تحریر: ڈاکٹر قاسم خورشید ،
ہندوستانی فلموں کی سو سالہ تاریخ کو ملحوظ رکھتے ہوئے مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ ادب کے فروغ میں فلموں نے اہم ترین رول ادا کیا ہے۔ جب بھی ادب میں عوامی سروکاروں کا معا ملہ زیر بحث ہواکرتا ہے تو عام آدمی ہمارے پیش نظر ہوتا ہے اور یہی عام آدمی فلموں ، مقبول عام ادب، تفریحی ادب او ر عوامی ادب سے براہ راست جڑا ہوتا ہے۔ بعض مصلحتوں کے پیش نظر ہم اس عام آدمی کو اپنے نام نہاد ادب سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی جو تخلیق ہماری سمجھ سے دو ر ہو جو تخلیق، بڑی عرق ریزی کے بعد اپنے مفاہم واضح کرنے کی کوشش کرے ہم عموماً ایسے ادب کو دانشوروں کے حوالے کردیا کرتے ہیں اوریہیں سے عام اذہان رکھنے والے لوگ ہم سے دور ہوجاتے ہیں۔ پریم چند ، سعادت حسن منٹو، مہا دیوی ورما، نرالا، غالب، مومن، مخدوم محی الدین، شہریار، ندا فاضلی اور اردو ہندی کے مختلف تخلیق کار ہیں جن کا تعلق فلموں سے براہ راست بھی رہا ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ انہیں عوامی شہرت دلانے میں فلموں نے بھی بہت اہم رول ادا کیا ہے۔
پہلی متکلم فلم ”عالم آرا ”کو ہی ہم پیش نظر رکھیں اور اس میں پیش کردہ شاعری کو ملحوظ رکھا جائے اور یہ سوچ کر ہرگز اس پر تبصرہ نہ کیا جائے کہ اس کا تعلق فلم سے ہے میں سمجھتاہوں کہ اگر خالص ادبی معاملات کو پیش نظر رکھ کر ایسی شاعری پر گفتگو کی جائے تو اس میں ادب کے وہ تمام تر لوازمات موجود ہیں جو کسی نہ کسی طور پر ہماری شاعری کے لئے لازم وملزوم قرار دیئے جاتے ہیں ۔ مگر ”عالم آرا ”یا اس کے بعد آنے والی ایک صدی پر محیط فلمی شاعری یا فکشن کو پیش نظر رکھیں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ہم نے عموماً فلموں سے اس کی معیاری شاعری فکشن کو ادب سے محض اس لئے دور رکھا ہے کہ ہمارے نانہاد نقاد اس سے تفریح تو کرتے رہے ہیں مگر اسے ادب میں کوئی مقام عطا کرنے کے نام پرخود کو دور رکھنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ دراصل یہ محض اعتماد یا اپنے واضح نظریہ کے ترسیل کی کمی کا معاملہ ہے ۔ہم یہ جانتے ہیں کہ جس طرح تمام ادب کسی بھی دور میں قابل قبول نہیں رہا ہے اسی طرح ہر طرح کی فلمیں بھی ہمارے معیار کو ایک طرح سے کرنے میں کامیاب نہیں رہی ہیں۔
جب کبھی ہم فلموں میں اردو کے فروغ پر گفتگو کرتے ہیں تو کسی نہ کسی جہت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اردو ہندوستان میں ابھر نے والی مخلوط تہذیب کی ترجمانی کرنے والی واحد زبان ہے جو محض اس لئے مقبول ہوئی کہ اس نے تمام ہندوستان کو نہ صرف یہ کہ اپنے اندر سمیٹ لیا بلکہ ہمیں قوت گویائی بھی عطا کی ۔ معاملہ یہ ہے کہ ہندوستان اور خصوصاً غیر منقسم ہندوستان میں ہر چند میل کے فاصلے پر علاقائی زبان کا لہجہ واضح طور پر سنائی دیتا ہے ۔ علاقائی زبانیں یقینا اہم ہوا کرتی ہیں لیکن ہمیں ایک ایسی زبان کی ضرورت بھی تھی جو نہ صرف یہ کہ سبھوں کے لئے قابل قبول ہو بلکہ ہم اپنے آپ کو مہذب لہجہ میں پیش کرنے کے اہل بھی ہوسکیں۔
