counter easy hit

مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی یا اپنی اپنی سیاسی دوکانیں چمکانے کا فن، تحریر راجہ حبیب

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بارے دنیا بھر میں احتجاج ہوتے ہیں۔ یہ احتجاج میڈیا کوریج لیتے ہیں۔ میڈیا کوریج کے دوران بہت سے ان احتجاجی مظاہروں ، سیمیناروں، اجلاسوں کے سیاسی کارکن مقبول ہو جاتے ہیں اور مقبولیت سیاسی کارکنوں کی کمزوری ہو جاتی ہے۔ سیاسی کارکن جب مقبول ہو جاتے ہیں تو پھر لیڈر بن جاتے ہیں اور سیاسی ایونٹس کی قیادت کا شوق ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ سیاسی ایونٹس کی جب قیادت کرتے ہیں تو اس ایونٹ کی خبر میں نمایاں مقام کا تقاضا کرتے ہیں اور ہم جیسے قلم کار یا کیمرہ مین کوریج کرتے وقت ان کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ یوں بھرپور میڈیا کوریج کے بعد وہ پکے لیڈر بن جاتے ہیں اور فیملی، دوستوں یا کمیونٹی کے پروگرام میں جب تشریف لے جاتے ہیں تو ایک لیڈر کی حیثیت سے انہیں اچھی نشست پر بٹھایا جاتا یے اور اس طرح انہیں محافل میں موجود بہت سارے لوگوں میں مخصوص عزت افزائی ملتی ہے جس پر انہیں دلی سکون نصیب ہوتا ہے۔ ایک طرف مظلوم کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچ رہی ہوتی ہے جبکہ دوسری جانب ان کی آواز بلند کرنے کیلئے متحرک سیاسی کارکن لیڈر بھی بن جاتے ہیں اور یوں اس عمل کو خوش آئند قرار دینے میں حرج نہیں۔

CONSOLIDATION, WITH, KASHMIRIS, OR, TO, ADVERTISE, OWN, TRADING, RAJA HABIBCONSOLIDATION, WITH, KASHMIRIS, OR, TO, ADVERTISE, OWN, TRADING, RAJA HABIB

