بعض اوقات کسی قاری کا ایک فقرہ ماضی کی وادیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ جتنی عمر اُسی قدر طویل ماضی، جتنا طویل ماضی اُسی قدر بڑا یادوں کا ذخیرہ، حالانکہ یہ یادیں نہیں مشاہدات ہوتے ہیں، جو انسان زندگی کے سفر میں اپنے حافظے میں محفوظ کرتا رہتا ہے۔ بہت سی یادیں مٹ جاتی ہیں، کچھ مدہم ہو جاتی ہیں اور کچھ زندگی بھر سدا بہار پھولوں کی مانند مہکتی رہتی ہیں۔ بروز منگل میرا کالم چھپا، جس میں خیبر پختونخوا کے اسپیکر کے مشورے کا ذکر تھا کہ عوام دو کے بجائے ایک روٹی کھائیں۔ جنوبی پنجاب کے کسی قصبے میں تعلیم و تدریس سے وابستہ ایک قاری کا ایس ایم ایس ملا کہ اب تو مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ مرچ بھی آٹھ سو روپے کلو ہو گئی ہے، ورنہ پرانے زمانے میں غریب عوام مرچ کی چٹنی بنا کر روٹی کھا لیا کرتے تھے۔ یہ فقرہ پڑھتے ہی مجھے بچپن کی ایک دعوتِ شیراز یاد آگئی، جو آج بھی میرے حافظے میں ایک تصویر کی مانند موجود ہے۔ قیامِ پاکستان کو ابھی چند ہی برس گزرے تھے۔ میں پرائمری اسکول میں شاید پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ دیہاتوں میں دو تین کے علاوہ باقی گھر کچے ہوتے تھے۔ قصبوں میں البتہ صورتحال بہتر تھی، غربت بہت تھی کیونکہ بدیسی حکمرانوں کو رعایا کی خوشحالی سے کوئی دلچسپی نہ تھی، البتہ یہ دور امن، یگانگت اور سکون کے حوالے سے یادگار دور تھا۔ جرائم عنقا تھے اور کبھی چوری چکاری کا ذکر تک نہ سنا تھا۔ طالبعلموں کا دوستوں کے گھروں میں آنا جانا اور مل کر والی بال، فٹ بال، گلی ڈنڈا کھیلنا معمول کی بات تھی۔ ایک روز مجھے میرا ایک ہم جماعت انور اسکول کے بعد اپنے گھر لے گیا۔ انور کی ماں نے کمرے کے درمیان میں دستر خوان بچھایا، اس کی بہنوں نے خربوزے کاٹے اور ان کے چھلکے اتارے، اس کے والد صاحب لسی کی ایک چھوٹی سی پٹوری لے آئے۔ انور کی امی نے تنکوں کے بنے ’’چھابے‘‘ میں تنوری روٹیاں رکھیں اور ان پر گھی کی ہلکی سی مالش کی، سبز مرچوں اور دھنیے پودینے کی چٹنیاں درمیان میں رکھیں۔ سارا خاندان گول دائرے کی شکل میں دستر خوان کے اردگرد بیٹھ گیا۔ میں نے گھی میں چپڑی تنوری روٹی مرچ کی چٹنی اور خربوزے کے ساتھ کھائی اور بعد میں گھر کی بنی لسی کے دو گلاس پیے تو یوں لگا جیسے تازہ دم ہو گیا ہوں۔ آج کی زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ یوں لگا جیسے سارے وٹامن کھا لئے۔ یہ ایک نسبتاً متوسط گھرانے کا لنچ تھا، ویسے متوسط گھرانوں میں سالن بھی پکتے تھے۔ فریج نہیں ہوتے تھے اس لئے تنگ دلی بھی نہیں تھی۔ شام کو بچ جانے والی ہنڈیاں مختلف گھروں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں اور اس تقسیم میں غریب خاندانوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ عجیب بات ہے کہ میں نے ملازمت کے سفر میں حکمرانوں، سربراہانِ مملکت، سفارتکاروں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی رنگا رنگ دعوتیں کھائیں، جو بھول گیا ہوں لیکن انور کے گھر کھائی ہوئی مرچ کی چٹنی نہیں بھولا۔ اس لئے میں نے جب یہ فقرہ پڑھا کہ اب مرچ کی چٹنی بھی غریب کی رسائی سے بالاتر ہو گئی ہے تو دل کو ایک دھچکا سا لگا، صدمہ سا ہوا اور مجھے چٹنی کی دعوتِ شیراز یاد آگئی۔