اردو نے ایسی ہی ضرورت کو نہ صرف یہ کہ پورا کیا بلکہ یہ ایک طرح سے ہمارے دل کی ، ہماری روح کی، ہماری ضرورت کی زبان بن گئی ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو فلموں کے فروغ میں اردو کبھی قابل قدر نہیں ہوتی ۔ فلموں کی ایک صدی گواہ ہے کہ بالی ووڈ کی فلموں کی تاریخ اردو کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اپنے پھیلے ہوئے بازار میں قابل قبول یا قابل قدر ہوسکتی ہے ۔ میں اس بحث میں جانا نہیں چاہتا کہ فلموں میں اردو کے استعمال کے باوجود اسے سند کس زبان کی دی جاتی ہے لیکن عوامی سطح پر یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اردو کے استعمال کے بغیر ہندوستان میں عموماً کامیاب فلموں کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اردو چونکہ تہذیب سے وابستہ زبان ہے اسی لئے جب کبھی فلموں کے نغمے ، مکالمے ، کہانیاں تحریر کی گئیں تو اس میں اردو ہی حاوی رہی ۔ ظاہر ہے کہ ہم خوبصورت مکالمے ، خوبصورت شاعری یا خوبصورت کہانیاں ہی سننا پسند کرتے ہیں اس لئے عوام کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے سہل طریقہ سے ہی سہی اس کی معیار سازی بھی کی ہے۔
اردو میں رسم الخط کا معاملہ ممکن ہے زبان سے بعض اوقات دوریوں کا سبب ہو مگر ترسیل کی سطح پر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جن لوگوں کو رسم الخط کی جانکاری نہ ہو وہ اردو نغموں ، مکاملوں کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں ۔ یہاں محض اشاروں میں اپنی بات کہنے کی کوشش کررہا ہوں کیونکہ فلموں سے ہر کس وناکس کی کسی نہ کسی طور پر وابستگی رہی ہے اس لئے بہت زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس قماش کی کئی فلمیں ہیں جو محض اپنے مکالموں یا نغموں کی وجہ سے قابل قدر ہیں جیسے کہ پہلی منظوم فلم ہیرانجھا کوہی لیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کیفی اعظمی کے نغمات نے اسے نہ صرف یہ کہ ایک خاص بلندی عطا کی بلکہ اس فلم نے یہ بھی ثابت کیا کہ ایک طویل فلم محض منظوم مکالموں کی وجہ سے بھی عوامی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے او ر اس پر اگر نغمے معاونت کریں تو پھر ایک خوبصورت فلم اپنی تمام تر توقعات کے ساتھ عوام میں ہر دل عزیز ہوجاتی ہے ۔ مجھے یاد آرہا ہے وہ شہرۂ آفاق نغمہ جس کے اشعار تھے
ان کو خدا ملے ہے خدا کی جنہیں تلاش
مجھ کو بس اک جھلک مرے دلدار کی ملے
اس طرح اگر یادوں کے دریچے وا ہوجائیں تو ایسے نغمات کا ایک طویل سلسلہ ہے جو آج بھی پوری تازہ کاری کے ساتھ مختلف نسلوں میں منتقل ہورہے ہیں ۔ نظم یا غزل کے اشعار کہیں ذہن کے نہا ںخانوں میں عموماً گونجتے رہتے ہیں۔
مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح
……
چراغ دل کا جلائو بہت اندھیرا ہے
کہیں سے لوٹ کے آئو بہت اندھیرا
……
مرا تو جو بھی قدم ہے وہ تیری راہ میں ہے
کہ تو کہیں بھی رہے تو مری نگاہ میں ہے
……
یہ کون آیا کہ روشن ہوگئی محفل کس کے نام سے
میرے گھر میں جیسے سورج نکلا ہے شام سے
……
پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
……
آج بجھڑے ہیں کل کا ڈر بھی نہیں
زندگی اتنی مختصر بھی نہیں
……
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے
چہیر تما م لگنے لگے ہیں عجیب سے
……
گزرے ہیں آج عشق میں ہم اس مقام سے
نفرت سی ہوگئی ہے محبت کے نام سے
……
میں کوئی پتھر نہیں انسان ہوں
کیسے کہوں غم سے گھبراتا نہیں
……
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہے آنکھیں مجھ میں
راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ جنگارہ ہے
……
دن بھر دھوپ کا پربت کاٹا شام کو پینے نکلے ہم
جن گلیوں میں موت بچھی تھی ان میں جینے نکلے ہم
……
چھولینے دو نازک ہونٹوںکو کچھ اور نہیں ہے جام ہے یہ
قدرت نے جو ہم کو بخشا ہے وہ سب سے حسیں انعام ہے یہ
……
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس وبے جان سا کیوں ہے
………
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
………
ہم نے دیکھی ہے ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو
پیار کو پیار ہی رہنے تو کوئی نام نہ دو
یہاں بعض ایسے نغمہ نگاروں کا ذکر ناگزیر ہے جن کے حوالے سے فلم اور ادب کا رشتہ بہر حال مستحکم بھی ہوا ہے اور صحت مند بھی۔ اس لئے کہ ان شاعروں نے ادب میں بھی اپنی اہمیت کو اسی بلند معیار کے ساتھ قائم رکھا جس معیار کی شاعری انہوں نے فلموں کے لئے کی۔ ان میں آغا حشر کاشمیری، آرزو لکھنوی، تنویر نقوی ، قمر جلا ل آبادی، راجا مہدی علی خان، شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی ، مجروح سلطانپوری، حسرت جئے پوری، کیفی اعظمی، گلزار، جان نثار اختر ، گوپال سنگھ نیپالی، شیلندر، ندافاضلی، شہریار، جاوید اختر، ابراہیم اشک وغیرہ خصوصی طور پر قابل قدر رہے ہیں۔
ان نغمہ نگاروں کی سب سے بڑی خوبی یہ رہی ہے کہ انہوں نے عوام کے معیار کو بہت ہی سہل انداز میں بلند کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں یہاں فلموں کی تاریخ کے حوالے سے آغا حشر کاشمیری کا ذکر اس لئے ناگزیر ہے کہ ایک زمانے میں تھیڑ اور فلموں کا گہرا رشتہ رہا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہندوستان میں متکلم فلموں کا دور شروع کرنے میں تھیٹر نے ہی اہم رول ادا کیا ہے۔ عموماً آغا حشر کاشمیری یا ان کے بعد کے ڈرامہ نگاروں کے یہاں نغموں کے ذریعہ اپنی کہانی کو آگے بڑھانے کا چلن عام تھا۔ ظاہر ہے ہیرانجھاکا تجربہ تو بعد کا لیکن اس کی تحریک دراصل ڈراموں سے ہی ملی تھی ۔اس میں آغا حشر کی منظوم شاعری / مکالمے نے خاصا اہم رول ادا کیا ، شیریں فرہاد ، دل کی آگ ، قسمت کا شکار اور آتشی طوفان ،عورت کا پیاروغیرہ ان کی اہم ترین فلمیں ہیں ۔ آغا حشر کاشمیری کے کئی مصرعوں یا اشعار کو بعد کی فلموں میں بھی استعمال کیا گیا ۔ شیلندر نے آغا حشر کے ایک مکھڑے پر یہ اشعار قلمبند کئے تھے جو بہت مشہور بھی ہوئے ۔
سجنوا بیری ہوگئے ہمار
چٹھیا ہو تو ہر کوئی باچے
بھاگ نہ باچے کوئی
کرم وابیری ہوگئے ہمار
آغا حشر کاشمیری کا ایک شعر تو فلموں یا عوامی زندگی میں خاص موقع کے لئے نہ صرف یہ کہ ضرب المثل بن چکا ہے بلکہ کسی زمانے میں فلم اسی شعر سے شروع ہوا کرتی تھی