تاہم مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب کسی لمبی و طویل جدوجہد کے بعد سیاسی کارکن سے لیڈر بننے والے شخص کو دیکھ کر اس کے ہم سفر بھی اس جیسا مقام سالوں کے بجائے دنوں میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیں یا سیاسی کارکن بننے سے پہلے ہی ڈائریکٹ لیڈر بننے کی خواہش احباب کے ذہنوں میں سوار ہو جائے اور اس سے بڑھ کر لیڈری کی خواہشات لئے ایک نہیں دو نہیں بلکہ متعدد شخصیات میدان میں اتر آئیں اور ان کا نعرہ بھی ایک ہو تو کمیونٹی تقسیم ہو جاتی ہے۔ نعرہ ایک لیکن سیاسی دوکانیں مختلف سج جاتی ہیں تو پھر اس نعرے کو پسند کرنے والے عام لوگوں کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا یے کہ کون سی سیاسی دوکان پر جاکر وہ نعرہ لگائیں۔ اس اثناء میں سیاسی دوکانوں والے اپنی اپنی سیاسی دوکان پر کشش پیدا کرتے ہیں، سخاوت کا مظاہرہ بھرپور طریقے سے کیا جاتا ہے اور لنگر شریف کا بندوبست بھی کر دیا جاتا ہے اور یوں لوگ مزید تقسیم ہو جاتے ہیں۔ لنگر کے شوقین افراد تو بھرپور استفادہ حاصل کرتے ہیں لیکن خوداری میں زندگی بسر کرنے والے عام لوگ کون سی سیاسی دوکان پر جائیں ان کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر ان سیاسی دوکاندار کو ہائے ہائے کرنے میں حق بجانب ہیں جو مظلوم کشمیریوں کی آواز دنیا تک پہنچانے کے بجائے اپنی اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی کوشش کرتے ہیں اسی سے ملتی جلتی صورت حال آجکل پیرس میں مقیم کشمیری کمیونٹی میں بھی پائی جاتی ہے جس کا عملی اظہار اٹھائیس اکتوبر کو سامنے آیا، ایک ہی نعرہ ، ایک ہی مقصد، ایک ہی مقام۔ ایک ہی وقت۔۔۔۔مگر پروگرام ہوئے علیحدہ علیحدہ۔۔نعرہ تھا کشمیر کی آزادی، مقصد تھا ستائیس اکتوبر یوم سیاہ کی مناسبت سے احتجاجی مظاہرہ، مگر صورت حال اس وقت عام لوگوں کے لئے باعث فکر بنی جب ایفل ٹاور کے سامنے سابق وزیر اعظم آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی قیادت میں ایک احتجاجی مظاہرہ جاری تھا کہ درجن سے زاہد لوگوں کا ایک قافلہ نمودار ہوا اور پہلے سے جاری مظاہرے میں لیکر رہیں گئے آزادی کے نعروں میں ہم آواز بننے کے بجائے چند گز کے فاصلے پر اکٹھے ہو یہی نعرہ لیکر رہیں گئے آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ پھر کیا تھا دونوں گروپوں کی نعرے بازی ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مظاہرہ ایک ہی مقام پر ایک ہی وقت میں ایک ہی نعرہ لگانے کیلئے ہونا تھا تو علیحدہ علیحدہ کیوں؟ کیا یہ لوگ مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرنے آئے تھے یا اپنی اپنی سیاسی دوکان چمکانے؟ اگر سیاسی دوکان بھی چمکانے تھی تو وقت اور مقام کا تعین ہی ایک دوسرے سے مختلف رکھ لیتے!!! ایک امر قابل ذکر ہے کہ کشمیر کے نام پر دوکان لگانے والے تو لگا دیتے ہیں مگر اس دوکان کو چمکانے والے ہم جیسے قلم کار یا کیمرہ مین ہیں، ہم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ایسے حالات میں، ہر کسی کا فوٹو کا شوق پورا کریں یا بامقصد خبر یا فوٹوز؟ کسی ایک سیاسی دوکاندار کو کوریج دیں تو دوسرے کی جانب سے جانبداری کا الزام، دونوں کو کوریج دیں اور سچ پر رپورٹنگ کریں تو ہماری صحافت پر غیر ذمہ داری کا لقب، تاہم ہم قلم کاروں کو ہی اس پر توجہ دینا ہو گی۔ اگر ہمارے فوٹو اور خبریں اتنی سستی رہیں تو سستی شہرت والے درجنوں مارکیٹ میں آجائیں گئے اور یہ لوگ کمیونٹی کو تقسیم در تقسیم کریں گئے۔ نئے نئے لیڈر بنانے کے بجائے اس اہم مسئلے پر پہلے سے طویل جہد مسلسل والوں کو جائز مقام دیکر نئی نئی سیاسی دوکانوں کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ اگر ہر جگہ کشمیر کے نام پر کمیونٹی کو تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو ایک دن آئے گا جب ان مظاہروں میں لوگ نہیں آئیں گئے جس کا نقصان اس مظلوم کشمیری بچے کو ہو گا جس کی بینائی چلی گئ اور وہ دنیا بھر میں درد انسانیت رکھنے والوں سے یہ امید لگائے بیٹھا یے کہ اس کے حقوق کی آواز دنیا میں بلند ہو۔ جو لوگ اپنی ذاتی شہرت کیلئے مظلوم کشمیریوں کے نام پر سیاست کرتے ہیں وہ نہ ہی ان مظلوموں کے ساتھ مخلص ہیں بلکہ پیار محبت اور بھائی چارے سے رہنے والی کشمیری و پاکستانی کمیونٹی میں نفرتیں پیدا کر رہے ہیں۔ میری ان لیڈران سے مودبانہ، عاجزانہ گزارش ہے کہ خدارا اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی لیڈری شوق سے کریں لیکن مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے نام پر نفرتوں اور تقسیم کا بیج مت بوئیں۔

اگر کسی دوست کو تحریر اچھی نہ لگے تو اس سے معذرت

CONSOLIDATION, WITH, KASHMIRIS, OR, TO, ADVERTISE, OWN, TRADING, RAJA HABIB

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website