب اس سے پریشان ہو سگتا ہے۔ایک بادشاہ تھا جس کی بہت بڑی ریاست تھی۔اس کے ایک صوبے میں کوئی نہ کوئی پریشانی ہر وقت رہتی تھی۔کبھی سکون نہیں ہوا۔اور اس بات نے بادشاہ کو دکھی کیا ہوا تھا۔وہ کسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش نہیں رہ سگتا تھا۔ایک دن وہی بادشاہ سیر کرنے کے لیے ایک علاقہ سے گزار رہا تھا۔کہ ایک شخص دوبیل جوڑ کر کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔اس نے اپنے بیلوں کو چھڑی ماری جو بادشاہ سلامت نے دیکھ لی۔اور اس شخص نے بھی دیکھا۔اس نے بادشاہ کی بات سن رکھی تھی۔کسی پر ظلم ہوتا نہ دیکھ سکتے تھے۔بادشاہ نے اس شخص کو دیکھا اور سیر کرنے کے بعد واپس چلے گئے۔دوسرے دن بادشاہ نے اپنے وزیر کوحکم دیا کہ کل جو شخص کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔اس کو فوری پیش کیا جائے۔بادشاہ کے حکم کے مطابق اس شخص کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو شاہی لباس دیا جائے۔اور فلاں علاقے میں گورنرلگا دیا۔اور کہا کہ آج کے بعد تم اس علاقے کے گورنر ہو۔اس شخص نے بادشاہ کا حکم مانا اور اس علاقہ کی طرف روانہ ہوگیا۔جس کا اس کو حکم ملا تھا۔جب وہ اس علاقے میں پہنچا ۔وہاں روٹی کھانے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔وہاں پر روٹی کھانے بیٹھ گیا۔روٹی کھانے کے بعد جب روٹی کے پیسے دینے گیا۔تووہاں پر ایک سپاہی ہوٹل والے کوتھپڑ مار رہا تھا۔اور ساتھ کہ رہا تھا۔کہ تم ہم سے پیسے مانگتے ہوتم کوشرم نہیں آتی ۔ہم یہاں کے مالک ہیں۔اس وقت اس شخص نے ساری باتیں سنی۔اور سپاہی کو کہا کہ تم اس کے پیسے کیوں نہیں دیتے ہو۔تو اس نے کہا تم کون ہو اور یہاں سے چلے جاو۔ورنہ تمھارا برا حال کرونگا۔وہ شخص اس علاقے کے گورنر کے پاس گیا۔اس کوبادشاہ کا حکم سنایا۔اور کہا کہ آپ بادشاہ کے پاس حاضر ہو۔اور خود گورنر کے عہدہ پر فائز ہوگیا۔دوسرے دن تمام عہدے داران کو حاضر ہونے کا حکم نامہ جاری کردیا۔جب سب کے سب حاضر ہوگے۔تو حکم دیا کہ فلاں جگہ پر ایک سپاہی ہے اس کومیرے سامنے حاضر کیا جائے۔اور جب اس کوحاضر کیا گیا۔
اس کی تمام باتیں سننے کے بعد حکم دیا کہ اس سپاہی کو پھانسی دے دی جائے ۔اس چوک میں جہاں پر یہ ڈیوٹی کرتا ہے۔اس کا بڑا تھانیدار آیا۔کہ سزا معاف کر دیں۔اور ساتھ حکم دے دیا۔اس جمعرات کو ان دنوں کو اسی چوک میں پھانسی دے دی جائے۔اس کے بعد اس شہر کا کوتوال صاحب آگے۔اور شفارش کی کہ میں اس علاقے کا کوتوال ہوں۔لہذامہربانی کی جائے۔اور ان کو معاف کیا جائے۔گورنر کوغصے میں آکر بولے۔اس سے اگلی جمعرات اس شہر کے کوتوال کوبھی اسی چوک میں پھانسی دے دی جائے۔اور پورے شہر کواطلاع کردو۔اورجوبغاوت کرئے گا۔یا حکم نہیں مانا گیا۔
اس کا انجام پھانسی ہوگا۔اس طرح چار پانچ جمعرات اسی طرح کے حکم جاری کردے۔اور پھر پورے علاقے میں سکون ہوگیا۔اس علاقہ میں کرپشن ۔لوٹ مار وغیرہ سب کچھ ختم ہوگیا۔کرپشن کا نام نشان بھی ختم ہوگیا۔کیسے ہوا سب نے یہ سوچا کہ جوشخص اپنے محکموں کو معاف نہیں کرتا۔وہ ہم کو معاف کیا خاق کرئے گا۔یہ سوچتے ہوئے کئی تو شہر ہی چھوڑ گئے۔اور کئی نے حرام کھانا چھوڑدیا۔کافی عرصہ گزار جانے کے بعد جب کوئی شکایت نہ ملی تو بادشاہ نے اس علاقے کو چیک کرنے کے لیے اس علاقے کی طرف روانہ ہوگئے۔جب اس علاقے میں پہنچے تو لوگوں سے پوچھا ۔کہ اس علاقے میں کوئی پریشانی تونہیں۔سب نے کہا کوئی نہیں پہلے تو زندگی بہت تنگ تھی۔لیکن اب جب سے نئے گورنر آئے ہیں۔زندگی خوشحال ہے۔تو پھر بادشاہ سلامت گورنر ہاوس گئے۔جا کر دیکھا تو گورنر بڑے آرام سے بیٹھے ہوئے تھے۔