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
میں نے کہا ہے کہ ایک رجحا ن کے طور پر ہم یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہمارے تخلیق کاروں نے ہر دور میں کس طرح فلموں کو عوام سے ایک مخصوص معیار کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔اگر اور آگے بڑھیں تو شکیل بدایونی کی خدمات کو بھی ہم فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ وہ دور تھا جب فلمی نغموں کے ذریعہ ایک طرح سے ادب کو بھی فروغ دیا جارہا تھا ۔ شکیل بدایونی کاکلام لگ بھگ ہر گھر میں گونج رہا تھا۔
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہا ں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
……
لگے ہیں شمع پر پہرے زمانے کی نگاہوں کے
جنہیں جلنے کی حسرت ہے وہ پروانے کہاں جائیں
……
نصیب میں جس کے جو لکھا تھا جو تیری محفل میںکام آیا
کسی کے حصے میں پیاس آئی کسی کے حصے میں جام آیا
……
یہ کیا زندگی ہے یہ کیسا جہاں ہے
جد ھر دیکھئے ظلم کی داستاں ہے
… …
پھر تیری کہانی یاد آئی پھر تیرا فسانہ یا آیا
پھر آج ہماری آنکھوں کو اک خواب پرانا یا دآیا
……
تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے
گھڑی بھر کو ترے نزدیک آکر ہم بھی دیکھیں گے
……
تری خاطر ستم دل پہ گوا رہ کرلیا میں نے
کہا کس نے محبت سے کنارہ کرلیا میں نے
……
آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے
درس میں ڈوبے گیت نہ دے غم کا سسکتا ساز نہ دے
یا پھر یہ کہ :
کوئی ساغر دل کو بہلاتا نہیں
بے خودی میں بھی قرار آتا نہیں
زندگی کے آئینے کو توڑدو
اس میں اب کچھ بھی نظر آتا نہیں
میں کوئی پتھر نہیں انسان ہوں
کیسے کہہ دوں غم سے گھبراتا نہیں
شکیل بدایونی نے ایک طرح سے فلمی ٹرینڈ کو بدلنے کے عمل میں یہ کوشش بھی کی کہ آنے والے شاعروں کے لئے راہ کچھ اس طرح ہموار ہوجائے کہ ہم ادب اور فلموں کے رشتوں کو مستحکم کرنے میں کسی بھی طرح دشواری محسوس نہ کریں بلکہ تخلیقی توانائی کے ساتھ عوام سے وابستہ ہوجائیں۔ مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، راجا مہدی علی خاں، جانثار اختر، شیلندر، گلزار، ندا فاضلی، جاوید اختر اور شہر یا ر وغیرہ نے پوری شدت کے ساتھ ایسی معیار سازی کی کہ اردو خود بخود عوام کی پسند کا ایک بلند معیار تصور کی جانے لگی۔
اسی طرح اگر ہم فلموں میں فکشن کو پیش نظر رکھیں تو پریم چند سے لیکر سلیم جاوید تک ایک لمبا اور بے حد خوبصورت سلسلہ ہے جو ہماری فلمی تاریخ کے سنہرے ابواب پر مشتمل ہے ۔ پریم چند اردو یا ہندی فکشن کا ایسا نام ہے جسے ہمارا ادب معیار کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ گئودان پریم چند کا اہم ترین ناول ہے ۔ یہاں میں یہ کہتا چلوں کہ کوئی بھی تخلیق کاراپنے تخلیل کی پرواز کے دوران تصویری امیج ذہن ودل کے نہاںخانے پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ تصویری عمل اس کی تحریر تک پہنچتے پہنچتے کسی حد تک ہی واضح ہوپاتا ہے مگر جب یہ کام اسکرین پلے رائٹر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس فکشن کو پوری توانائی کے ساتھ تصویروں کے لامتناہی سلسلوں سے جوڑ دیتا ہے۔ گئودان یا اس طرح کے ناولوں یا افسانوں پر جو فلمیں بنیں انہیں بھی اس عمل سے گذرنا پڑا ۔ا س لئے ادب کے فروغ میں عوامی سطح پر فلم کا اتنا بڑا رول ہوجاتا ہے کہ ہم کسی بھی طرح اسے نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ پرنٹ میڈیا کے ذریعہ ہمار ا ادب مخصوص طبقہ تک ہی پہنچ پاتا ہے لیکن جب فلم بن جاتی ہے تو تصویروں کے توسط سے بڑی آبادی تک ہم ا س کی ترسیل کرپاتے ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ پریم چند کی کہانیوں ناولوں کے علاوہ شوکت تھانوی کے مذاحیہ ناول ، منٹو کی کہانی، عصمت چغتائی، مرزا رسو،کرشن چندر، خواجہ احمد عباس ، کمال امروہی، سلیم جاوید، راجندر سنگھ بیدی، اختر الایمان، آغا جانی کشمیری، گلزار ،وضاحت مرزا، ابر ار علوی ، اورایسے ہی دوسرے فکشن نگاروں کی تخلیقات سے مزین رہی ہیں ہماری شہرہ آفاق فلمیں۔
اردو کے علاوہ بنگلہ ، تیلگو ، مراٹھی ، کنّڑ ، انگریزی او ردوسری زبانوں میں بھی جو فلمیں بنی ہیں ان میں اپنی زبان کی منتخب تخلیقات کو بھی بخوبی شامل کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں ۔ ہندی میں منتقل ہونے والی ایسی فلموں کی تعداد بھی خاصی ہے جو ہندوستانی یا بیرون ممالک کی زبانوں کے شہ پارے پر مبنی ہیں ۔فلموں کی اپنی شعریات ہوا کرتی ہے۔ ویژوئل میڈیم میں پیش کش کا طریقہ الگ ہوجاتا ہے ۔کبھی کبھی کئی صفحات پر مشتمل تفصیلات فلموں میں کچھ لمحے میں ہی واضح ہوجاتی ہیں لیکن بعض ایسا بیانیہ بھی ہوتا ہے جو بظاہر بہت مختلف ہونے کے باوجود تخیلات کی بلندیوں سے مزےّن ہوتا ہے ۔ جب اسے فلم کے قالب میں ڈھالا جاتا ہے تو کارجہاں دراز ہوجاتا ہے ۔ یہ کام اسکرین پلے رائٹر ، ہدایت کار ، کیمرا پرسن، نغمہ نگار ، موسیقار ، ایڈیٹر کی اجتماعی کوششوں سے ایک نئی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔چونکہ سینما کا بنیادی تعلق تفریح سے ہے اس لئے صحت مند فلم سازوں کے ذریعہ بنیادی Content کو مجروح کئے بغیر فلم مکمل کی جاتی ہے ۔ مگر بعض ایسی فلمیں بھی ہیں جو آرٹ سینما کے نام پر بہت خشک ڈھنگ سے پیش کی جاتی رہی ہیں ۔ انہیں ایوارڈ وغیرہ مل جاتا ہے لیکن سنیما گھروں میں ناظرین نہیں ملتے ۔ میرا یہ ماننا ہے کہ عوام کی معیارسازی صحت مند تفریح کے ساتھ کی جانی چاہئے۔
چوں کہ فلم کا تعلق صنعت سے ہے او رجہاں کاروبار ہوتا ہے وہاں عموماً دل کی دنیا موہوم سی ہوجاتی ہے اور اس کاروبار میں عموماً فنکار تنہا بھی ہوجاتا ہے ۔لیکن پتھروں کو بھی تان سین کی موسیقی کے توسط سے پگھلانے کا کام بہر حال انتہائی صبر آزما اور ناقابل فراموش عمل رہا ہے۔ مگر ہمارے جن تخلیق کاروں نے ایسا کچھ کردکھا یا ہے انہیں یقینالیجنڈ کے طور پر دنیا یاد رکھے گی ۔ بھلے ہی ہم یہ سوچتے رہیں کہ :
کاروبار شوق میں بس فائدہ اتنا ہوا
تجھ سے ملنا تھا کہ میں کچھ اور بھی تنہا ہوا
تحریر: ڈاکٹر قاسم خورشید ،
Mob: 09334079876
Email: quasimkhursheed@gamail.com