بچپن کا قصہ یاد آیا تو ایک خوفناک حد تک بارعب زمیندار اور انگریز حکومت کا خطاب یافتہ وفادار چوہدری یاد آگیا، جو انگریزوں کے دور میں اس علاقے کا متکبر حکمران تھا۔ تھانیدار بھی اس کی مرضی کا پابند ہوتا تھا۔ میں نے بزرگوں سے اس کے رعب داب اور جبر کی کہانیاں سنیں، جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ جب چوہدری ملازمین کے ساتھ اپنے وسیع وعریض دارے میں بیٹھا ہوتا تو وہاں چڑی بھی پر نہ مارتی اور لوگ ڈر کے مارے اس سڑک سے گزرتے نہیں تھے۔ اپنے ایک بزرگ سے ایک ا یسا واقعہ بھی سنا جو ذہن نشین ہو گیا۔ دوسری عالمی جنگ جاری تھی، انگریز حکمرانوں کو اپنی وسیع سلطنت(جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا) کی حفاظت اور بقا کیلئے نوجوان خون کی ضرورت تھی، چنانچہ انگریز حکمرانوں نے اپنے ہرکاروں کو متحرک کیا اور فوج میں بھرتی کیلئے افسران بھیجے۔ میرے اس بزرگ نے بتایا کہ چوہدری کے وسیع لان میں سینکڑوں کی تعداد میں جوان بیٹھے ہوئے تھے اور انگریز فوجی افسر رولز کے مطابق بھرتی کے عمل میں مصروف تھا۔ اس بزرگ نے ایک شناسا نوجوان سے پوچھا کہ کیا تم اپنی مرضی سے فوج میں بھرتی ہورہے ہو۔ وہ نوجوان خوف کے مارے بول نہ سکا اور اپنی پشت سے قمیص ہٹا دی۔ اس کی پشت پر چھڑیوں کی مار کے نشانات پھیلے ہوئے تھے۔ ہوا یوں کہ جب خان بہادر صاحب کو انگریز کا حکم ملا تو وہ اپنے سپاہی نما کارندوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور دیہاتوں کا رخ کیا۔ انہیں جہاں جہاں گلیوں، گھروں یا کھیتوں میں نوجوان نظر آئے، اُنہیں وہ جانوروں کی مانند ہانک کر لے آئے۔ انگریز حکمران اپنے وفاداروں کی قدر کرتا تھا اور انہیں خدمات کے عوض مختلف طریقوں سے نوازتا بھی تھا۔ علاقائی حکمرانی بذات خود ایک نوازش تھی، جس کی لذت آمرانہ عادات اور متکبر مزاج کو جنم دیتی تھی۔ میرے علاقے کے بہت سے گھبرو کڑیل جوان جنگ عظیم کا ایندھن بن گئے، میں نے بچپن میں بہت سے ایسے سابق فوجی دیکھے جنہیں جنگ عظیم نے ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا تھا۔ ایک ایسا ریٹائرڈ سپاہی بھی دیکھا جو گھر کی کھڑکی میں بیٹھا ہر گزرنے والے کو لیفٹ رائٹ کہتا رہتا تھا۔
وقت تیزی سے گزر جاتا ہے اور زندگی پہلو بدلتی رہتی ہے۔ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ انگریز چلے گئے، آہستہ آہستہ ملکی فضا بدلتی چلی گئی اور خوف کے سائے مٹنے لگے۔ لوگوں میں آزادی کے احساس نے دیرینہ خوف کی زنجیریں توڑنا شروع کردیں اور زبانوں پہ لگے قفل ٹوٹ کر گرنے لگے۔ ہمارے علاقے کا حکمران چوہدری بوڑھا ہو گیا، اس کا رعب و بدبہ رخصت ہو گیا۔ اسے مختلف بیماریوں نے گھیر لیا اور رہی سہی کسر فالج کے حملے نے پوری کردی۔ ہم چھوٹے چھوٹے لڑکے اور پرائمری اسکول کے طالبعلم ماضی کے خوف سے بےنیاز چوہدری کے وسیع گرائونڈ میں کھیلا کرتے تھے۔ چوہدری کے نوکر اسے ایک پہیوں والے صوفے پر بٹھا کر گھر سے دارے میں لے آتے، جہاں وہ بےبسی اور لاغری کی تصویر بنا برآمدے میں بیٹھا رہتا، پھر ہم نے کئی بار دیکھا کہ چوہدری کے وہی نوکر جو اس کے سامنے آنکھیں جھکائے خوف کے مارے بت بنے کھڑے رہتے تھے، اب کبھی کبھی چوہدری کے چہرے پر چانٹے بھی رسید کردیتے تھے، غصے سے ایک آدھ گالی بھی بلاجھجک دے دیتے تھے۔ چشم بینا ہو تو انسان قدم قدم پر عبرت سمیٹتا اور سبق حاصل کرتا جاتا ہے۔ میں نے اپنی نگاہوں سے تکبر، رعونت اور رعب ودبدبہ کو چکنا چور اور بےبسی میں بدلتے دیکھا۔ اس لئے جب میں حکمرانوں، بیوروکریٹوں، روساء، شہرت کے تکبر میں مبتلا دانشوروں اور میڈیا حضرات کو دیکھتا ہوں تو مجھے چوہدری کا وہ متکبر رخسار یاد آجاتا ہے، جس پر اس کے ملازم چپت رسید کرتے تھے، بالآخر تکبر کا کچھ ایسا ہی انجام ہوتا ہے۔