گورنر نے بادشاہ کے آنے کے بعد اپنے علاقے میں اعلان کروا دیئے۔کہ اگر کوئی شکایات ہوں تو بادشاہ سلامت کے سامنے آجائے۔بادشاہ سلامت حیران ہوگئے۔اور گورنر سے پوچھا کہ آپ نے علان کیوں کروایا ہے۔اس نے کہا بادشاہ سلامت ہوسکتا ہے کہ ابھی بھی کوئی بات ہوگی۔تو سامنے آجائے گی۔سچائی کبھی چھپ نہیں سکتی۔بادشاہ نے پوچھاآپ نے آخر کار کیا کیا ہے۔بادشاہ سلامت اور تو کچھ نہیں صرف جرم کرنے اور شفارش کرنے والوں کو صرف سزا موت دی ہے۔اور جو جرم کرتا ہے اس کو موقعہ پر سزا دیتا ہوں۔کوئی شفارش اور کسی سے مذکرات نہیں کیے۔سزا جزا کا نظام جو میرے اللہ پاک نے قائم کیا ہے۔اور چند دن کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔بادشاہ سلامت اس سے بہت خوش ہوئے۔خیر میں بات کررہا تھا۔ضمیر کی جس کا ضمیر زندہ ہوتا ہے۔وہ اپنے گھروالوں کو اپنے بچوں کو حلال رزق سے ان کی پرورش کرتا ہے۔ان کو پڑھتا ہے۔
آج کے اس مہنگائی کے دور میں لوگوں کے گھروں کا چولہا بڑی مشکل سے جلتا ہے۔اور یہاں ایسے لوگ ہے ۔جن کے بچے اچھے سے اچھے پرائیویٹ سکول کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہے۔ان کے گھروں کے اخراجات دیکھو تو معلوم ہوتا ہے۔جیسے کہ ان کے باپ داد ا نے ان کے لیے زمین جائیداد چھوڑ گئے ہو۔آج آپ محکمہ بلڈنگ ۔لوکل گورنمنٹ۔ٹی ایم اے۔پبلک ہیلتھ۔محکمہ ہیلتھ ۔ہائی وے ۔کنٹرول پرائس وغیرہ جس محکمہ کو بھی دیکھے ۔اور ہر محکمہ کا وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف اوروزیراعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف صاحب اپنی خصوصی ٹیم جن میں نیک ایماندار فرض شناش آفیسرز ہو۔وہ ہر محکمہ کا ایمانداری سے آڈٹ کرئے ۔تو آپ کو معلوم ہو جائے گا۔کہ کس نے کیا کیا گل کہلائے ہیں۔محکمہ لوکل گورنمنٹ۔پبلک ہیلتھ۔ٹی ایم ایز وغیرہ نے لا تعداد کام کروائے ہے۔لیکن اس کے باوجود شہر میں ہر طرف مٹی اڑتی نظر آئے گئی۔ہر محکمہ کا آڈٹ ہوتا ہے مگر کسی کو آج تک کوئی سزا نہیں ملی۔
ذرائع کے مطابق ٹی ایم اے جھنگ میں کچھ عرصہ پہلے کچھ سکیمیں کینسل کی گئی تھیں ٹی ایم اے کے آفیسران نے ان کی پیمنٹ کردی اگر ایسے لوگوں کے خلاف کاروائیاں کی جاتی تو آج شہر میں ہر طرف مٹی اڑتی نظر نہ آتی۔محکمہ ہیلتھ کو ہی دیکھ لے۔شہر ہو یا گائوں آپ کو ہر جگہ عطائی ڈاکٹرزلیڈی ڈاکٹرز جو اپنے پرائیوٹ کلینکوں اور ہسپتال بنا کر باہر بڑے بڑے بورڈ لکھوادیتے جس پر کسی ایم بی بی ایس ڈاکٹریا ساتھ میں لیڈی ڈاکٹر کا نام ہوتا ہے۔یہ لوگ جو انسانی زندگیوں سے دن رات کھیلنے میں مصروف عمل ہے۔ان کے خلاف سخت ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا۔
آج شہر میں کسی بھی فروٹ فروش۔چکن فروش۔گوشت فروش۔سبزی فروش۔کریانہ والا۔دودھ دہی والے وغیرہ ۔اکثر لوگوں نے اپنی ریڑھی ہو یا دوکان والا ریٹ لسٹ تو رکھی ہوتی ہے۔مگر سب چیزوں کا ریٹ اپنے مرضی کا گاہک سے وصول کرتے ہیں۔کوئی تو نیک ایماندار فرض شناش افسر ہوگا جو ان سب کو کنٹرول کرئے گا۔اور جو ہر محکمے میں کالی بھیڑیوں کا محاسبہ کرئے گا۔جس سے کوئی عوام کے دلوں کو سکون ملے گا۔
تحریر : شفقت اللہ خاں سیال